خبرنامہ

یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے۔۔اسداللہ غالب۔۔انداز جہاں

آگ تو صوابی کے جنگلوں یا پیرودھائی کی پہاڑی جھاڑیوں میں لگی مگر دھوئیں کی لپیٹ میں آیا شہر لاہور اور اس کے مضافا ت، اب ہر صبح پنڈی بھٹیاں ، حافظ آباد کے نواح میں موٹر وے پر کاریں آپس میں ٹکراتی ہیں ا ور انسانی لاشیں گرتی ہیں۔
شاعر نے کہا تھا آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک ،مگرادھر آہیں ہیں کہ ہونٹوں سے نکلتے ہی رنگ جما دیتی ہیں بلکہ رنگ میں بھنگ ڈال دیتی ہیں۔
میں پانچ روز پہلے جوہر ٹاؤن میں پروفیسر محفوظ قطب کے دفتر گیا، بڑی مشکل سے راستے نظر آتے تھے حالانکہ وہی سڑکیں تھیں انتہائی فراخ، مجھے وسوسہ لاحق ہوا کہ دورکی نظر تو کمزور نہیں پڑ گئی۔پروفیسر صاحب سے ذکر کیا کہ آج آپ تک پہنچنے میں دشواری ہوئی، وہ ماشاللہ چوراسی کے پیٹے میں ہیں ، کہنے لگے مسئلہ آپ کی آنکھوں میں نہیں،ماحول میں ہے، آج صبح ماڈل ٹاؤن پارک میں بیس گز دور کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا، یہ سن کر میری جان میں جان آئی، میری عمر میں وسوسے انسان کو لے بیٹھتے ہیں۔
تو پھر یہ ماحول کو کیا ہوا، سفید دھوئیں کی ایک دبیز چادر زمین سے �آسمان تک کیوں پھیل گئی کہ سورج بھی پردہ کرنے پر مجبور ہو گیا۔
مگر صاحبو! چند روز بعد ٹی وی پر خادم اعلی کی پھرتیاں دیکھیں، انہوں نے درجنوں محکموں کو طلب کیا، ماحولیات، موسمیات ا ور صحت والا محکمہ مخولیات بھی وہاں حاضر تھا،وہ نظر نہیں آئے جنہوں نے لاہور کو اس حال تک پہنچایا ہے ا ور وہ ہے اورنج ٹرین کے تاریخ ساز منصوبے کی تکمیل کے لئے دن رات کوشاں اورنج ٹرین والے جنہوں نے لاہور کو کھود کھود کر مٹی کے گردو غبار سے ڈھک دیا ہے۔ ہر روز لاکھوں لوگوں کے پھیپھڑے متاثر ہو رہے ہیں، ناک ایسے بہتے ہیں جیسے ندی نالے۔آنکھیں چندھیا سی جاتی ہیں ا ور ان میں خارش ایسی جیسے زہریلے کیڑے مکوڑے گھس گئے ہوں۔مزاج بھی چڑ چڑے، کہاں انسان روشنی کا عادی تھا ا ور کہاں اس کثیف، غلیظ، زہریلے مواد سے آلودہ سفید دھوئیں کا غبار۔
خادم اعلی حرکت میں آ گئے ہیں تو اس موسمی خرابی کا علاج بجی بھی ڈھونڈ نکالیں گے، ڈینگی مچھر کاا نہوں نے ایسے تعاقب کیا کہ اب ان مچھروں کی مائیں اپنے بچوں کو خادم اعلی کے نام سے ڈرتی ہیں بلکہ خود بھی ایسی خوفزدہ ہیں کہ انڈے لاروے دینا بھول گئے ہیں۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ بارش نہیں ہو گی تو یہ موسم ٹھیک نہیں ہو گا، تو بارش والا محکمہ کہتا ہے کہ دسمبر کے آخر تک بارشیں نظر نہیں آتیں اور دسمبر آ گیا تو اصلی دھند کا راج بھی ہو جائے گا۔
بچوں نے جب سے تجزیہ کاروں سے یہ سنا ہے کہ زہریلی دھند ایسے ہی چھائی رہے تو مہذب جمہوری ملکوں میں اسکول بند کر دیئے جاتے ہیں۔ہمارے ہاں سال کے شروع مں موسم کے ہاتھوں اسکول بند رہے ، ویسے ڈر تو دہشت گردی کا تھا، ہم نے کان ا لٹے پکڑے اور موسم کو الزام دیا، دہشت گردوں کو مطعون کرنے سے اجتناب کیا، یہ عقل مندی تھی کہ دہشت گردوں سے ناحق اور غیر ضروری چھیڑ چھاڑ نہ ہی کی جائے مگر موسم نے بھی چھیڑ خانی پسند نہیں کی اور سال کے اندر دوسری مرتبہ اس نے ہمارا یعنی اہل لاہور کا ناطقہ بند کر دیا۔
