خبرنامہ

سسیئے بے خبرے تیرا لٹیا ملک کشمیر۔۔۔اسداللہ غالب۔۔انداز جاں

میرے ذہن میں ایک مصرع اور بھی آ رہاہے، یہ امرتا پریتم کا ہے۔ اج آکھاں وارث شاہ نو کدے قبراں وچوں بول۔ مگر لگتا یہ ہے وارث شاہ، امرتا پریتم اور جذبوں والے دوسرے لکھاریوں کی اپنی ہڈیاں قبروں میں گل سڑ گئی ہیں ان کی آنکھوں کا ن نور باقی نہیں رہا، انہیں اس دنیا کے حوادث کی کیاخبر۔
آج کشمیر میں لاشوں کا ڈھیر لگا ہے، سینتالیس کے بٹوارے میں لاشیں گری تھیں، یہ فسادات کا نتیجہ تھا، مگر آج کشمیر میں کوئی دنگا فساد نہیں، بھارت کی ریاستی دہشت گردی عروج پر ہے اور دست قاتل کو کوئی روکنے والا نہیں۔
برہان وانی صرف زبانی کلامی آزادی مانگتا تھا،ا سکے پاس تیر کمان بھی نہ تھی، مگر اسے دہشت گرد قرار دے کر بے رحمی سے شہید کیا گیا، یہ کربلا کا منظر نامہ تھا،برہان وانی کی الش کو ٹی و ی کیمروں کے سامنے لایا گیا،ا س کی آنکھیں باہر کوا بلی پڑتی تھیں، منہ کھلا ہوا تھا اور اس سے خون ٹپک رہا تھا، بھیجا کھل گیا تھا۔بابا! جنگوں کی بھی ایک اخلاقیات ہوتی ہے، آپ دشمن کو مارتے تو ہیں مگر اس کی لاش کو تماشہ نہیں بناتے، بھارت کسی اخلاقیات کا قائل ہی نہیں۔
برہان وانی حریت کی نشانی بن گیا، کشمیر کے مرد وزن، بچے، بوڑھے اور جوان گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آ گئے، وہ آزادی کے نعرے لگاتے ہیں، بھارتی فوج ان کو پیلٹ گولیوں کا نشانہ بناتی ہے ، پیلٹ گولیوں کے چھرے آنکھوں کی بینائی چھین لیتے ہیں، سرینگر کے ہسپتال ان مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں، لوگ اپنے پیاروں کو گود میں لئے فرش پر بیٹھے ہیں ۔ ننھے بچوں کے ہونٹوں پر ایک ہی سوال مچلتا ہے، کہ انہیں کس جرم کی سزاد ی گئی ،دنیا ان کے لئے اندھیر کیوں بنا دی گئی مگر یہ اندھیر گردی مچانے والا بھارت اور ا سکا خونخوار وزیر اعظم مودی شتر بے مہار پھرتا ہے، دندنا تا دکھائی دیتا ہے۔
آج وارث شاہ خاموش ہے، وہ ا ٹھارہ لاکھ والے منصب پر فائز ہے، اسے قصیدے لکھنے اورمعاوضہ بٹورنے سے غرض ہے، کشمیر کیوں جہنم بنا ہوا ہے، ا سکی بلا سے، کشمیر کی جنت نشاں وادیاں معصوموں کی المناک،دلدوز چیخوں سے کیوں گونج رہی ہیں، ہمارے اٹھارہ لکھوی وارث شاہوں کو اس سے کیا واسطہ۔
میرا سلام پہنچے بھارت کی اکلوتی دانشور ارون دھتی رائے کو جو کشمیری کی مظلوم خواتین کے لئے آواز بلند کرتی ہے۔ کیا پاکستان میں کوئی ایک بھی ارون دھتی رائے نہیں ، لگتا ہے کوئی نہیں۔
پاکستان میں کوئی کشمیر کانام لے بھی تو کیسے۔ ایک حافظ محمد سعید لیا کرتا تھا، اس پر دہشت گرد ہونے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اقوام متحدہ سے لے کر ہمارے آزاد میڈیا تک ایک ہی سوال ہے کہ حافظ محمدسعید کو زندہ رہنے کی آزادی کیونکر ہے۔کتنا بڑا جگر ا تھا میرے مرشد مجید نظامی کا جنہوں نے کہا تھا کہ کوئی انہیں دہشت گرد کہتا ہے تو کہتا رہے مگر وہ کشمیریوں کی حمایت کرتے رہیں گے، انہوں نے تو بھرے مجمع کے سامنے کہا کہ ایک ایٹمی میزائل کے ساتھ باندھ کر انہیں جموں میں بھارتی فوج کی ہلاکو خانی چھاؤنی پر داغ دیا جائے مگر بابا! انہیں نہیں پتہ تھا کہ ہمارے میزائل صرف نمائشی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کو روکنے کے کام تو آ سکتے ہیں مگر مظلوم کشمیریوں کو بھارت کے نازی جبر سے نجات دلانے کے لئے ا ستعمال نہیں ہو سکتے۔جب کارگل میں ہمارے مجاہدین کی پٹائی ہو رہی تھی تو اسلام آباد کے ہر چوک میں ان قسما قسم کے مزائلوں کے ماڈل نصب تھے، بے جان ماڈل۔
تو بابا! مان جایئے کہ کشمیر کا نام ہماری زبانوں پر آتا ہے تو محض رسمی طور پر، محض دکھاوے کے لئے، ایک زمانے میں تو ہم اس مسئلے کو زبان تک لانے کے لئے تیار نہ تھے،ہمیں خوف تھا کہ بھارت ناراض ہوجائے گاا ور بھارت ناراض ہو گیا تو واہگہ پار سے بھنڈی، آلو۔ ٹماٹر، کیلے آنے بند ہو جائیں گے۔ہم اپنے پیٹ کے بندے ہیں ، ہم امپورٹ ایکسپورٹ کے حجم اور اعدا دو شمارسے غرض رکھنے والے ہیں۔تجارتی ٹرک تو کشمیر کے آر پار بھی چل رہے ہیں۔تفو بر تو اے چشم گردوں تفو!
