خبرنامہ

حافظ محمد سعید کے حق میں ایک بڑی اور معتبر گواہی….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

حافظ سعید کو میری طرف آتے رہنا چاہئے، چند روز قبل جب انہوںنے ایک شام میرے ساتھ گزاری تو نہ مجھے اور نہ انہیں خبر تھی کہ یہ گھڑی تو بڑی سعد ہے کہ ا س گھڑی آرمی چیف سینیٹ کی کمیٹی کو ایک انتہائی اہم بریفنگ دیتے ہوئے حافظ محمدسعید کے بارے میں بڑی گواہی دے رہے ہیں۔ اس گواہی کی خبر پاکستانی میڈیا میں چھپی، بی بی سی اردو ڈاٹ کام نے بھی اس کی خبر مخصوص انداز میں دی ا ور بھارتی اخبارات نے بھی اسے نمایاں طور پر شائع کیا۔ گزشتہ روز جنرل غلام مصطفی سے میری بات چیت ہوئی تو انہوںنے بھی اس کی تفصیل بیان کی تو میں چونک اٹھا۔ ورنہ عام خبروں سے مجھے کوئی ا ندازہ نہیںہو پارہا تھا کہ کتنا بڑا واقعہ رونما ہو گیا ہے۔ نہ حافظ سعید کے کسی پیروکار نے میرے ساتھ یہ ساری معلومات شیئر کیں، خود میرا یہ حال ہے کہ اخبار پڑھنا میرے لئے ناممکن ہو گیا ہے، لکھنے کا شغل کسی طرح جاری ہے ، دیکھئے خدا ا سکی کب تک توفیق دیتا ہے۔

جنرل غلام مصطفی کے بقول سینیٹر پرویز رشید ہی کا ایک سوال یہ تھا کہ کیا آپ حافظ سعید اور ان کی جماعت لشکر طیبہ یا جماعت الدعوہ کی سرپرستی کرتے ہیں۔ پرویز رشید کے اصل الفاظ کیا تھے، وہ تو وہی جانتے ہوں گے مگر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ جواب تھا کہ فوج کسی خاص گروہ کی سرپرستی نہیں کرتی، حافظ سعید فلاحی کاموں میں حصہ لیتے ہیں اور اگر وہ کشمیر کے لئے درد مندی کا اظہار کرتے ہیں تو پاکستان کے ہر شہری کی طرح انہیں یہ حق حاصل ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سوچ بچار کریں اور مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جبر پر احتجاج کریں۔
اگرچہ سینیٹ کے چیئر مین ناراض ہیں کہ ان کیمرہ سیشن کی باتیں کیوں منظر عام پر آئیں لیکن اگر آ گئی ہیں تو کیا ہی بہتر ہو کہ وہ اس کو لفظ بہ لفظ جاری کر دیں تاکہ لوگ اپنے اپنے اندازے لگانے سے باز رہیں اور انہیں حالات کی ایک مکمل اور صحیح تصویر نظر آ سکے۔
میرے سامنے بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کا ایک تراشہ ہے جس نے سیاہ حاشیئے میں لکھا ہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ نے حافظ سعید کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے، بھارتی اخبار کو نمک مرچ لگانے کا شوق ہے،اس لئے وہ بہت دور تک نکل گیا ہے اورا س نے حافظ سعید کو ممبئی حملوں کا ملزم بھی لکھا ہے اور لوگوں کو یاد دلایا ہے کہ ا مریکہ نے انہیں دہشت گرد قرار دے رکھا ہے اور ان کے سر کی قیمت پچاس ملین ڈالر مقرر کر رکھی ہے، اس رقم کو پاکستانی روپوںمیں آپ خود منتقل کر لیجئے۔
