خبرنامہ

پاکستان میں ہرسال 15 ہزار بچے پیدائشی امراضِ قلب کے ہاتھوں ہلاک ہورہے ہیں

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان میں ہر سال 15 ہزار سے زائد بچے پیدائشی طور پر قلبی نقائص اور امراض کے ہاتھوں لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ دوسری جانب ماہر سرجنوں کی شدید قلت سے صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے۔ کراچی میں واقع قومی ادارہ برائے امراضِ قلب (این آئی سی وی ڈی) کے ڈاکٹر سہیل بنگش نہ صرف کراچی بلکہ سندھ اور بلوچستان کے بیمار بچوں کے لیے بھی ایک امید ہیں اور وہ ہر سال 800 سے 1000 بچوں کا آپریشن کررہے ہیں یعنی دو سے تین آپریشن روزانہ ۔

ڈاکٹر سہیل بنگش نے بتایا کہ پاکستان میں ہرسال دل کے پیدائشی نقائص والے 3000 بچوں کا آپریشن ہوتا ہے اوروہ تنہا 800 سے 1000 آپریشن ہر سال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سہیل بنگش نے بتایا کہ ان سمیت پورے پاکستان میں صرف 11 ڈاکٹر ایسے ہیں جو بچوں کی قلبی سرجری کے ماہر ہیں جبکہ بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

یہ ڈاکٹر آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے علاوہ لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد اور ملتان میں بچوں کے آپریشن کررہے ہیں جبکہ سندھ اور بلوچستان کے مریض این آئی سی وی ڈی آتے ہیں کیونکہ یہ ایک سرکاری ہسپتال ہے۔ اس کے علاوہ این آئی سی وی ڈی کی ڈاکٹر نجمہ پٹیل ان چند ماہرین میں سے ایک ہیں جو ہفتے میں دو مرتبہ بچوں کو دیکھتی ہیں۔ وہ ہفتے میں دو مرتبہ بچوں کی او پی ڈی کرتی ہیں اور ایک دن میں 250 سے زائد بچوں کا جائزہ لیتی ہیں جبکہ آپریشن سے قبل کچھ ماہ کے وقفے سے بچے کو پانچ مرتبہ چیک کرانا ہوتا ہے جس کے بعد کسی آپریشن کا مرحلہ آتا ہے۔.

اس سے قبل قومی ادارے میں اوپن ہارٹ سرجری کی فیس 50 ہزار اور بند دل کی سرجری 10 ہزار میں کی جارہی تھی تاہم اب یہ اخراجات بھی ختم کردیئے گئے ہیں اور اس سے مریضوں کا ہجوم مزید بڑھ گیا ہے۔

’ہمیں اگلے سال سے آپریشن کی تعداد 1500 تک لے جانی ہے اور میری نگرانی میں ایک سرجن اپنی ٹریننگ ختم کرنے کے قریب ہے جبکہ دوسرا سرجن ملائیشیا سے تربیت لے کر اگلے چھ ماہ تک پاکستان واپس آجائے گا،‘ پروفیسر سہیل نے کہا۔ ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے پروفیسر بنگش نے کہا کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں بچوں کےلیے قلبی سرجن اور انفراسٹرکچر کی کتنی شدید قلت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ این آئی سی وی ڈی میں بھی بچوں کی سرجری کا سیٹ اپ گزشتہ 8 برسوں میں بنایا گیا ہے ورنہ اس سے قبل بچوں کو ایسے آپریشنز کے لیے بھارت لےجایا جارہا تھا۔

این آئی سی وی ڈی کے ڈائریکٹر پروفیسر نوید قمر نے بھی سرجنوں کی شدید قلت کا ذکر کرتے ہوئے غیرممالک میں رہنے والے بچوں کے دل کے سرجنوں سے درخواست کی کہ وہ ملک واپس آکر یہاں بچوں کی ایک طویل قطار کو کم کرنے میں مدد کریں۔

ڈاکٹر قمر نے کہا کہ ادارے کو فوری طور پر بچوں کے پانچ سرجن درکار ہیں جبکہ پورے سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب بلکہ ایران اور افغانستان کے بچوں کےلیے ایک واحد سرجن کام کررہا ہے جس پر بے پناہ کام کا دباؤ ہے۔

دوسری جانب آغا خان یونیورسٹی ہسپتال سے وابستہ ڈاکٹر بابر حسن نے بتایا کہ پاکستان مہں ہر سال 60 ہزار سے زائد بچے کسی نہ کسی قلبی بیماری کے ساتھ پیدا ہورہے ہیں اور ہر سال 15 ہزار افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں کیونکہ اکثریت اس مرض کی تشخیص سے دور ہوتی ہے۔ ڈاکٹر حسن نے کہا کہ صحت اور علاج تک رسائی ہر ایک کا حق ہے۔

شفا کے لیے دربدر والدین

این آئی سی وی ڈی میں پاکستان کے دوردراز علاقوں سے بچے لائے جارہے ہیں۔ ان میں سے ایک 13 ماہ کا تنویر علی بھی ہے ۔ اس کی پیدائش کے 15 دن بعد ایک مقامی ڈاکٹر نے اسے وینٹریکیول سیپٹل ڈیفیکٹ یا دل میں سوراخ کا مریض بتایا تھا اور اب اسے کراچی میں قومی ادارہ برائے قلب میں لایا گیا ہے۔

تنویر علی سانگھڑ کا رہائشی ہے اور اس کے والد پانچ سے چھ مرتبہ اسے ڈاکٹر نجمہ پٹیل کے پاس لاچکے ہیں۔ تنویر کے والد محمد اکرم نے دو گائیں اور تین بکریاں فروخت کی ہیں تاکہ کراچی کا کرایہ ادا ہوسکے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی بیوی کا زیور بھی فروخت کرچکے ہیں جس کے عوض 15 ہزار روپے ملے ہیں۔ تاہم اب انہیں آپریشن کی تاریخ مل چکی ہے اور ایک سال کی مشقت اور تکلیف کو وہ بھول چکے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک اور چار سالہ بچہ ارمان بھی ہے جس کے والدین اسے جنوبی وزیرستان سے لے کر آئے ہیں۔اس کے والد محمد منصور نے بتایا کہ کہ وہ ہر دو سے تین ماہ بعد یہاں آتے رہے ہیں اور اب مفت آپریشن کے لیے اگلے برس فروری کی تاریخ ملی ہے۔

ایسا ہی واقعہ مورو میں تعینات ایک جیل کانسٹیبل شبیر لغاری کا ہے جو اب تک چار مرتبہ کراچی آچکے ہیں۔ اب دسمبر میں اس کے دل کے سوراخ کا آپریشن کیا جائے گا۔ اس کے لیے شبیر کو دس ماہ تک انتظار کرنا پڑا ہے۔