ممبئی میں چند سو مرے، پٹھانکوٹ میں چند ایک مرے، اوڑی میں اٹھارہ مرے مگر کشمیر میں اب تک سوا لاکھ شہید ہو چکے ہیں۔اگر یہ جواب میں کچھ بھی نہ کریں صرف بد دعائیں ہی دیں تو ممبئی، پٹھان کوٹ ا ور اوڑی میں ہزاروں لوگ خاک سیاہ ہو سکتے تھے۔بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن۔
بھارت کب تک قتل عام کرتا رہے گا، وہ پاکستان کو انگیخت کر رہا ہے، یہ اچھی بات ہے کہ ہم صبرا ور مصلحت سے کام لے رہے ہیں لیکن دشمن اسے بزدلی پر محمول کر رہا ہے، مودی نے تو یہ بھی مذاق اڑایا تھا کہ میرا آرمی چیف باتیں نہیں کرے گا، ایکشن کرے گا، بھارتیآرمی چیف نے کہا کہ اس نے آزادکشمیر میں سرجیکل اسٹرائیک کی، ہم نے ثابت کر دکھایا کہ نہیں کی، آج اس نے سیالکوٹ کے چک امرو کے قریب ورکنگ باؤنڈری کونشانہ بنایا ہے، اس رفتار سے کوئی دن آتا ہے جب بھارت واہگہ یا قصور کے کسی گاؤں کو بھی نشانے پر رکھ لے گا۔اگر پھر ہم نے سخت ایکشن لیا تو اریخ میں لکھا جائے گا کہ ہم نے کشمیریوں پرڈھائے جانیو الے بھارتی مظالم پر چپ سادھے رکھی اور زبانی کلامی کشمیر کو شہہ رگ بھی کہتے رہے، قائداعظم کا یہ فرمان بھی دہراتے رہے کہ کشمیر پاکستان کی اقتصادی شہہ رگ ہے۔
میں جنگ کے حق میں نہیں مگر ڈرپوک بھی نہیں ، بزدل بھی نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ جنگ سے بچا جائے مگر سفارتی محاذ پر ڈٹ کر بھارت کا مقابلہ کیا جائے، آج اگر چین کو سی پیک کے لئے پاکستان کی ضرورت نہ ہوتی اور روس کو امریکی بالا دستی کے خاتمے کا شوق نہ چرایا ہوتا تو برکس کے اجلاس میں پاکستان کو مودی نے تنہا کر کے رکھ دینا تھا۔ چین تو کشمیر پر ہمیں پہلے ہی تحمل اور انتطار کا درس دیتے نہیں تھکتا۔
ہماری حکومت ، ہماری سول سوسائٹی اور ہمارے میڈیا کا فرض بنتا ہے کہ وہ کشمیر میں بھارت کے وحشیانہ مظالم کے خلاف بھر پور پروپیگنڈہ کرے، وزیر اعظم نے سر کاری خرچ پر جو درجنوں وفود کشمیر کاز نمایاں کرنے کے لئے بھیجے ، ان کی کارکردگی کوسامنے لایا جائے، سرکاری خزانے کو بے دردی سے سیر وتفریح پر تو خرچ نہیں ہونا چاہئے، ہم کشمیر سے مخلص ہیں اور پر امن طور پر یہ مسئلہ حل کرنے کے حق میں ہیں تو جتنے دھرنے پانامہ لیکس پر کرتے ہیں ، ان سے آدھے دھرنے بھارت کے خلاف بھی کر کے دکھائیں، مخدوم شاہ محمود ایک دن واہگہ بارڈر پر گئے،ا س کے بعد تحریک انصاف واہگہ بارڈر کا راستہ بھول گئی، اور باقی سیاسی جماعتیں صرف گھر بیٹھے کشمیر کیسے حاصل کر نے کا سوچ رہی ہیں۔کچھ اور نہیں کر سکتے تو آیئے کشمیرئیوں کی لاشوں پر ماتم تو کریں ، کیا کوئی وارث شاہ ، کوئی امرتا پریتم قبروں سے اٹھ کر کشمیریوں کا نوحہ لکھیں گے، سسیئے بے خبرے تیرا لٹیا ملک کشمیر!!