انڈین ایکسپریس ہی نے مزید لکھا ہے کہ جنرل باجوہ کی اس بریفنگ سے چند روز قبل سابق آرمی چیف اور صدر جنرل پرویز مشرف بھی حافظ محمدسعید کو محب وطن کہہ چکے ہیں اور انہوںنے تسلیم کیا ہے کہ حافظ محمدسعید کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے سرگرم کردار ادا کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
جو لوگ جنرل باجوہ کی ا س بات پر لڈیاں ڈال رہے ہیں اور مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں کہ جمہوریت بچ گئی، الیکشن وقت پر ہوں گے، سینیٹ کے الیکشن شیڈول کے مطابق ہوں گے اور انہوںنے یہ بات بھی تسلیم کر لی ہے کہ فیض آباد دھرنے کے پیچھے فوج کاکوئی ہاتھ نہیں تھا اور اگر کوئی ثابت کر دے تو آرمی چیف ذاتی طور پر اپنے منصب سے مستعفی ہونے کے لئے تیار ہیں ، تو ان لوگوں کو حافظ محمدسعید کے بارے میں بھی اس آرمی چیف کی گواہی پر اعتبار کرنا چاہئے اور حافظ سعید کے بارے میں الم غلم باتیں اڑانے سے باز رہنا چاہئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں حافظ سعید کے دشمن وہی باتیں کرتے ہیں جو پاکستان کا دشمن ملک بھارت کرتا ہے۔ بھارت بھی انہیں دہشت گرد کہتا ہے اور ہمارے پاکستانی دوست بھی یہی الزام دہراتے ہیں، مجھے سینیٹر پرویز رشید کی دیانت پر کوئی شک نہیں ، وہ ایک سیلف میڈ انسان ہیں، ساری عمر انہوںنے سیاسی جدو جہد میں گزاری ہے، انہیں زیادہ احساس ہونا چاہئے کہ حافظ محمد سعید ان سے بھی زیادہ کڑی اور جانگسل جدو جہد میںمشغول ہیں، سینیٹر پرویز رشید ایک زمانے میں پنجاب کے غیر علانیہ وزیر اطلاعات تھے جب حافظ سعیدکی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی، ان کو گھر پر نظر بند کر دیا گیا، ان کی جماعت کے تمام ا سکول سرکاری تحویل میں لے لئے گئے اور فلاح انسانیت کی ایمبولنسوں کوسڑکوں سے غائب کر دیا گیا، میرے ذہن میں یہ سوال ہے کہ کیا ان ایمبولنسوں میں سڑکوں پر زخمی ہونے والوں کو ہسپتال منتقل کیا جاتا تھا ، کیا یہ سب کشمیری مجاہدین تھے جو پاکستانی سڑکوں پر زخم کھا رہے تھے اور فلاح انسانیت کی گاڑیاں انہیں ابتدائی طبی امداد کے لئے ایمرجنسی میں ہسپتالوںتک پہنچاتی تھیں۔جو شخص یہ سب معلومات ذاتی طور پر رکھتا ہو ، اس سے میں اس سوال کی توقع نہیں کرتا۔ اور اگر سوال کر ہی دیا گیا ہے تو جس طرح آرمی چیف کی باقی باتوں پر یقین کر لیا گیا ہے، ( اگر کر لیا گیا ہے ) تو آرمی چیف نے جو معتبر گواہی حافظ سعید کے بارے میں بھی دی ہے، اسے بھی قبول کیا جانا چاہئے اور کم از کم پاکستان میں تو حافظ سعید کو مطعون کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔
