خبرنامہ

پانچ بچوں کے کان انہی کے خلیات سے اگادیئے گئے

پانچ بچوں کے

پانچ بچوں کے کان انہی کے خلیات سے اگادیئے گئے

بیجنگ:(ملت آن لائن) چین میں پانچ بچوں کے کان کے تھری ڈی ماڈل بنائے گئے اوران بچوں کے اپنے خلیات (سیلز) سے ان کی افزائش کی گئی ہے۔ اپنی نوعیت کا یہ دنیا میں پہلا کامیاب کام بھی ہے۔

6 سے 9 برس کے یہ بچے ایک مرض مائیکروشیا کے شکار تھے جس میں کان کا بیرونی حصہ نہیں بن پاتا یا اس کی شکل بگڑی ہوئی ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر بچے کا صرف ایک کان متاثر تھا۔ اس کےلیے ٹشو انجینئرنگ اور پلاسٹک سرجری کے ماہرین نے کئی ماہ کی محنت کے بعد ان بچوں کے کان کی اصل شکل لوٹا دی ہے۔

ماہرین نے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا ہے، ’ہمارا کام ٹشو انجینئرنگ سے انسانی کان کی کرکری ہڈی (کارٹلیج) کی کامیاب تیاری کو ظاہر کرتا ہے۔ پہلے ہم نے ٹشو انجینئرنگ کے ذریعے تجربہ گاہ میں تھری ڈی ماڈل کی بنا پر کان اگایا اور اسے پلاسٹک سرجنوں کی مدد سے احتیاط سے مریض کو لگادیا گیا۔‘

ماہرین نے بچوں کے درست اور نارمل کان سے کرکری ہڈیوں کے خلیات (کونڈروسائٹس) لیے اور سیل کلچر عمل کے ذریعے پیٹری ڈش میں کاشت کیا۔ درست کان کے مکمل اسکین کیے گئے اور تھری ڈی پرنٹر سے ان کا ایک ڈھانچہ بنایا گیا اور اس سانچے میں کان کے خلیات شامل کیے گئے جو عین اسی بچے کے درست کان کی شکل اختیار کرگئے۔ کان مکمل ہونے پر انہیں مریضوں کو لگادیا گیا اور تھوڑی بہت تراش خراش کے بعد وہ بالکل اصلی کان کی طرح دکھائی دینے لگے۔

اگرچہ یہ کوششیں پہلے بھی ہوئی ہیں لیکن انسانوں میں پہلی بار ٹشو انجینئرنگ سے تیار کردہ کانوں کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔ اب کانوں کے پیوند لگائے 30 ماہ ہوچکے ہیں اور تمام بچے مکمل طور پر صحت مند ہیں۔

نیویارک میں کورنیل یونیورسٹی کے ایک ماہر ڈاکٹر لارنس بونیسر کہتے ہیں کہ یہ ایک زبردست پیش رفت ہے کیونکہ ماہرین گزشتہ 20 برسوں سے انسانی کان کے نقائص کو ٹشو انجینئرنگ سے دور کرنے کی کوشش کررہے تھے لیکن اب اس میں اہم کامیابی ملی ہے۔

بہت سے ممالک میں بچے ابنارمل کانوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں جن کے کان مکمل طور پر تشکیل پذیر نہیں ہوتے۔ بعض ممالک میں اوسطاً دس ہزار میں سے 17 بچے پیدائشی طور پر اس مرض مائیکروشیا کے شکار ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق مریض کے اپنے جسم کے خلیات سے کان کی افزائش کا یہ پہلا اور کامیاب عملی مظاہرہ ہے۔

تاہم ڈھائی سال کے بعد بھی ان بچوں کے کان سے وہ حصے جھڑ کر ختم نہیں ہوئے جو بایو ڈی گریڈیبل تھے اورانہیں ختم ہوجانا چاہیے تھا۔ ماہرین نے کہا کہ اب مزید پانچ برس تک ان بچوں کی مسلسل نگرانی کی جائے گی۔ البتہ ان میں سے دو بچوں کے کانوں میں معمولی سا بگاڑ بھی نوٹ کیا گیا ہے جس پر ڈاکٹر یکسوئی سے متوجہ ہیں۔

ان سب کے باوجود تجزیہ نگاروں نے چینی ماہرین کی کاوش کو سراہا ہے اور اس نئی ٹیکنالوجی کو مؤثر قرار دیا ہے۔