خبرنامہ

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

نانگا پربت کا عتاب
.
پاکستان کو دنیا کے بلند ترین مقام سیاچین پردفاعی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے۔ اب ایک اور بلند ترین مقام نانگا پربت پر دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ابھی تک قوم یہ سوچ رہی ہے کہ غیرملکی سیاحوں کو نشانہ بنایا گیا پاکستان کو چین کے سفیر نے بھی وزیرداخلہ سے سوال کیا کہ کیا اس کا مقصد چینیوں کو ٹارگٹ کرنا تھا۔
اس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیئے وزیر داخلہ نے حکم جاری کیا کہ آئندہ سے ریڈ زون میں داخل ہونے والے فوجیوں کی تلاشی لی جایا کرے گی۔ کہاں نانگا پربت اور کہاں اسلام آباد کا ریڈ زون۔ فوج کا بھوت ہمارے سر پر کیوں سوار ہے۔
اگلے ہی روز وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں اعلان کیا کہ جنرل مشرف کے خلاف غداری کا کیس چلایا جائے گا۔ اگر مجھے صحیح یاد پڑتا ہے تو میاں نواز شریف نے اقتدار سنبھالنے سے قبل یہ کہہ دیا تھا کہ وہ مشرف کو معاف کر چکے ہیں مگر اب وہ مشرف کا ٹرائل کرنا چاہتے ہیں تو بھلے سو مرتبہ کریں، یہ آئین کی پاسداری کا تقاضہ ہے، اس کے تحت حلف کا تقاضا ہے۔ مشرف نے پہلی مرتبہ 12 اکتوبر 1999 کو آئین توڑا مگر کی عدلیہ نے اس کو جائز قرار دے دیا اور غاصب کو اپنی مرضی کی آئینی ترامیم کا حق بھی دے دیا۔ آئین میں ترمیم صرف پارلیمنٹ کرسکتی ہے اور وہ بھی دو تہائی اکثریت سے، فرد واحد کو اس کا کیسے مل گیا، اور جس نے دیا،وہ آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا یانہیں، اس کا فیصلہ بھی ہو جانا چاہئے اور 1958 سے ہو جانا چاہئے جب ایوب خاں نے آئین توڑا اور مارشل لا لگایا۔ اس مارشل لا کو بھی عدلیہ نے جائز قراردیا۔ دوسرا مارشل لا جنرل یحیٰ خاں نے لگایا، اسے بھی عدلیہ نے جواز بخشا۔ تیسرا سول مارشل لا ذوالفقارعلی بھٹو نے لگایا، ایک سول آدمی کو مارشل لا کے نفاذ کی اجازت کس نے دی، چو تھا مارشل لا جنرل ضیالحق نے نافذ کیا، اسے بھی عدلیہ نے سند جواز عطا کر دی اور پارلیمنٹ نے بھی اس کی معافی تلافی کر دی۔ جنرل مشرف نے دوسری مرتبہ ایمرجنسی نافذ کی۔ لوگوں کا احساس ہے کہ اسی ایمرجنسی کے نفاذ کو غداری سے تعبیر کر کے مقدمہ چلانے کا عندیہ دیا گیا ہے تاہم اس کا پتا اس وقت چلے گا جب سیکرٹری داخلہ با قاعدہ اس کی ایف آئی آر داخل کرائیں گے۔ یہ سیکرٹری صاحب سنا ہے کہ جنرل ضیا کے مارشل لا دور میں ان کے اے ڈی سی ہوا کرتے تھے۔
لوگوں نے غداری کے مقدمے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے، زیادہ تر لوگوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے، ان میں پیپلز پارٹی کی قیادت پیش پیش ہے، اپوزیشن پارلیمانی لیڈر سید خورشید شاہ نے تو وزیر اعظم سے با قاعدہ مصافحہ کیا اور ایوان سے مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹ سے سابق آمروں کی تصاویر ہٹائی جائیں۔ پیپلز پارٹی پانچ سال حکومت میں رہی، اس نے جنرل مشرف کو گارڈ آف آنر پیش کیا۔ پانچ سال میں غداری کے مقدمے کا بھول کر نام تک نہیں لیا۔ پیپلز پارٹی نے لوگوں کو یہ لولی پوپ دیا کہ بہترین انتقام جمہوریت میں پنہاں ہے۔ اب انتقام کا ملبہ ن لیگ پر ڈال دیا ہے۔
