خبرنامہ

ہنگ پارلیمنٹ کا بھیانک خواب الیکشن کائونٹ ڈائون…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ہنگ پارلیمنٹ کا بھیانک خواب الیکشن کائونٹ ڈائون…اسد اللہ غالب

ولنگ سے بہتر گھنٹے پہلے عمران خان کے ہوش کے طوطے اڑ گئے اور اس نے چیخ و پکار شر وع کر دی ہے کہ ہنگ پارلیمنٹ بد قسمتی ہوگی اس سے یہ مطلب اخذ کرنا مشکل نہیں کہ الیکٹ ایبلز کی موسلادھار شمولیت اور مبینہ خلائی مخلوق کی طرف سے کندھا ملنے کے باوجود الیکشن کے بارے میں عمران خان کے سارے خواب چکنا چور ہو چکے ہیں۔ وہ دو روز پہلے بھی کہہ چکے کہ کسی مخلوط حکومت میں شامل نہیں ہوں گا۔ اس بیان سے بھی ان کا ذہن پڑھا جاسکتا ہے کہ الیکشن سویپ کرنے کے ان کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اب ان کے سامنے ہنگ پارلیمنٹ کا سیاہ بھوت ناچ رہا ہے جبکہ ان کے مخالفین ان کی اس شکست خوردہ سوچ کے پیش نظر یہ دعوے کرنے لگے ہیں کہ مخلوط حکومت بنی تو زرداری بہترین وزیراعظم ثابت ہوں گے، اس لیے کہ وہ اتحادی حکومت چلانے کا اچھا اور طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ دعویٰ کسی اور نے نہیں، عمران خان کو انکل کہنے والے بلاول بے بی نے کیا ہے بلاول کو یہ دعویٰ کرنے کی جرات کیسے ہوئی، اس لیے کہ اس نے پاکستان کے طول و عرض میں گھوم پھر کر اندازہ لگا لیا ہے کہ عمران خان کی سونامی کی لہریں ٹھس ہو گئی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار بھی اس امکان پر غور کرنے لگے ہیں کہ پری پول رگنگ اور شریف فیملی کے خلاف دھڑا دھڑ مقدموں، فیصلوں اور سزائوں کے باوجود ان کو پنجاب کے میدان میں چت کرنا مشکل ہو گا۔ شہباز شریف نے قلعہ لاہور کی فصیل کو مستحکم بنا دیا ہے اور اسے الیکشن میں صرف اتنا ہی نقصان ہوگا جتنا اسے کچھ لوگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں چلے گئے ہیں مگر ن لیگ پھر بھی پنجاب کی پہلی بڑی پارٹی کے طور پر ابھرتی نظر آتی ہے۔ ایم ایم اے بھی خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قابل ذکر تعداد میں سیٹوں پر قبضہ جما لے گی۔ تیسری طرف سندھ میں پیپلز پارٹی پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ قدم جمائے کھڑی ہے۔ عمران خان کے ساتھ نخریلا اور لاڈلا سلوک کیا جا رہا ہے، اس کی اے ٹی ایم مشینوں نے روپے پیسوں کی تجوریاں اوربوریاں کھول دی ہیں۔ اسے جیٹ طیارے اور ہیلی کاپٹر بھی فراہم کر دیے گئے ہیں ۔اس کے باوجود وہ پنجاب کی طرح سند ھ کے قلعے میں بھی شگاف ڈالتا دکھائی نہیں دیتا۔اس صورت میں پیپلز پارٹی ،ن لیگ اور ایم ایم اے بڑی آسانی کے ساتھ وفاق میں اتحادی حکومت بنا سکتی ہیں، ان کے مقابلے میں عمران خان بہت بھی مارا ماری کر لے اور آزاد امید واروں کے لشکر کی بولی بھی لگا لے پھر بھی اسے ایک ہنگ پارلیمنٹ ہی کا سامنا کرنا پڑے گا یہ صرف عمران خان کی بد قسمتی ہی نہیں بلکہ ملک ،قوم اور جمہوری و سیاسی نظام کی بھی بدقسمتی ہوگی۔ پچھلے دس برسوں میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتوں کی وجہ سے جو سیاسی استحکام آیا، اس پر بھی پانی پھر جائے گا، پتہ نہیں اس سے عمران خان نے کیا حاصل کیا، ملک اورقوم تو سراسر خسارے میں رہے۔ پاکستان کو یہ نقصان شروع دن سے لاحق ہے جب قائداعظم کی ناگہانی وفات کے بعد نہ تو آئین بن سکا اور نہ کوئی سول حکومت اپنی ٹرم پوری کر سکی، راتوں رات حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جاتا تھا اور صبح کے دھندلکے میں نئی کابینہ بن چکی ہوتی۔ یہ طوائف الملوکی کی بد ترین صورتحال تھی اور نہرو نے اس پرپھبتی کسی تھی کہ وہ سال میں اتنے پاجامے نہیں بدلتا جتنی پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں۔ ملک میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے پیچھے جو قوت کارفرما تھی،وہ بالآخر سامنے آگئی اور اس نے سیاست دانوں کو سینکڑوں کی تعداد میں نا اہل قرار دے کر خود اقتدار پر قبضہ کر لیا، یہ کارنامہ آرمی چیف جنرل ایوب خان نے انجام دیا تھا۔ وہ گیارہ برس تک ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا رہاا اور جب اس نے اپنی حکومت کمزور ہوتے دیکھی تو اقتدار اگلے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کو منتقل کردیا۔ یحییٰ خان نے بہت بڑا پاپ کمایا اور ملک کو دو لخت کر کے رکھ دیا۔ پھر سیاسی حکومت کا ایک مختصر سا وقفہ آیا جس میں بھٹو نے کٹے پھٹے پاکستان کا حلیہ درست کرنے کی کوشش کی، دستور بنایا۔ نحیف و نزار ملک کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی مگر اسے آرمی چیف جنرل ضیا ء الحق نے یہ صلہ دیا کہ پھانسی پر چڑھا دیا اور خود اگلے گیارہ سال تک ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنا رہا ۔اس نے بھٹو کی بیگم صاحبہ، ان کی بیٹی اور ان کی پارٹی کے سینکڑوں کارکنوں کو قید و بند میں مبتلا کیے رکھا اور آخرکا انہیں جلا وطن کر دیا۔ ضیا الحق سے ملک کی جان تب چھوٹی جب ایک طیارے حادثے میں اس کی اپنی جان چلی گئی۔ وہ تا حیات باوردی صدر رہنے کے لیے آئین میں ترمیم کروا چکا تھا۔ ضیاء الحق کے منظر سے غائب ہونے کے بعد پھر سے سیاسی حکومتوں کا ایک دور آیا مگر اگلے گیارہ برس میں پھر حکومتیں بنتی رہیں، ٹوٹتی رہیں کبھی بینظیر کبھی نواز شریف اور آخر آرمی چیف جنرل مشرف اور ان کے ساتھی فوجی جرنیلوں نے نواز شریف کا دھڑن تختہ کر دیا اور یوں گیارہ سال تک ملک میں فوجی حکومت قائم رہی یہ ایک اتفاق کی بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد گیارہ، بارہ برس تک ہی سول حکومت چلتی رہی، اس کے بعدبارہ سال فوجی حکومتیں آئیں۔ ضیا ء الحق کے بعد بھی دس گیارہ برس تک ہی سول حکومتوں نے قدم جمائے اور پھر اقتدار ایک عشرے تک جرنیلوں کے ہاتھوں میں چلا گیا اب یہ حساب لگاتے میرا قلم لڑکھڑا رہا ہے کہ مشرف کے بعد ایک بار پھر سول حکومتوں کا دس سال کا دور ختم ہوچکا۔ خدا سے دعا یہ ہے کہ کہیں سابقہ مثالوں کی طرح اقتدار پھر سول ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔ اس حشر سے محفوظ رہنے کے لیے سیاستدانوں کو ہو ش کے ناخن لینے ہوں گے، باہمی محاذ آرائی پر قابو پانا ہوگا، بلیم گیم سے گریز کرنا ہوگا تاکہ آنے والا الیکشن نتیجہ خیز ثابت ہو سکے۔ عمران کے خدشات ہنگ پارلیمٹ کے سلسلے میں درست ثابت نہ ہوںاور عوام آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ماحول میں اپنے مینڈیت کا اظہار کر سکیں۔ ماضی میں الیکشن کے بعد دھاندلی کے الزامات سننے میں آتے تھے لیکن اب الیکشن سے پہلے ہی ہر پارٹی دھاندلی کا شور مچا رہی ہے اور کوئی بھی یہ یقین کرنے کو تیار نہیں کہ غیر ملکی طاقتیں مداخلت کررہی ہیں بلکہ الزام یہ ہے کہ ساری مداخلت اندرون ملک سے ہو رہی ہے۔ انگلیاں اٹھانے والے فوج کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جبکہ فوج نے بار بار ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ فوجی ترجمان بھی ایک بریفنگ میں برملا کہہ چکے ہیں کہ ساڑھے تین لاکھ جوان الیکشن کمیشن کی درخواست پر سکیورٹی کی ڈیوٹی ادا کریں گے۔ دو روز پیشتر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی الیکشن سپورٹ سنٹر کا دورہ کیا اور قوم کو یقین دلا یا کہ فوج پچیس جولائی کو الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی پوری پابندی کرے گی اور آئینی حدود سے تجاوز نہیں کیا جائے گا، بہر حال بہتر ہوتا کہ الیکشن کا اعلان ہوتے ہی سیاسی قیادت، الیکشن کمیشن اور فوج کے نمائندے اکٹھے بیٹھتے اور ایک روڈ میپ پر اتفاق رائے کر لیتے تاکہ یہ جو شکو ک وشبہات سر اٹھا رہے ہیں، ان کی نوبت نہ آتی۔ میں کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں کہ پاکستان پر جب بھی کوئی بدقسمتی نازل ہوئی تو الیکشن کی آڑ ہی میں نازل ہوئی، ا سلئے حالیہ الیکشن کے سلسلے میں ہر ادارے اور ہر سیاسی پارٹی کو محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے تھا مگر اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور صرف خیر کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ وہ بھی اگر اللہ سن لے۔