خبرنامہ

یار مار امریکہ…..اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

یار مار امریکہ…..اسد اللہ غالب

اس اصول پر عمل کرتے ہوئے امریکہ نے پاکستان کی سیکورٹی امداد معطل کردی ہے اور اصرار کیا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے نیٹ ورک کو تباہ کرے۔

پاکستان نے پچھلے پندرہ برسوں کے دوران وارآن ٹیرر میں امریکہ کا ساتھ نبھایا مگر وہ اپنی عادت سے باز نہیں آیا، ڈو مور ڈو مور کے مطالبے کرتا رہا، پاکستان نے تنگ آ کر نو مور کہا تو امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد بند کر دی، وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اس پر فقرہ کسا ہے اور بجا طور پر کسا ہے کہ امریکہ یار مار ہے، خواجہ آصف کے کسے ہوئے فقرے روزمرہ اور محاورہ بن کر زبان زد عام ہو جاتے ہیں، اب امریکہ کے بارے میں ان کا تبصرہ ضرب المثل کی صورت اختیار کر جائے گا۔
پاکستان میں امریکی دھمکیوں پر ہر روز اور ہر سطح پر ردعمل دیا جا رہے، سابق وزیراعظم نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے سفارتی آداب کا خیال بھی نہیں کیا اور پاکستان کو جھوٹا اور دھوکے باز کہہ ڈالا۔ انہوں نے تو تجویز دی کہ کسی طرح ہمیں امریکی امداد کے بغیر زندگی گزارنے کا سلیقہ اختیار کرنا چاہئے، پنجاب کے چیف منسٹر شہباز شریف نے کہا ہے کہ امریکی امداد بند ہو جائے تو اس سے عام آدمی کو قطعی فرق نہیں پڑے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کھری کھری سنائی ہیں اور امریکہ پر واضح کیا ہے کہ وہ کسی مہم جوئی سے باز رہے اور یاد رکھے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور وہ ایک ایسی فوج کے سپاہ سالار ہیں جس نے دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں دیں، وزیر دفاع نے متنبہ کیا ہے کہ امریکہ کوئی شرارت کر سکتا ہے تو دوسری طرف فوجی ترجمان نے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ ہمیں حکم ملا تو امریکی ڈرون مار گرائیں گے۔ قومی اسمبلی کی دفاعی کمیٹی نے بھی ایک طویل اجلاس میں امریکی دھمکیوں پر غور و خوض کیا اور متفقہ قومی بیانئے پر زور دیا۔
امریکی بے وفائی سے ہر کوئی آشنا ہے، امریکہ کسی کو استعمال کرتا ہے اور پھر وجہ بتائے بغیر اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے، اس وقت پاکستان کا ساتھ چھوڑنے کے لئے امریکہ حیلے بہانے تراش رہا ہے ورنہ افغانستا ن میں سویت روس کے خلاف بارہ سالہ جہاد کے بعد امریکہ نے پاکستان سے یوں نظریں بدلیں جیسے کبھی ایک دوسرے کو جانتے تک نہ تھے، حالانکہ اس جنگ کے لئے پاکستان نے عظیم قربانیاں دیں، ستر لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ ایک طرف اور دو درجن کے قریب جہادی تنظیموں کی تربیت اور ان کا کنٹرول ایک طرف جس کے نتیجے میں سوویت روس کو افغانستان سے پسپا ہونا پڑا اور ساتھ ہی سوویت روس پارہ پارہ ہو گیا۔ اس قدر تاریخی کارنامے پر امریکہ نے پاکستان کو شاباش تک نہ دی۔ الٹا پاکستان کی یہ کہہ کر امداد بند کر دی کہ یہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، بھٹو دور میں پاکستان امریکی اقتصادی پابندیوںکا شکار رہا اور جب افغان جہاد شروع ہوا تو امریکہ نے جس قدر امداد کی پیش کش کی اسے جنرل ضیا نے مونگ پھلی کے برابر کہہ کر مسترد کر دیا۔
