خبرنامہ

وی لو یو میاں صاحب۔۔۔اسداللہ غالب

یہ ایک بے ساختہ نعرہ تھا، عام طور پر وزیراعظم کے مستانے ا ور متوالے قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں کے نعرے لگاتے ہیں مگرا س نعرے سے میاں صاحب کی تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ جب انہیں جلا وطن کر کے جدہ بھیجا گیا تو انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ جولوگ یہ نعرہ لگاتے تھے قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی تو انہیں نظر نہیں آیا، محاورہ ہے کہ مصیبت میں سایہ بھی انسان کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور سایہ ا سوقت ساتھ چھوڑتا ہے جب سورج نصف النہار پر آگ برساتا ہے،یہی تو وہ وقت ہوتا ہے جب انسان کو سائے کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ مگر سورج سوا نیزے پر ہو توشجر سایہ دار بھی میسر نہیں آتا، میاں صاحب کا یہ گلہ ا س لحاظ سے درست ہے۔
ا ب ایک نعرہ نیا لگا ہے، وی لو یو میاں صاحب! یہ نعرہ وزیراعظم کو بے حد پسند آیا ہے ا ور وہ جواب میں بول پڑے آئی ٹو لو یو۔کسی سے محبت گھر بیٹھ کر بھی کی جاسکتی ہے، میلوں دور سے کی جا سکتی ہے، دل ہی دل میں کی جا سکتی ہے،جسے پلاٹونک لو کہتے ہیں۔اور محبت کرنے والے کبھی ساتھ نہیں چھوڑتے، محبتوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہی رہتاہے۔
اپنے واقعات کو دہرانا اچھا نہیں سمجھا جاتا، مگر ایک واقعہ بر محل یاد آیا ہے ، میں ننانوے کی جلاوطنی کے بعد سعودی عرب یا لندن نہیں جا سکا، اس لئے میاں صاحبان سے اس دوران کوئی ملاقات نہیں ہوئی، جاتا بھی تووہ شاید ہی ملاقات کرتے کیونکہ میں ایک ڈکٹیٹر کے گن گا رہا تھا۔مگر جب وہ واپس آئے تومیں نے عزیزی شعیب بن عزیز سے کہا کہ اگر ممکن ہو تو میاں شہباز سے مختصر ملاقات چاہتا ہوں، میری طرف سے ان کے ساتھ تعلق نہیں ٹوٹا، اورا سی تعلق کے ناطے میں ان کے والد مرحوم کی تعزیت کرنا چاہتا ہوں، شعیب نے وقت لے دیا۔ وہاں خود شعیب صاحب بھی موجود تھے اور کہنے لگے کہ ایک تاریخی واقعہ سنانے کے بعد اجازت چاہوں گا، انہوں نے بیان کیا کہ الجزائر کی جنگ آزادی میں ایک جنرل کی لڑتے لڑتے ٹانگ ضائع ہو گئی مگر بعد میں وہ آزادی کے مخالفوں سے جا ملا۔ جب الجزائر آزاد ہوا تو ہیروز کے مجسمے لگانے کا فیصلہ ہوا ، کسی نے اس جنرل کا بھی ذکر کیا مگرفیصلہ یہ ہوا کہ ا سکا پورا مجسمہ لگانے کے بجائے صرف ا سکی ٹانگ کا مجسمہ نصب کیا جائے گا۔ شعیب نے ایک لحاظ سے مجھے طعنہ دیا اور پھر کوئی جواب سنے بغیر وہاں سے کھسک گیا، اتنی دیر میں چودھری نثار وہاں چلے آئے، شہباز میاں نے میرا تعارف کرایا، نثار نے کہا، ہاں ان کے آرٹیکل بڑے معرکے کے ہوتے ہیں، شہباز نے ہنس کر کہا ، بس ننانوے کے بعد سے انہوں نے ہمیں خوب نشانے پر رکھا۔
اس ساری رام کہانی کے باوجود میں نے اپنی طرف سے میاں صاحبان سے تعلق ٹوٹنے نہیں دیا، مگر جب وہ اقتدار میں آئے اور بھار ت اور دہشت گردوں کے بارے میں انکے ایسے بیانات سامنے آئے جن کی گرفت لازمی تھی تو میں نے صحافیانہ کردارا دا کیا۔ نوائے وقت کے صفحات گواہ ہیں کہ عمران اور قادری کے دھرنے کو میں نے سخت تنقید کانشانہ بنایا ، میرا ایمان تھا کہ جمہوری حکومت کو دھرنوں اور لانگ مارچوں سے گرانے کی کوشش غیرآئینی ہے، میں ایسی کوشش کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا بلکہ ان کی مخالف صفوں میں نظر آنا چاہتا تھا،اسلئے میں نے اس وقت بھی عمران کی بھد اڑائی ا ور اب جبکہ وہ پانامہ لیکس پر سراسر پوائنٹ اسکورنگ میں لگا ہوا ہے تو بھی میں عمران کو بخشنے کے لئے تیار نہیں ہوں،میرا پختہ یقین ہے کہ اگر تحقیقات شروع ہو گئیں تو عمران کی اپنی وکٹ بھی گر جائے گیا ورا س کی آدھی سے زیادہ پارٹی کلین بولڈ ہو چکی ہو گی۔جو شخص اخلاقی طور پر دیانتداری کامظاہرہ نہیں کر سکتا ،ا س سے مالی دیانت کی توقع بھی عبث ہے۔
