خبرنامہ

نئے منتخب دور کی شروعات میں فوج کا کردار….اسداللہ غالب

نئے منتخب دور کی شروعات میں فوج کا کردار

کیوںنواز شریف نے کہا کہ ان کامقابلہ خلائی مخلوق سے ہے۔ شہباز شریف نے مزید زرو بیانی دکھاتے ہوئے کہا کہ مقابلہ بیت الخلائی مخلوق سے ہے۔ فوج بے چاری اپنی صفائی میںصرف اتنا کہہ سکی کہ وہ خدائی مخلوق ہے۔مگرالیکشن کے دوران اور بھی بہت کچھ ہوا۔فوج نے پہلے تو کہا کہ ا سے سیاست اور الیکشن کے معاملات میں نہ گھسیٹا جائے مگر پھر اچانک پتہ چلا کہ ساڑھے تین لاکھ سے زائد فوج الیکشن کی ڈیوٹی ادا کرے گی اور ا س دوران اس کے عملے کو مجسٹریسی اختیارات بھی حاصل ہوں گے تاکہ کسی کے خلاف ایکشن لینے کی ضرورت پڑے تو سول مجسٹریٹ کو ڈھونڈنے میں وقت ضائع نہ کرنا پڑے۔ فوج کے عملے کو الیکشن کمیشن نے تربیت دی اور انہیںا س کے فرائض سے آگاہ کیا۔فوجی آئینی طور پر سول اداروں کے بلاوے پر اس کی مدد کی پابند ہے ، خاص طور پر قدرتی آفات زلزلے اور سیلاب وغیرہ کی صورت میں فوج ہی ریسکیو اور مدد کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔اس کے پا س ان کاموں کے لئے وسائل بھی ہوتے ہیں اور تربیت بھی۔الیکشن کے ہنگام میں ہنگاموں کا ہر وقت خطرہ ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں خطرات زیادہ تھے مگر فوج کم لگائی گئی۔ اس بار فوج کے ترجمان کی میڈیا بریفنگ کے رو زتک کسی قسم کی بد امنی کے خطرات کا تصور بھی نہیںکیا جا رہا تھا مگر اگلے ہی روز سے دہشت گردی کا بازار گرم ہو گیا، ایک قیامت کا عالم تھا، خیبر پی کے اور بلوچستان خاص طور پر نشانہ بنے اور بار بار بنے۔ پولنگ کے روز بھی کوئٹہ میں لاشیں گریں۔ اس دہشت گردی کا تعلق الیکشن سے تھا بھی اور نہیں بھی تھا۔ ملک میں دہشت گردی تو ایک معمول بن گئی ہے،۔ کوئی وقفہ آ جائے خواہ یہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو عوام کا سانس خشک ہی رہتا ہے ، پھر بھی پچھلے کئی برس سے راوی ہر سو چین لکھتا تھا اور فوج نے جانی قربانیوں سے دہشتگردی کا بڑی حد تک خاتمہ کر دیا تھا۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ انتخابی جلسوںمیں امن وا مان کی ذمے داری فوج کو سونپی گئی تھی یا نہیں۔مگر ان دنوں دہشت گردی نے پچھلے سارے ریکارڈ مات کر دیئے، آرمی پبلک اسکول میں شہادتوں کی تعداد سے بھی زیادہ مستونگ کے ایک صحن میں لاشیں گریں مگر نگران حکومت، ، سیاسی جماعتوں اور فوج نے اے پی ایس کے بعد کی طرح کا رد عمل ظاہر نہیں کیا۔، اور ساری توجہ صرف اس امر پر مرکوز رکھی کہ کسی طرح پولنگ کا دن ا ٓ جائے اور خیریت سے گز ر جائے، فوج کو اگر یہی ٹاسک دیا گیا تھا تو وہ اس پر سو فیصد کامیابی سے عمل پیرا ہوئی ۔ پولنگ ڈے پر کوئی بد امنی نہیں ہوئی۔ کوئی اکا دکا واردات کا ہو جانا معمول کی بات ہے بلکہ الیکشن کے جوش وخروش میں کچھ زیادہ ہی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں،۔ مگر ا س بار پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی زیادہ تعداد میںموجودگی کی وجہ سے شر پسندوں نے اپنے مذموم ارادوں کو کنٹرول کئے رکھا۔ میں اسے فوج کی کامیابی شمار کروں گا، خدا نخواستہ فوج اتنی بڑی تعداد میں نہ ہوتی تو انتخابی مہم کے دوران جذبات کے شعلے منہ زور بھی ثابت ہو سکتے تھے۔ کیونکہ یہ انتخابی مہم صرف دو ماہ پہلے شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ پچھلے پانچ سال سے جاری تھی۔ اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو مطعون کر رہی تھیں ، کوئی پارلیمنٹ پر لعنت بھیج رہا تھا کوئی کہہ رہا تھا کہ فلاں کو نہیں چھوڑوں گا ، فلاں کو سڑکوں پر گھسیٹوں گا۔ فلاں کو بھی اڈیالہ میں ڈالوں گا، فلاں کا پیٹ پھاڑ کر کرپشن کا پیسہ نکالوں گا۔ جب جذبات اس قدر آتش فشاں کامنظر پیش کر رہے ہوں تو الیکشن کا وقت خیریت سے گزرنا محال تھا۔ میرا خیال ہے کہ ا گر اس بار فوج کو پچھلے الیکشن کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں متعین کیا گیا تھاتو یہ فیصلہ دانش مندی اور حکمت پر مبنی تھا۔الیکشن میں فوج کی ڈیوٹی ہو اور کسی جماعت کودھاندلی کی شکا یت ہو تو وہ ایک سانس میں الیکشن کمیشن کو اس کا ذمے دار ٹھہراتی ہے اور دوسرے ہی سانس میں فوج کو ، مگر یاد رکھئے کہ الیکشن کمیشن کے دفتر میں آرٹی ایس یا آر ایم ایس کو چالو رکھنے میں فوج کو کوئی ٹیکنیکل ذمے داری نہیں دی گئی تھی۔ اسی طرح فارم پینتالیس کے اجرا میں بھی فوج کا کوئی کردار نہ تھا۔ ایک اعتراض یہ سننے میں آیا کہ اس بار مسترد شدہ ووٹوں کی تعداز زیادہ نکلی۔ معاف فرمایئے اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ فوج نے رات کے اندھیرے میں ووٹوں پر ٹھپے لگائے تو اسے اپنے دماغ کا علاج کروا لینا چاہئیے ، فواج اس بد دیانتی میں شریک ہو جائے تو وہ محاذ جنگ پر بھی بد دیانتی کر سکتی ہے اورد شمن پر گولی چلانے کے بجائے کسی ا ٓڑ میں سر چھپا کر اپنی جان بچا سکتی ہے۔ وہ ہزاروں کی تعداد میں شہادتیں نہ دیتی۔ کیا جوان اور کیا افسر کسی نے جان کا نذرانہ پیش کرنے سے گریز نہیںکیا۔ ایسی فوج سے ا ٓپ بد دیانتی کی توقع کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ الزام لگانا ہے تو الیکشن عملے پر لگالیجئے ،یا من چلوں پر الزام تراشی کر لیجئے جو الیکشن کو تفنن طبع کا ایک موقع سمجھتے ہیں۔اورجمہوری عمل کی حرمت کے قائل ہی نہیں ۔ ان منچلوں کی حرکات دیکھنی ہوں تو ذرا سوشل میڈیا پر نظر ڈال لیجئے۔ کسی زینب سے پوچھ لیجئے۔ان منچلوں کا کوئی دین ایمان ،کوئی ضابطہ اخلاق نہیں ہوتا ، وہ ووٹ خراب کریں یا کسی کی عزت خراب کریں ، ان کے لئے دونوں برابر ہیں۔فوج اس گناہ کبیرہ میں ملوث نہیںہو سکتی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پولنگ کی پر امن تکمیل پر عوام کا شکریہ ادا کیا کہ انہوںنے فوج پر اعتماد کی مہر ثبت کی۔فوج کو آپ اس بات پر بھی داد دیں کہ اس نے ملک کی گھٹیا ترین سیاسی صورت حال کا کوئی فائدہ اٹھا نے کو کوشش نہیں کی اور یہ مسلسل تیسری مرتبہ ہے کہ فوج نے آئینی ذمے داری کو نبھایا ہے اورا ٓئین سے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی۔ جنرل مشرف کے جانے کے بعد تین بار الیکشن ہوا اور ہر بار عوام نے ووٹ کی طاقت استعمال کرتے ہوئے اپنی قسمت کا فیصلہ سنایا۔ پہلے پی پی پی کو اقتدار ملا، تو پھر عوام نے اپنے مینڈیٹ پر نظر ثانی کا حق استعما ل کیا اور ن لیگ کے حق میں فیصلہ سنایا ، اس مرتبہ عوام نے سابقہ دونوں پارٹیوں کو چونکہ آزمالیا تھا، اس لئے تیسری قوت پی ٹی آئی کے حق میں ووٹ ڈالا۔ تینوں مرتبہ حالات اس قدر گھمبیر تھے کہ فوج مداخلت کرتی تو عوام حلوے بانٹتے ، مٹھائیاں تقسیم کرتے اورا ٓتش بازی کا مظاہرہ کرتے۔ زرداری کے دور میں نت نئے بحران کھڑے ہوئے، کبھی ریمنڈ ڈیوس،۔ کبھی کیری لوگر
