خبرنامہ

جنرل عاصم باجوہ کا یادگار کردار…اسداللہ غالب

بسم اللہ
دنیامیں سچ کو منواناہمیشہ مشکل رہا ہے۔جھوٹ پر ہر کوئی یقین کر لیتا ہے اور کچھ مشکل پیش آئے تو گوئبلز کے اس اصول پر عمل کرو کہ اس قدر جھوٹ بولو کہ ا س پر سچ کا گمان ہونے لگے۔
ایسی دنیا میں جنرل عاصم باجوہ نے سچ کا سکہ جمایا، یہ ایک یادگار کارنامہ ہے۔
امریکہ نے کہا کہ نائن الیون میں اسامہ بن لادن یا القاعدہ کا ہاتھ ہے، کسی نے ا س پر یقین نہ کیا، فوری طور پر کہا گیا کہ اس روز تین ہزار یہودی ٹوئن ٹاورز میں ڈیوٹی پر کیوں نہ گئے، یہ بھی سوال اٹھا یا گیا کہ پانچ گھنٹوں تک پانچ ہوائی جہاز امریکی فضاؤں میں غائب ہو جائیں تو یہ ماننے والی بات نہیں۔
بھارت نے ممبئی حملوں کے فوری بعد ا سکا الزام لشکر طیبہ اور آئی ایس آئی پر لگا دیا، مگر سوال ا ٹھا کہ مالیگاؤں اور سمجھوتہ ایکسپریس کی تفتیش کرنے والے افسر ہیمنت کر کرے کو اس سانحے کے اولیں لمحات میں گولی کا نشانہ کیوں بنایا گیا۔ یہ سوال بھی اٹھا کہ سانحے کا واحد زندہ ملزم اجمل قصاب میراٹھی زبان بولتا تھاا ور بھارت اسے پاکپتن کا رہائشی کہتا ہے، ایک نہیں سو اعتراض، بھارت نے سمجھوتہ ایکسپریس میں آتش زدگی کا الزام بھی آئی ایس آئی پر عائد کر دیا مگرپکڑا کون گیا، خود بھارتی فوج کا ایک حاضر سروس فوجی افسر۔اسی بھارت نے پٹھانکوٹ حملے کا الزام جیش محمد پر عائد کیا مگر جب بھارت نے اس کی تحقیقات شروع کیں تو اصل حقائق سے پردہ ا ٹھنے لگا،ا س سے قبل کہ سارا جھوٹ آشکارا ہو جاتا بھارت نے مسلمان تحقیقاتی افسر کو گولی مار دی، اسی بھارت نے اوڑی سانحے کی ذمے داری پاکستانی مجاہدین پر ڈالی اورا س کی معاونت میں دو لڑکوں کی گرفتاری کا دعوی کیا۔ پتہ چلا کہ وہ مظفرآباد کے ایک اسکول کے طالب علم ہیں ، غلطی سے کنٹرول لائن پار گئے ا ور دھر لئے گئے، مظفر آباد میں ان کی گمشدگی کی رپورٹ بھی درج تھی ا ور ان کی عمریں دس سال کی تھیں، کیا یہ بچے اتنے سنگین حملے میں معاونت کر سکتے تھے،بھارت نے ایک اور بے پر کی ا ڑائی کہ اس نے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی ہے مگر جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، ساری دنیا کا میڈیا کنٹرول لائن پر گیا،ا سے کسی سرجیکل اسٹرائیک کا نام ونشان نہ ملا۔پاکستان کے ایک انگریزی ا خبار نے قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کی رپورٹ چھاپی،جی ایچ کیو نے ا سے من گھڑت کہا ، ہر چند اخبار نے بار بار اصرار کیا کہ یہ خبر سچی ہے مگر وزیر اعظم اور وزیرا اعلی پنجاب تک نے کہہ ڈالا کہ خبر جھوٹ کا پلندہ ہے۔