جنرل ضیا کے بیٹے اعجازالحق نے غداری کے مقدمے کی حمایت کی ہے مگر مطالبہ کیا ہے کہ حمودالرحمن کمیشن رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے اور اس کی روشنی میں ملک توڑنے والوں کو بھی ان کے انجام تک پہنچایا جائے۔ آئین توڑنے سے زیادہ سنگین جرم ملک توڑنا ہے، اس کی سزا آج تک کسی کونہیں ملی، شاید جزا ضرور ملی۔ کیوں ملی، کسی نے نہیں پوچھا۔
حمود الرحمن کمیش کی رپورٹ کو منظر عام پر آنے سے رہی مگر کسی کو ذرہ برابر شک نہیں کہ قائد اعظم کے پاکستان کو عوامی لیگ کے لیڈرشیخ مجیب الرحمن نے دولخت کیا، ان کی پوری پارٹی اس جرم میں برابر کی شریک تھی، مجیب پر غداری کا مقدمہ بھی چلامگر اسے رہا کروا کر ڈھاکہ پہنچا دیا گیا۔ بنگلہ دیشی فوج کے جن افسروں کو اس کے جرائم کا علم تھا، انہوں نے بنگہ بدھو کو گولیوں سے چھلنی کر دیا اور یوں ایک غدار کیفر کردار کوپہنچ گیا۔ اب بنگلہ دیش میں پاکستان کے حامی عناصر کے خلاف مقدمے چل رہے ہیں، اور بنگلہ دیش کے پاکستانی حامیوں کو تمغے مل رہے ہیں۔ جواب تویہ بنتا ہے کہ شیخ حسینہ واجد پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے اور اس سے تمغے پانے والوں کو بھی غداری کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔
اب آیئے کی غداروں کی طرف، جو مر گئے، ان کی قبروں کا ٹرائل کیا جائے اور جو زندہ ہیں، ان کا تیز رفتار ٹرائل کیا جائے، وہ ٹرائل نہیں جوسوئس اکاونٹس کا کئی برس سے ہورہا ہے، بس ہفتے دس دن میں سماعت مکمل کی جائے، اس کی ٹرینگ ایران کے اس چیف جسٹس سے کی جائے جس نے امام خمینی کے اسلامی انقلاب کے بعد ہرصبح سینکڑوں پھانسیوں سے ناشتہ کیا۔ اسے کہتے ہیں ٹرائل۔ ہم تو مقدمہ لٹکانے کے ماہر ہیں، یہ انگریزی قانون ہے ایسے ہی کسی قانون کے تحت اٹلی کے سابق مردآہن کو سزا سنائی گئی ہے۔ وہاں قانون یہ ہے کہ اس سزا پرعمل اس روز سے شروع ہوگا جب اپیلوں کاعمل مکمل طور پر ختم ہو جائے گا، اتنی دیر میں آمر صاحب ویسے ہی اس جہان فانی سے سدھار جائیں گے۔ گیا ہے سانپ نکل، اب لکیر پیٹا کر۔
میں تیز رفتار ٹرائل کے حق میں اس لیئے ہوں کہ حکومت کو اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق کچھ کام بھی کرنے ہیں۔ مثلا نانگا پربت کے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا ہے، قائد ریذیڈی کو راکھ کا ڈھیر بنانے والوں کو کیفرکردار تک پہنچانا ہے، اور عام آدمی کو امن کی ضمانت فراہم کرنی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت پہلے تو مقدموں کی ایمرجنسی نافذ کرے، پھر انرجی ایمرجنسی لگائی جائے، اس سے فارغ ہوتو محصولات ایمرجنسی کی باری آجائے اور حکومت اپنا خزانہ بھرنے کی کوشش کرے۔ جب خالی خزانے کی شکایت ختم ہو جائے تو پھر لیپ ٹاپ، پلوں، انڈر پاسوں، اوور ہیڈ سڑکوں، میٹرو بسوں، بلٹ ٹرینوں خنجراب، گوادر ریل لنک اورکراچی سرکلر ریلوے کا بندوبست ایک ایمرجنسی لگا کر کیا جائے، تب تک پینسٹھ ستر برسں کے مسائل حل ہو چکے ہوں گے اور پھر مزے کی حکومت۔
مگر ایک احتیاط لازم ہے، غداروں پر مقدے چلانے کے شوق میں ان کے ساتھیوں کو نہ دھر لیا جائے، ور نہ اپنے گلے میں پھندا ڈالنے کا خدشہ لاحق رہے گا اور موقع پا کر نانگا پربت بھی عتاب نازل کر سکتا ہے۔ بھٹو نے کہا تھا کہ ان کے مرنے پر ہمالہ روئے گا وہ رویا تھا یانہیں لیکن نانگا پربت ضرور رو رہا ہے۔ غیر ملکی سیاحوں کی ہلاکت پر بھی اور دنیا میں پاکستان کی بدنامی پربھی۔ کیا ہم غداری کے مقدسے چلا کر اس بد نامی کا داغ دھو سکتے ہیں۔ (25 مئی 2013ء)