حافظ سعید کے نقادوں سے میرا سوال ہے کہ کشمیر کے لئے تڑپ اگر جرم ہے تو کیا ہم قائدا عظم کو بھی اس جرم کا سزا وار سمجھیں گے جنہوںنے سب سے پہلے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، اور افواج پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ بھارتی چنگل سے کشمیر کو آزاد کروائیں، کشمیر پر کسی آرمی چیف سے سوال ہی کرنا ہے تو یہ ہونا چاہئے کہ کیا آپ قائد اعظم کے حکم کی بجا آوری کے لئے آمادہ ہیں۔ ویسے کس قدر بدقسمتی ہے کہ پاک فوج نے جب بھی کشمیر کی آزادی کے لئے ذرا سی بھی سرگرمی دکھائی تو اسے ہمیشہ مطعون کیا گیا، آپریشن جبرالٹر پر آج تک تنقید کی جاتی ہے، کارگل کے آپریشن پر تو مشرف کے کورٹ مارشل کی بات کی جاتی ہے، جو قوم کشمیر کے لئے فوجی ا ٓپریشنوں کی مخالفت کرتی ہو ، وہ حافظ سعید پر لعن طعن کرے توچنداں عجب نہیں۔ ہاں ۔ یہ لوگ بھارت کے بارے میں زبان نہیں کھولتے جس نے سیاچین پر قبضہ جما رکھا ہے، جس نے پاکستان کے دریاﺅں کا پانی بند کر کے ہمیں فاقوں مارنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے ،جس کی فوج روزانہ وادی میں تڑ تڑ گولیاں چلاتی ہے ، جس نے کشمیری حریت پسند لیڈروں کو چند روز پہلے تہاڑ جیل منتقل کر دیا ہے ا ور ان کے خلاف دس ہزار صفحات کی چارج شیٹ تیار کر لی ہے، ادھر بھارت کے لئے یہ سب کچھ جائز ہے تو اسرائیل کے لئے کیوں جائز نہیں جس کے خلاف کل رات ہی کو دنیا کے ایک سو اٹھائیس ملکوںنے آواز اٹھائی ہے اور صرف نو ممالک کو امریکی حمایت کی جرات ہو سکی ہے، جنرل ا سمبلی کی یہ قرارداد امریکی صدر کے منہ پہ ایک زناٹے دار تھپڑ کے مترادف ہے جو کہہ رہا تھا کہ جس نے اس کے خلاف ووٹ دیا،اس کی امداد بند کر دوں گا، الحمد للہ پاکستان اس قرارداد کا ،کو اسپانسر تھا،حتیٰ کہ افغانستان بھی جہاں امریکی افواج کا براہ راست قبضہ ہے۔
میں دوستانہ طور پر سینیٹر پرویز رشید کو یاددلانا چاہتاہوں کہ وہ ان دنوں پیپلز پارٹی میں تھے جب ان کے لیڈر بھٹو نے کہا تھا کہ کشمیر کے لئے ہزار سال تک جنگ لڑیں گے۔ سینیٹر صاحب کو یہ بھی یاد ہو گا کہ دیوار برلن کے بعد تبدیلی کی تیز رفتار ہوائیں چلیں تو ان دنوں پاکستان میںمحترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی ا ور انہوںنے کنٹرول لائن پر جا کر اپنا دوپٹہ ہوا میں لہرایا اور اک عالم وارفتگی میں کہا تھا کہ آزادی ! آزادی۔ سینیٹر پرویز رشید کے ممدوح جناب نواز شریف نے جنرل اسمبلی میں کشمیر کے حق میں جو جذباتی تقریر کی، آج تک اس فورم پر کسی پاکستانی لیڈر نے ایسی تقریر نہیں کی، یہ تو بات ہے تقریروں کی میرے مرشد محترم مجید نظامی نے تو پیش کش کی تھی کہ انہیں ایک ایٹمی میزائل کے ساتھ باندھ کرجموں میں بھارتی فوج کی چھاﺅنی پر داغ دیا جائے تو کیا یہ سب لوگ گردن زدنی قرار پائیں گے۔ حافظ سعید سے چڑ ہے تو کسی ا ور بہانے نکالئے، کشمیر کے حق میں آواز بلند کرنا ہر پاکستانی کا فرض ہے، اس کا حق بھی ہے اور اس حق کی حمایت آرمی چیف نے کی ہے۔ ان کی اس قدر بڑی اور معتبر گواہی کو تسلیم کیا جائے ا ور خدا کے لئے حافظ سعیدکی جان بخشی کی جائے، وہ بہت گالیاںکھا چکے۔ بھارت تو گالیاں نکالے، ہم کیوں نکالیں