خبرنامہ

آواز سے ہائی بلڈ پریشر اور میگرین کا علاج ممکن

ڈلاس:(ملت+اے پی پی) وہ دن دور نہیں جب ہائی بلڈ پریشر اور میگرین جیسی تکلیف دہ بیماریوں کا علاج آواز کی لہروں سے کیا جائے گا۔ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی ’’کونسل آن ہائپر ٹینشن‘‘ کے حالیہ اجلاس میں پیش کی گئی دو الگ الگ ریسرچ رپورٹس میں ماہرین نے بتایا انہوں نے مختلف فریکوئنسی والی آواز کی لہریں استعمال کرتے ہوئے دماغ میں خون کا دباؤ کم کرتے ہوئے ہائی بلڈ پریشر (ہائپر ٹینشن) اور میگرین (آدھے سر کا درد) کی علامات ختم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اس کام کےلئے ان دونوں ٹیموں نے ’’ایچ آئی آر آر ای ایم‘‘ (HIRREM) یا ’’ہائی ریزولیوشن، ریلیشنل، ریزونینس بیسڈ، الیکٹرو انسیفالک مررنگ‘‘ نامی تکنیک استعمال کی جسے ’’ہائیریم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہم صحت مند ہوتے ہیں تو ہمارے دماغ کے دائیں اور بائیں حصوں میں خون کا دباؤ ایک دوسرے کے ساتھ توازن کی کیفیت میں ہوتا ہے لیکن اگر یہ دباؤ توازن کی حالت میں نہ رہے تو اس کے طویل مدتی نتائج کے طور پر مختلف دماغی، اعصابی اور نفسیاتی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں جن میں ہائی بلڈ پریشر، میگرین، نیند کا نہ آنا اور ڈپریشن وغیرہ شامل ہیں۔ ہائیریم تکنیک کے تحت متاثرہ شخص کے سر پر سینسرز چپکادیئے جاتے ہیں جو دماغ کے مختلف حصوں میں جاری برقی سرگرمی نوٹ کرتے رہتے ہیں۔ ان برقی سرگرمیوں کی سطح/ شدت نوٹ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں آواز کی لہروں میں تبدیل کرکے ان قابلِ سماعت صوتی سگنلوں (یعنی آواز کی لہروں) کو واپس دماغ تک نشر کیا جاتا رہتا ہے۔ دماغ تک پہنچنے والی یہ صوتی لہریں دائیں اور بائیں دماغ کی برقی سرگرمی کے درمیان توازن پیدا کرتی ہیں جس کے نتیجے میں ان دونوں حصوں میں خون کا دباؤ بھی آہستہ آہستہ معمول پر آجاتا ہے جس سے ہائی بلڈ پریشر، مگرین اور ڈپریشن کی ظاہری علامات تقریباً ختم ہوجاتی ہیں اور مریض خود کو بہتر محسوس کرتا ہے۔ دونوں مطالعات کے دوران ہائیریم تکنیک کو 62 افراد پر آزمایا گیا جن میں سے 10 کو ہائی بلڈ پریشر جبکہ 52 کو میگرین کی شکایت تھی۔ ہائریم کے 16 سے 18 سیشنز (معالجاتی نشستوں) کے اوسطاً دس دن بعد بیشتر مریضوں میں میگرین اور ہائی بلڈ پریشر کی تکالیف تقریباً ختم ہوگئیں۔ ان کامیابیوں کے باوجود، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس مرحلے پر ہائیریم کو دماغی بیماریوں کا علاج یا ان سے بچانے کی کوئی تدبیر ہر گز خیال نہ کیا جائے کیونکہ ان دونوں مطالعات میں شریک رضاکاروں کی تعداد بہت کم تھی۔ زیادہ باریک بینی سے مطالعہ کرنے کےلئے اب وہ ایک اور وسیع البنیاد تحقیق شروع کرچکے ہیں جس میں اب تک 400 سے زائد رضاکار رجسٹر کئے جاچکے ہیں۔