خبرنامہ

اینٹی بایوٹکس کے بغیر بیکٹیریا کا خاتمہ کرنے والا پولیمر تیار

ملبورن:(ملت+اے پی پی) سخت جان بیکٹیریا کو اینٹی بایوٹکس کے بغیر ہلاک کرنے کے لیے 25 سالہ چینی نژاد طالبہ نے ستارے کی شکل والا ایک پولیمر تیار کرلیا ہے۔ یہ پولیمر جسے یونیورسٹی آف ملبورن، آسٹریلیا میں پی ایچ ڈی کرنے والی 25 سالہ چینی نژاد طالبہ ’’شُو لیم‘‘ نے ایجاد کیا ہے، صحت مند خلیوں کو نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ سیدھا جرثوموں (بیکٹیریا) پر حملہ آور ہوتا ہے اور ان کی خلوی جھلی پھاڑ کر انہیں ہلاک کردیتا ہے۔ اینٹی بایوٹکس اپنے آپ میں ایسے زہروں پر مشتمل ہوتی ہیں جو بیکٹیریا کو ہلاک کرنے کا کام کرتی ہیں لیکن دوسرے جسمانی خلیات بھی ان سے متاثر ہوتے ہیں اور اینٹی بایوٹکس کے سائیڈ ایفیکٹس کی وجہ بنتے ہیں۔ علاوہ ازیں اینٹی بایوٹکس کے بے دریغ استعمال کے نتیجے میں جرثومے بھی ان کے خلاف مزاحمت پیدا کرلیتے ہیں اور انہیں ہلاک کرنے کے لیے نئی دوائیں بنانی پڑتی ہیں۔ ستارے کی شکل والا پولیمر کیونکہ زہر نہیں بلکہ جرثوموں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی خلوی جھلیاں پھاڑ ڈالنے والا ایک سالماتی ہتھیار ہے اس لیے جرثوموں میں اس کے خلاف مزاحمت بھی پیدا نہیں ہوپاتی۔ یہ پولیمر اب تک تجربہ گاہ میں چوہوں پر کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے جب کہ انسانوں پر اس کی طبّی آزمائشیں (کلینیکل ٹرائلز) جلد ہی شروع ہونے کی توقع ہے۔ اینٹی بایوٹکس سے مزاحمت رکھنے والے جراثیم (بیکٹیریا) اس وقت دنیائے طب کے بڑے مسائل میں شامل ہیں جن کی وجہ سے ہر سال اوسطاً 7 لاکھ افراد موت کا نوالہ بن رہے ہیں۔ اگر یہی صورتِ حال جاری رہی تو ماہرین کو خدشہ ہے کہ 2050 تک ان سخت جان جرثوموں سے ہر سال ایک کروڑ لوگ ہلاک ہورہے ہوں گے جب کہ انہیں قابو میں رکھنے کے لیے ایک ہزار ارب ڈالر سالانہ جتنی خطیر رقم درکار ہوگی۔ اگر ستارہ نما پولیمرز پر مشتمل جراثیم کش تکنیک کارگر ثابت ہوئی تو بہت ممکن ہے کہ اس سے کئی بیماریوں کے علاج میں بھی فائدہ اٹھایا جاسکے اور اکیسویں صدی کی طب صحیح معنوں میں ایک نئے انقلاب سے ہم کنار ہوجائے۔