لاہور کی شامت کیوں آئی۔اس لئے کہ ہم نے شہر داری کے تقاضے ملحوظ نہیں کیا۔نہر کنارے درختوں کو بے رحمی سے کاٹا، پھر ہم فیروز پور روڈ پر چڑھ دوڑے اور اسے گنجا کر کے دم لیا، درمیان میں گلبرگ روڈ کی شامت آ گئی، اور اب چڑھائی ہے ملتان روڈ پر ، ہماری کوشش یہ ہے کہ سبزے کا نام و نشاں باقی نہ رہے ، ویسے آپ پی ایچ اے کا بجٹ دیکھیں تو یہ محکمہ تعلیم سے دگنا ہو گا، یہ محکمہ مال روڈ کے سالوں پرانے درختوں کے ساتھ گملے لٹکا کر کار گزاری دکھاتا ہے، شہر میں سارا سال پھولوں کا میلہ لگا رہتا ہے مگر فضائی کثافت کو صاف کرنے کی سکت ان نازک مزاج پھولوں کی کیاریوں میں کیسے آئے گی، یہ تو خود گردو غبار کے بوجھ سے مرجھا جاتی ہیں، ویسے سارا دن پانی کی ٹرالیاں ان کو دھونے میں مصروف رہتی ہیں، اگر اتنی کوشش ہم نے شہر اور ا سکے نواح میں شجر کاری پر کی ہوتی تو یہ زہریلا موسم نہ بھگتنا پڑتا۔
ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب شہر پھیلنے لگیں تو ، دور کہیں نئے شہر آباد کر لیا کرو، ہمارے ٹاؤن پلانروں نے اینٹ سے اینٹ جوڑ کر لاہور کو پتھروں اور کنکریٹ کے ڈھیروں میں تبدیل کر دیا ہے، میں ساٹھ کے عشرے میں لاہورآیا تھا تو ہر طرف ہریالی تھی، ساندہ میں کھیت تھے، چوبرجی کوارٹرز کے ساتھ راوی کے بند تک کھیت تھے ، اور اقبال ٹاؤن، جوہر ٹاؤن، ڈیفنس میں کھیت ہی کھیت تھے، مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہا جاتا تھاور واقعی یہ ٹھنڈی تھی، اب اس سے زیادہ گرم ا ور آلودہ سڑک دنیا میں کہیں نہیں۔
شاعر نے یہ ضرو رکہا تھا کہ کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد ،مگر یہ نہیں کہا تھا کہ ہرے بھرے کھیتوں اور درختوں کو اجاڑ کر بستیاں آباد کریں گے۔ مدینہ کا شہر شاید آج بھی حد نظر تک نہیں پھیلا، مکہ کا شہر بھی بے ہنگم نہیں ہے اورلندن، واشنگٹن، پیرس اور ٹوکیو بھی سبزے سے محروم نہیں ہیں، ٹوکیومیں جہاں انسان کے لئے قدم رکھنے کی جگہ نہیں ،وہاں درخت ضرور ہیں اور وہ بھی خوش رنگ ،پھولوں اور پتوں والے، ایک نظر دیکھنے سے ہی روح کو طروات ا ور بالیدگی ملتی ہے۔ پیرس کی شانزے لیزے کے درخت شاید صدیوں پرانے ہیں۔پرانے پیرس کے بعض علاقوں میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمارتیں درختوں کے سائے میں اگ آئی ہوں۔گلاسگو میں چودھری سرور کے گھر جانا ہوا تو ایسے لگا کہ اپنے گاؤں جا پہنچا ہوں، ہر سو درخت ہی درخت، کہیں درمیان میں گھر نے بھی گھر بنا لیا ہو۔مانچسٹر میں چودھری منظور کے گھر کی ڈرائیو وے سرکنڈوں سے اٹی ہوئی تھی،چودھری منظور آج کل گگو منڈی میں آنکھوں کا ایک فلاحی ادارہ چلاتے ہیں اور تحریک انصاف کے ہمدرد ہوا کرتے تھے، شاید وہ عمران خان کو یہ سبق دے سکیں کہ وہ نئے پاکستان کو حقیقی معنوں میں سرسبز بنائے۔
تو لاہوریئے اس جہنمی ماحول سے کیسے نجات پائیں گے، خادم اعلی کی کوئی ترکیب کام نہیں آئے گی، اللہ سے رجوع کرنا ہو گا، آفات میں اللہ ہی مدد کر سکتا ہے، یا دعا کریں کہ عدلیہ وہ سٹے آرڈر منسوخ کر دے جس کے تحت اورنج ٹرین کامنصوبہ التوا میں پڑا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اورنج ٹرین منصوبے کو من مرضی کرنے دی جائے ورنہ زندہ دلان لاہور کا شہر اس غلیظ، کثیف، زہریلے سفید دھوئیں کی چادر اوڑھے رکھنے پر مجبور رہے گا۔
اور یہ بھی کہیں سے معلوم کر لیں کہ ہر جمہوری ملک میں کل رقبے کا کتنے فی صد جنگلات پر مشمل ہو نا چاہئے۔ کوئی حل تو نکالنا ہو گا۔اذانیں دیں، الٹے ہاتھ کر کے دعائیں مانگیں۔توبہ تلہ کریں ۔سموک کو سموگ کہیں یا فوگ کہیں، دھواں کہیں، دھند کہیں، سراب کہیں یا کچھ نہ کہیں اور پنجاب حکومت کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے گھر سے باہر غیر ضروری طور پر نہ نکلیں، اندھیرے میں بالکل نہ نکلیں۔ موٹر وے پر سفر نہ کریں،کنٹینروں کی جگہ سموگ نے لے لی ہے ۔سنجیاں ہو جان گلیاں ، وچ مرزا یار پھرے۔