خبرنامہ

یہ ہے چینی مسلمانوں کی عید۔۔اسداللہ غالب

ہم مسلمان بڑے شکی مزاج واقع ہوئے ہیں اور عالمی میڈیا اس کا خوب خوب فائدہ ا ٹھاتا ہے ا ور ہمارے ذہنوں میں زہر بھرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتا۔
ہم با العموم یہ سمجھتے ہیں کہ غیر مسلم ممالک کے مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں۔چین اور روس کے مسلمانوں کے لئے تو ہم بے حد متفکر دکھائی دیتے ہیں۔
مگر مجھے یہ جان کر خوشگوا حیرت ہوئی اوریہ اطلاع چینی خبر رساں ایجنسی کے توسط سے ملی کہ چین کے دو کروڑ مسلمانوں نے عید الاضحی پورے جو ش وخروش سے منائی۔میں نے انٹر نیٹ پر کئی لنک کھولے تاکہ یہ دیکھ سکوں کہ جو ش و خروش سے مراد کیا ہے۔ آپ بھی یہ جان کرحیران ہوں گے کہ تصاویر میں چینی مسلمان نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد کے سامنے والہانہ رقص کررہے ہیں ، یہ شاید بنگڑا ہے ۔ میں نے بھگڑا کا لفظ اپنی طرف سے استعمال کیا ہے،ہر قوم کا اظہار مسرت کا طریقہ جدا جدا ہے، رقص کو آپ بھنگڑا کہہ لیں، لڈی کہہ لیں ، اچھل کو د،کوئی بھی نام دے لیں ۔
عید کے موقع پر مجھے برادرم یحی مجاہد کا پیغام ملا کہ چین کی ایک مسجد میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان جمع تھے۔ یحی مجاہد کے اس پیغام سے مجھے یہ تاثر ملا کہ ان کی جماعت لنگر لنگوٹ کس کر ہر جگہ جہاد کے لئے نہیں کود جاتی، بھارت نے اس جماعت کو خوب بدنام کر رکھا ہے مگر یہ جماعت صرف کشمیریوں پر بھارتی فوج کے بے پناہ مظالم پر احتجاج کرتی ہے اور یہ احتجاج حکومت پاکستان بھی کرتی ے اور توقع کی جا رہی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں اس سنگین مسئلے کو بھر پور انداز میں اٹھائیں گے۔
میں آپ کو بہت پیچھے لے جاتا ہوں، نوائے وقت کی ملازمت کے ابتدائی ایام میں مجھے فلم اورآرٹس کا صفحہ بھی خود مرتب کرنا پڑتا تھا، اس دنیا سے میرا دور دور کا تعلق نہ تھا، اسی دوران الحمرا آرٹس کونسل میں ازبک طائفے نے اپنا شو پیش کیا، میں تجسس کی خاطر میک اپ روم میں جا گھسا اور ایک ازبک خاتون آرٹسٹ سے سوال کیا کہ آپ مسلمان ہیں، اس نے جواب میں پوری سورہ الحمد سنا دی۔ وہ سووئت روس کے تسلط میں تیسری یا چوتھی نسل سے تعلق رکھتی تھی مگر اس کی رگوں میں ایک مسلمان نسل کا خون دوڑ رہا تھا اورا س کی زبان نے بھی ا سکی گواہی دی۔ مارکس اور لینن کاکمیونزم اس سے مذہبی حوالہ نہ چھین سکا۔
چین اب تک کمیونسٹ ہے اور ہم میں سے ہر ایک کا وہم ہے کہ چین کے مسلمان ماؤ زے تنگ کے سوشلسٹ فلسفے کے زیرا ثر اپنی شناخت کھو چکے اور چینی رنگ میں رنگے گئے، ہمارایہ بھی وہم ہے کہ سنکیانگ میں کوئی دہشت گرد تنظیم علیحدگی کے لئے جدو جہد کر رہی ہے، کبھی کبھار وہاں دھماکے بھی ہو جاتے ہیں ا ور چینی حکومت اس پر سخت رد عمل کا اظہار کرتی ہے، گزشتہ برس اورمچی کے ایک ہوٹل میں صبح سویرے دھماکہ ہوا جس کے بعد چینی صدر نے حکم دیا کہ قراقرم کی چوٹیوں پر آسمان تک ایک آہنی دیوار کھڑی کر دی جائے تا کہ دہشت گرد ان کے ملک میں داخل نہ ہو سکیں۔ دہشت گردی کو تو ہم بھی برداشت نہیں کرتے اوران کی بیخ کنی کے لئے ایف سولہ ، تھنڈر طیارے اور رانی توپیں استعمال کرتے ہیں۔ تو چین کیوں برداشت کرے گا۔ ہر ملک کو اپنی سلامتی کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔
مجھے چینی مسلمانوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کا شوق پیدا ہوا اور اب عید کے موقع پر میں نے خاص طور پر انٹرنیٹ کو کھنگال ڈالا، میری اب یہ جچی تلی رائے ہے کہ مغربی میڈیا نے عالم ا سلام کو چین سے متنفر کرنے کے لئے بے سروپا کہانیاں گھڑ رکھی ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ چینی حکومت انہیں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتی، اب دیکھئے روزے پر پابندی تو برطانیہ کے کئی اسکولوں نے بھی لگا دی، ایسی ہی خبریں امریکہ اور فرانس سے بھی آتی ہیں مگر ان کا یہ مطلب کیسے نکل آیا کہ ان ممالک مں مذہبی روا داری کا خاتمہ ہوگیا، یہ جو ٹرمپ صاحب روز پھل جھڑیاں چھوڑتے ہیں ا ور مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بناتے ہیں، اس رویئے کو امریکی عوام نے مسترد کر دیا ہے ا ور اوبامہ بھی کہہ اٹھے ہیں کہ حضرت ٹرمپ منصب صدارت کے اہل نہیں۔
چینی مسلمانوں کی مذہبی آزادی کی ایک گواہی مولانا امیر حمزہ نے بھی دی ہے، وہ حافظ محمدسعید کے قریبی ساتھی ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں خنجراب کا سفر کیا اور چینی مسلمانوں کی مذہبی آزادیوں کے بارے میں شرح صدر سے لکھا۔چین کی دوستی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے قلم سے چند الہامی فقرے سر زد ہو گئے۔۔خنجراب کی چوٹی پر برف باری کا منظر تھا۔ میں چند قدم آگے بڑھ کر چین کی سرزمین پر کھڑا تھا۔شہد سے میٹھے، پہاڑوں سے اونچے،اور سمندروں سے گہرے دوستوں نے اپنی دوستی کا نقش اس شاہراہ کے قدم قدم پر ثبت کرد یا ہے۔امیر حمزہ صاحب کی تحریر معلوماتی ا ور تحقیقی ہے، ان کا کہنا ہے کہ چینی صدر ایک مسجد میں آئے ا ور مسلمانو ں کو ترقی کے سفر میں شریک ہونے کی دعوت دی ، ان کی مذہبی آزادی کا یقین دلایا، ایک مسلم سنٹر قائم کیا جس کے برابر دنیا میں کوئی اور اسلامی مرکز نہیں، چینی مسلمانوں کی تنظیم کے صدرکووزیر کا درجہ حاصل ہے۔قربت کے اس رشتے کو پامال کرنے کے لئے عالمی سازشی کردار بھی درآئے ہیں ، وہ چین اور پاکستان کی دوستی کے خلاف ہیں ا ور سی پیک کو تہہ و بالاکرنے کے خواہاں ہیں، ا سی لئے چینی مسلمانوں کی حالت زار اور مظلومیت کہ فرضی کہانیاں اچھالی جاتی ہیں تاکہ دہشت گردوں کو چین کے سامنے کھڑا کیا جائے اور عالم اسلام میں چین کو بدنام کیا جائے۔
لیکن اس عید الا ضحی پر چینی مسلمانوں نے باقی عالم اسلام کی طرح ہی مساجد میں نماز ادا کی۔ہزراوں سر سجدے میں رب ذوالجلال کے حضور جھکے ہوئے، وہی چھریاں اور وہی بکرے اور بچوں کی خوشیاں لائق دید۔یہ ہے چینی مسلمانوں کی عید!!