بل ، کبھی میمو گیٹ ، کبھی عدلیہ سے محاذ آرائی۔،کبھی ایبٹ آباد۔ مگر آفریں ہے فوج کی اس نے صبر سے کام لیا۔ نواز شریف کا دور تو مسلسل دھرنوں کی زد میں رہا، اسلام ا ٓباد کوکئی بار مفلوج کیا گیا، کبھی وکی لیکس اور کبھی پانامہ لیکس۔ کبھی ڈان لیکس۔ نواز شریف عدالت سے نااہل ہوئے ، مگر نئی حکومت بن گئی اوراس نے اپنے دن پورے کئے،۔ فوج اس دوران کب فائدہ نہیں اٹھا سکتی تھی،۔ فوجی بغاوتوں کے لئے ایسے حالات ہی ساز گار ثابت ہوتے ہیں مگر جنرل کیانی، جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر باجوہ نے صبر و تحمل سے کام لیا اورلنگڑی لولی جمہوریت کو چلنے دیا۔ انہوںنے موقع سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور اگر موقع سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا توا س فوج کو سلام کیجئے،۔ اس کو داد دیجئے۔ اس کی ستائش کیجئے ، اس کی تحسین کیجئے۔ اسے یہ طعنہ نہ دیجےئے کہ تم تین سال کے لئے ہو۔ ہم ہمیشہ کے لئے ہیں، اسے یہ دھمکی مت دیں کہ جیسے ترکی میں عوام نے سڑکوں پر فوجیوں کی چھترول کی تھی، ضرورت پڑی تو پاکستانی عوام بھی اسی قوت کا مظاہرہ کریں گے۔ اسے چیلنج نہ کرو کہ روک سکتے تو روک لو،یقین کیجئے فوج سیاست دانوں کی حریف نہیں بلکہ ان کی معاون و مددگار ہے، ملک کی حفاظت کے لئے شمشیر تابدار ہے۔ ذرا رک کر ایک لمحے کے لئے پاس سے گزرتی کسی فوجی گاڑی میں دھول سے اٹے خاکی وردی میں لپٹے چہروں کو ایک سلام تو پیش کر دیں۔نئے پاکستان کی پارلیمنٹ کاا ٓغاز قومی ترانے سے کیا گیا اور تلاوت قرآن حکیم اور نعت نبی کریم کو پیچھے رکھا گیا تو یہ گناہ یا ثواب اسپیکر قومی اسمبلی ایازصادق نے جاتے جاتے کمایا ۔ میںنے اپنے غم وغصے کے اظہار کے لئے برادرم مجیب شامی کو فون کیا۔ وہ بھی اس حرکت پر حیران ہوئے اور شام کو اپنے ٹی وی پروگرام میںمیرا نام لے احتجاج ریکارڈ کروایا۔مگر یہ کیا ،۔ چودہ اگست کی صبح کو یوم آزادی کی قومی تقریب منعقد ہوئی۔ مہمان خصوصی صدر پاکستان ممنون حسین تھے اور مسلح افواج کے سبھی سربراہاں، پارلیمنٹ کے ارکان اور اعلی سرکاری افسران سبھی ا س تقریب میں شامل تھے۔ یہاں بھی وہی ہو اکہ پہلے قومی ترانہ بجا ،پھر ہمارے دوست قاری صداقت علی نے اپنے مخصوص لہجے میں تلاوت قرآن فرمائی۔ اس کے بعد رسول مقبول ﷺ کی نعت کی باری آ سکی ۔ میں سر پیٹ کے رہ گیا اور شامی صاحب کے گھر جا پہنچا۔ وہ اپنی تہترویں سالگرہ کی خوشی سے سرشار تھے، میرا رونا پیٹنا سن کروہ ہنسے اور کہنے لگے کہ معلوم نہیں یہ بدعت کب سے رائج ہو چکی ہے، ہم نے اب اس پر غور کیا ہے لیکن جو ہوا ہے بُرا ہوا ہے۔ قرآن اور نعت پر کسی دوسری چیزکو فوقیت نہیں مل سکتی مگر اب کیا کیا جائے۔ بس سر پیٹا جا سکتا ہے۔