میاں نواز شریف ایک منتخب وزیر اعظم ہیں ، انہیں ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے ، ان کے حق اقتدار پر کوئی بھی ڈاکہ نہیں ڈال سکتا ، نہ کوئی شب خون مارسکتا ہے، وزیر اعظم کا دائرہ کار تمام ملکی امور پرمحیط ہے،گورننس کی غلطیاں ان سے ہوتی ہیں، سب سے ہوتی ہیں، انسان خطا کاپتلا ہے، امریکی صدور نے کیا کیا بلنڈرز نہیں کئے۔اور برابر کے ملک میں مودی کیا کیا حماقتیں کرتا پھرتا ہے۔
ہمیں اپنے وزیرا عظم کا ہر حال میں دفاع کرناہے ۔اس وقت تک کرناہے جب تک اگلے الیکشن میں عوام کوئی دوسرا فیصلہ نہیں کرتے۔ویسے اگرآپ کسی کے دوست ہیں تو پھرا س سے بے وفائی کیسی۔ میں پہلی بار لیاقت بلوچ کے گھر گیا تھا تو یہ وحدت روڈ کی ایک نشیبی اور نواحی بستی کلفٹن کالونی( بس نام کی ) میں چند مرلے پر محیط تھا، اب تو وہ بھی ماشااللہ مسلم ٹاؤن کے ایک فراخ گھر میں منتقل ہو گئے ہیں مگر جب بھی جاؤ گھر پر ملتے نہیں حتی کی اپنی والدہ کی وفات کے تیسرے روز بھی وہ گھر پر نہ تھے، ان کی پہلی ترجیح جماعت ہے۔وہ ساہیوال کے پہلے سے طے شدہ پروگرام میں شرکت کے لئے لاہور سے باہر تھے۔ مگر جب میں پہلی بار ان کے گھر گیا تو ان کے بھائی کی وفات ہوئی تھی، اس بھائی کے بارے میں خبریں تو یہ تھیں کہ وہ اچھی نہیں8 تھیں اور وہ ایک نام نہاد پولیس مقابلے میں مارا گیا مگر لیاقت بلوچ کے لئے تو وہ اس کا بھائی تھا اور جو بھی پرسہ دینے جاتا ، لیاقت بلوچ ہاتھ اٹھا کر اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا کرتے، بات یہ ہے کہ آپ کی اولاد، آپ کے والدین میں سے کوئی بھی کسی بھی کردار کامالک ہو تو آپ ا سے کوڑے دان میں تو نہیں پھینک سکتے۔ اب میاں نواز شریف ہمارے وزیرا عظم ہیں، جیسے بھی ہیں،ہمیں عزیز ہیں، اپوزیشن جیسے مرضی سر پٹختی رہے ،ہمیں ا س سے کیا سروکار۔ویسے دھرنے میں اپوزیشن نے ا ن کا کیا بگاڑ لیا۔ نواز شریف تو دو تہائی اکثریت کے حامل ہیں ، زرداری کی حکومت تو بید مجنوں کی طرح لرزتی رہی مگر پانچ سال پورے کر گئی، ان دنوں کیا کیاجھکڑ نہیں چلے ، ہر تین ماہ بعد ان کے جانے کی نئی تاریخ دے دی جاتی مگر وہ پھر اپنے منصب پر بیٹھے مسکراتے نظرآتے،ان بحرانوں کا ذکر کروں تو عمران خاں پشیمان ہو کر رہ جائیں، ریمنڈ ڈیوس کا فرار، کیری لوگر بل، ایبٹ آباد کا آپریشن اور انتہا یہ کہ میمو گیٹ سامنے آگیا مگر سارے طاقتور فروپ مل کر بھی وہ گیٹ نہ کھول سکے جس سے زرداری کو باہر دھکیلا جا سکتا۔ عمران ان طاقتور تریں گروپوں کے سامنے طفل مکتب ہے۔اس کے جلسوں، دھرنوں میں کیا کیاکیا گل کھلائے جاتے ہیں ، اب وہ کوئی راز نہیں رہے، خواتین جنونیوں کے ہاتھوں پریشان ہیں، اس کی پارٹی میں کس قدر انتشار ہے ،ا س سے عمران آنکھیں کیسے چرا سکتا ہے، جس دن سے پارٹی بنی ہے، وہ ٹاپ کی کرسی پر براجمان ہے، کرسی چھننے کے ڈر کے مارے وہ الیکشن ہی نہیں کراتا، پارٹی کو دھرنوں سے بہلانا چاہتا ہے۔ تحریک انصاف اسے وراثت میں تو نہیں ملی،اور شوکت خانم کا کریڈیٹ بھی لینا چھوڑے، یہ تو بچوں کی جیبوں سے اڑائے گئے پیسوں سے بناہے ۔ان کا حساب دینے سے بھی وہ کتراتا ہے۔
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں۔ یہ ہے عمران خان کا حشر۔
دوسری طرف وزیر اعظم بھی میدان میں کود پڑے ہیں، پہلے ہی جلسے میں انہیں نیا نعرہ سننے کو ملا۔
وی لو یوں میاں صاحب۔
یہ نعرہ گونجتا رہے گا۔
اور جواب آئے گا ، آئی ٹو لو یو!!!