پاکستان نے اس سے پہلے سوویت روس کے خلاف جاسوسی کے لئے پشاور کے نزدیک بڈھ بیر کا فضائی اڈہ امریکہ کو فراہم کیا، سیٹو اور سینٹو میں شمولیت اختیار کی اور دنیا سے کمیونزم کے خاتمے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ ادھر کمیونزم کا خطرہ ختم ہوا، ادھر امریکہ نے صلیبی جنگوں کا اعلان کر دیا، امریکی صدر بش نے نائن الیون کے حملوں کے دس منٹ بعد ہی اسے اسامہ بن لادن کا شاخسانہ قرار دے دیا اور اپنی فوجیں افغانستان میں اتار دیں جہاں سے افغان طالبان نے اپنی میزبانی کی روایات کے پیش نظر اسامہ بن لادن کو بے دخل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ افغانیوں کا یہ انکار امریکہ کے نزدیک بہت بڑا اور ناقابل معافی جرم بن گیا۔
اب دیکھئے پاکستان کا جرم کیا ہے۔ جنرل اسمبلی میں فلسطین کے حق میں قراداد پیش ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ کا یہ فیصلہ منظور نہیں کہ وہ القدس میں سفارت خانہ منتقل کرے اور مزید یہ کہ القدس تو فلسطین کا دارالحکومت ہے، امریکی صدر ٹرمپ اس قرارداد پر آپے سے باہر ہو گئے، پہلے انہوںنے طعنہ دیا کہ امریکہ کا مال کھانے والے اب امریکہ کے خلاف ووٹ بھی دیں گے، پھر دوسرے ہی سانس میں انہوں نے دھمکی دی کہ جو ملک امریکہ کے خلاف ووٹ دے گا، اس کی امداد بند کر دی جائے گی۔ اس دھمکی کے تحت سب سے پہلے پاکستان اور پھر فلسطین کی امداد بند کر دی گئی ہے، امریکہ کے خلاف ایک سو اٹھائیں ووٹ پڑے تھے جن میں انڈیا بھی شامل تھا، اب نزلہ پرعضو ضعیف کے مصداق امریکہ کا کسی اور پر بس نہیں چلا اسلئے پاکستان اور فلسطین کے خلاف ایکشن لے لیا گیا ہے۔
امریکہ اتنا بہادر ہے تو چین روس، انڈیا کے خلاف بھی ایکشن لے کر دکھائے ، امریکہ کے یورپی ساتھی ووٹنگ سے غیر حاضر ہو گئے تھے، اور ریکارڈ شکست کا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ کو اقوام متحدہ کی تاریخ میں صرف نو ووٹ مل سکے۔امریکہ کی طاقت نہیں ہے کہ وہ دنیا بھر کے خلاف ایکشن لے، اس لئے اس نے رٹ لگانا شروع کر دی ہے کہ پاکستان کی امداد کی بندش کا تعلق فلسطین ووٹ سے نہیں، اور امریکہ بے چارہ کیا بہانہ کرے، ساری دنیا میں نکو بننے والا امریکہ اب یہی کہے گا کہ پاکستان کی امداد توحقانی گروپ کے خلاف آپریشن نہ کرنے کی وجہ سے روکی گئی ہے، اب امریکہ سے کوئی پوچھے کہ پاکستان نے شمالی وزیرستان میں کئی سال تک جو آپریشن ضرب عضب کیا اور اپنے جوانوں اور افسروں کی شہادتوں کا نقصان اٹھایا تو کیا پاکستان وہاں کسی جناتی یا ہوائی مخلوق کے خلاف تو بر سر پیکار نہیں تھا۔
امریکہ تینتیس ارب کا احسان جتلا رہا ہے جبکہ بہی کھاتہ کھولا جائے تو پاکستان کے نقصانات اس سے کئی گنا زیادہ ہیں، چند روز قبل وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ پاکستان کو وارآن ٹیرر میں ایک سو بیس ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امریکہ نے جو ادائیگی کی اس میں چودہ ارب تو جنگی اخراجات کی مد میں آئے، اورا س مد میں ابھی مزید کئی ارب امریکہ کی طرف واجب الادا ہیں۔
امریکہ کو ایک بنیادی نکتہ یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستانی قوم بھاڑے کی ٹٹو نہیں ہے، وہ دوستی میںتوکسی بھی حد تک جا سکتی ہے مگر طعنے ملیں گے تو وہ خدا حافظ کہنے میں ایک لمحہ کی تاخیر نہیں کرے گی،۔ شکر ہے کہ خود امریکہ نے خدا حافظ کہہ دیا، پاکستانی قوم اس پر سجدہ شکر بجا لائے گی کہ امریکی احسانات کے بوجھ تلے سے چھٹکارہ ملا۔ رہ گیادہشت گردی کا مسئلہ تو پاکستان اس خطرے سے نبٹنے کے لئے امریکی امداد کی طرف نہیں دیکھے گا، وہ ملکی اور قومی مفاد کے تحت اس ناسور کو جڑ سے نکال پھینکے گا، ننانوے فیصد کامیابی مل چکی ہے، اب کچھ عناصر باقی ہیں جو افغانستان میں بھارتی را سے تربیت پا کر پاکستان کے درپے ہیں، ان کا سرغنہ کل بھوشن یادیو تو پکڑا جا چکا، رہے سہے عناصر بھی پاک فوج کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