اس دور میں جنرل عاصم باجوہ نے جو بھی خبر دی،اس میں سے کسی کو جھٹلانا تو در کنار، ہر خبر کو ملکی اور غیر ملکی میڈیا نے شہہ سرخیوں کی زینت بنایا، پروپیگنڈے کی دنیا میں یہ ایک حیرت انگیز تبدیلی تھی، پروپیگنڈے کو تو ویسے ہی مبنی پر جھوٹ سمھا جاتا ہے مگر جنرل عاصم باجوہ کے پروپیگنڈے پر ہر کسی نے آ نکھیں بند کرکے یقین کیا، جنرل عاصم باجوہ نے یہ اصول منوا لیا کہ سچ کی اپنی قوت اورتاثیر ہوتی ہے اور وہ اپنا لوہا منوا لیتا ہے اور ہتھیلی پہ سرسوں جما سکتاہے ۔
جنرل عاصم باجوہ نے جب اپنے ادارے کا کنٹرول سنبھالا تو دہشت گردوں کا طوطی بول رہا تھاا ور نقار خانے میں فوج کے طوطی کی کوئی نہیں سنتا تھا، لال مسجد کے غازی برادران کا سکہ جما ہوا تھا، ملا فض اللہ کا ریڈیو معتبر خیال کیا جاتا تھا اور طالبان کے ترجمانوں کی ای میلیں براہ راست اخبارات کو موصول ہوتی تھیں اور رپورٹروں سے ان کا ہمہ وقت کا رابطہ تھا، ملکی میڈیا پر دہشت گردوں کا دباؤ تھا کہ ان کا موقف فوج کے موقف کے ساتھ شایع کیا جائے، بسااوقات فوج کا موقف غائب ہوتا تھا اور صرف دہشت گردوں کی خبر ہی شہہ سرخی بنتی تھی۔میڈیا ہاؤسز کو دھمکیاں جاری کی جاتی تھیں کہ ان کاموقف نہ دیا گیا تو خیر نہیں۔ ٹی وی چینلز کے دفاتر کے سامنے مورچے لگے ہوتے تھے۔پورا ملک دہشت زدہ تھا تو میڈیا ہاؤسز کس باغ کی مولی تھے۔
اس پس منظر میں فوج کے موقف کی پذیرائی کروانا جان جوکھوں کا کام تھا مگر جنرل عاصم باجوہ نے دھیرے دھیرے اپناکام شروع کیا اور بہت جلد دنیا پر واضح ہو گیا کہ ان کا موقف حق اور سچ پر مبنی ہے ۔پھر جنرل باجوہ جو ٹویٹ کرتے، ان کی لیڈ لگتی اور ٹی وی چینلز اسے بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کرتے۔جنرل عاصم باجوہ کو یہ فقید المثال کامیابی ملنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ فوج جو کہہ رہی تھی ،وہ کر کے دکھا رہی تھی اور فوج کا سپاہ سالار دہشت گردی کی جنگ میں پیش پیش تھا، وہ عید کی نماز اگلے مورچوں میں ادا کرتا، وہ جوانوں کو گلے لگاتا اور ان کا حوصلہ بڑھاتا۔میران شاہ جو دہشت گردی کا جی ایچ کیو تھا، جنرل راحیل نے وہاں کا دورہ کیا اور پھر وہ وزیر اعظم کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تاکہ قوم کو یقین ہو جائے کہ فوج جو کہہ رہی ہے، وہ واقعی سچ ہے،ا س میں مبالغے کا شائبہ تک نہیں۔ جنرل عاصم باجوہ کا ہرگز یہ منشا نہیں تھا کہ وہ صرف فوج کے سپاہ سالار کی امیج بلڈنگ کریں ، ویسے اگر فوج کا سپاہ سالار ڈھیلا ڈھالا، اور کوئی بے حوصلہ ا ور بزدل انسان ہوتا تو اس کی امیج بلڈنگ ہو بھی نہیں سکتی تھی، جنرل یحی اور ٹائیگر نیازی کی کوئی امیج بلڈنگ کر دکھائے تو مانوں۔ آپ ممولے کو شہباز تو ثابت نہیں کر سکتے۔ یہ اعتراض بھی بے معنی تھا کہ جنرل راحیل کو اس قدر چڑھا دیا گیا کہ ملکی قیادت ا س کے سامنے گہنا گئی، اگر ملک میں کوئی ہارٹ سرجن ا س پائے کا ہو کہ اسے نوبل پرائز مل جائے، اگر کوئی سائنسدان اس قابل ہو کہ وہ ایک بے حیثیت ملک کو ایٹم بم سے مسلح کر دے تو ظاہری بات ہے کہ ا ن کا ڈنکا بھی چار دانگ عالم میں بجے گا، جب آپ کو ایک سائنس دان اور ایک سرجن کی شہرت پر اعتراض نہیں تواپنے ایک جرنیل کی شہرت پر کاہے کا اعتراض۔ جنرل راحیل کسی قابل تھے، ان میں ایک رہنما کی خصوصیات تھیں تو ان کی شخصیت میں رنگ بھرا جاسکتا تھا، کسی مسخرے پر تاج شاہی تو نہیں سجایا جا سکتا، ا س لحاظ سے جنرل عاصم باجوہ کی کاوشوں پر ہر اعتراض بے بنیاد ہے بلکہ یہ سب اعتراضات در اصل ان کی کارکردگی پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے مترادف ہیں۔
جدید فوجی تاریخ میں گوئبلز کا نام اس لئے چوٹی پر ہے کہ ا س نے جھوٹ کو سچ ثابت کیا مگر جنرل عاصم باجوہ نے ا س سے مشکل فریضہ نبھایا کہ سچ کو سچ منوانامشکل ہوتا ہے، انہوں نے سچ کا جادو جگایا اورپروپیگنڈے کی تاریخ ایک عرصے تک ان کے سحر سے نہیں نکل سکے گی۔
جنرل عاصم باجوہ بنیادی طور پر ایک فائٹر ہیں۔ انہوں نے ایک فوجی ڈویژن کی کمان میں جنوبی وزیرستان کو دہشت گردوں سے پاک کیا۔ آئیا یس پی آر میں ان کی آمد محض ایک اتفاق تھی جو حسن اتفاق میں بدل گئی، انہوں نے دو سپاہ سلاروں کے ساتھ کام کیا، ایک لیفٹننٹ جنرل کے طور پرآئی ایس پی آر کے پہلے سربراہ ہیں۔میری تو خواہش ہے کہ یہ ادارہ بھی ایک فوجی کور میں تبدیل ہونا چاہئے، میڈیکل کور ہے، سگنل کور ہے، اینجینیئر کور ہے تو یہ بھی کور ہی ہونی چاہیئے مگر جی ا یچ کیو اپنے تقاضے اچھی طرح سمجھتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کی آج کی دنیا کا میدان جنگ بدل گیا ہے، اس میدان جنگ میں کوئی لیفٹننٹ جنرل تو کیا، ایک فیلڈ مارشل بھی ناکافی ہے۔اکیلے بھارت کے جھوٹ کا مقابلہ کرنا مشکل کام ہے، اوپر سے پورا مغرب ا ور شمالی امریکہ۔ اس وسیع میدان جنگ میں وہی کامیاب ہو گا جو یہ جھوٹ گھڑ سکے گا کہ اسامہ کے پاس ایٹمی اسلحہ ہے۔ اور اس کا جواب صرف پاکستان کو دینا ہے کیونکہ ساری انگلیاں اسی کی طرف اٹھتی ہیں کہ یہی وہ ملک ہے جو غیر ذمے دار ہے اور دہشت گردوں کی نرسری ہے اور انہیں ایٹمی اسلحہ بھی بانٹتا ہے۔جنرل عاصم باجوہ نے اس دھواں دار فضا میں کام کیاا ور کامیابی سے کیا، فردوسی نے شاہنامہ لکھا، شاید ہی کوئی جانتا ہو کہ کس کا شاہنامہ لکھا مگر فردوسی کا نام چمکتا ہے، قآنی مے قصائد لکھے ، کس کے لکھے مجھے بھی نہیں معلوم ،مگر قآنی کا نام درخشاں ستارے کی طرح روشن ہے، حفیظ جالندھری نے شہنامہ لکھا ، سب جانتے ہیں کہ کس کا لکھا اور حفیظ کو بھی جانتے ہیں، جنرل عاصم باجوہ نے جنرل راحیل ا ور پاک افوج کا ڈنکا بجایا، ساری دنیا جنرل عاصم باجوہ کا لوہا مانتی ہے اور پاک افواج کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتی ہے۔مجھے اس کردار پر خود بھی فخر ہے۔