خبرنامہ

دھڑکن بنی طبی پاس ورڈ

نیویارک: (ملت+اے پی پی) اسٹیٹ یونیورسٹی نیویارک نے اینکرپشن (رمز نگاری) کا ایک نیا سسٹم بنالیا ہے جس کے ذریعے کسی مریض کے دل کی دھڑکن سے اس کی اہم طبی فائلیں کھولی اور بند کی جاسکیں گی۔ گزشتہ برس 2 کروڑ 70 لاکھ کے قریب طبی ریکارڈز ہیکنگ کے ذریعے آشکار کئے گئے ہیں اور یہ واقعات زیادہ تر امریکہ اور یورپ وغیرہ میں پیش آئے۔ لیکن اب کسی کے دل کے ای سی جی (الیکٹروکارڈیوگراف) سے کمپیوٹر فائلوں میں موجود طبی ڈیٹا کھول کر دیکھا جاسکتا ہے اور اسی کے ذریعے ان فائلوں کو دوبارہ لاک کرنا بھی ممکن ہے۔ مرض کی ہسٹری اور معلومات کو روایتی طور پر محفوظ رکھنا ایک مہنگا عمل ہے اور اب دل کی دھڑکن سے فائلوں تک رسائی کو موبائل ایپلی کیشنز اور ٹیلی میڈیسن میں بہ آسانی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ نیویارک اسٹیٹ یونیورسٹی کے ذیلی ادارے بنگھمٹن یونیورسٹی میں الیکٹریکل اور کمپیوٹنگ شعبے کے ماہر زینگ پینگ جِن اور ان کے ساتھیوں نے یہ نظام بنایا ہے۔ ایک جانب تو اس سے ہسپتال کی مرکزیت ختم ہوجائے گی اور دوسری طرف مریض کا حساس اور ذاتی ڈیٹا محفوظ بنایا جاسکے گا۔ فی الحال ڈیجیٹل چوروں یعنی ہیکروں سے ڈیٹا بچانے کے لیے ان پر مرحلہ وار اینکرپشن لگائی جاتی ہے جس میں بہت زیادہ وقت اور اخراجات صرف ہوتے ہیں۔ ای سی جی دل کی برقی سرگرمی کو کہتے ہیں جسے ای سی جی مشینوں کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے۔ ماہرین نے اسی کو استعمال کرتے ہوئے مریض کے ڈیٹا کو لاک اور ان لاک کرنے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس طرح بہت کم رقم سے مریض کا ڈیٹا محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ اس سے اگلی نسل کی محفوظ اور مؤثر طب کی راہیں کھلیں گی۔ ای سی جی بیماری، عمر رسیدگی اور دیگر وجوہ کی بنا پر تبدیل ہوتا رہتا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ساری تبدیلیوں کے باوجود رہتی ہے ہر انسان کے ای سی جی میں کچھ حصے ضرور ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ یکساں اور دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں یعنی انہیں بالکل فنگر پرنٹس کی طرح متعلقہ مریض کا ڈیٹا لاک اور ان لاک کرنے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ قبل ازیں 2015 میں ہیلی فیکس بینک نے ہاتھ پر پہنے جانے والے ایک پلاسٹک کے کڑے (رِسٹ بینڈ) سے آن لائن اکاؤنٹ کھولنے اور بند کرنے کا کامیاب مظاہرہ کیا تھا۔