ایک زمانے میں افتخار سندھو اخبارات کے قارئین میں شامل تھے۔ وہ کسی کا کالم پڑھتے تو اسے فون کرکے اس کالم کے مندرجات پر مدلل گفتگو کرتے۔ اللہ کی شان ہے کہ آج وہ قاری سے لکھاری بن گئے ہیں۔ ان کی پہلی کتاب کئی ماہ پہلے شائع ہوئی ، جسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ، اس نے فروخت کے کئی ریکارڈ توڑ دیئے۔ اس کتاب پر بھرپور عوامی ردعمل نے افتخار سندھو کو حوصلہ بخشا کہ وہ کتابیں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ اس وقت ا ن کی دوسری کتاب زیر تکمیل ہے۔ میرااندازہ ہے کہ یہ افتخار سندھو کی پہلی کتاب سے بھی زیادہ باکس آفس میں دھوم مچادے گی اور غور و فکر کے نئے راستے کھولے گی۔
چودھری افتخار سندھوسے میرا پہلا رابطہ کئی سال پہلے ٹیلیفون پر ہوا تھا۔انھوں نے ’نوائے وقت‘ میں میرا ایک کالم پڑھنے کے بعد مجھے فون کیا تھا۔ مجھے ان کی مدلل گفتگونے بے حد متاثر کیا۔میںنے ان کو ’پریس کونسل آف انٹرنیشنل افیئرز ‘ (پی سی آئی اے)کے ہفتہ وار اجلاس میں بطور گیسٹ سپیکردو مرتبہ مدعو کیاتاکہ ان کے دانشورانہ خیالات سے مستفید ہوا جاسکے۔چودھری افتخار سندھو کی گفتگو سے پی سی آئی اے کے تمام ارکان متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ چودھری افتخار سندھوکے سینے میں ایک دردمندانسان کا دل دھڑکتا ہے۔ وہ دنیا میںجہاں کہیں بھی ظلم وستم دیکھتے ہیں تو تڑپ اٹھتے ہیں اورامیر مینائی کے جذبات کی عملی تصویر بن جاتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے سارے جہاں کا درد انھی کے جگر میں ہے۔
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
حب الوطنی کے جذبے کے حوالے سے چودھری افتخار سندھو اپنی مثال آپ ہیںاور کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ اس امرمیں کوئی شک نہیں کہ ان کی زندگی جدوجہد سے عبارت ہے۔وہ حق بات کہنے سے بالکل نہیں گھبراتے ، اور ہر وہ بات بلا تامل کہہ دیتے ہیں ، جسے برحق سمجھتے ہیں۔جس کسی نے بھی ان کی خود نوشت ’افتخار نامہ‘ پڑھی ہے،وہ جانتا ہے کہ انھوں نے اپنی اس کتاب میںٹھوس دلائل کے ساتھ وطن عزیز کی درد ناک تاریخ کے بہت سے حوالو ں کی کما حقہ اصلاح کی ہے جن کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔افتخار نامہ نے بلاشبہ فروخت کے ریکارڈ قائم کیے ہیں اور لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ چالیس سال سے قرآن پاک کا طالب علم ہونے کے ناتے وہ شرعی اور معاشرتی بدعات کے انتہائی شدید ناقد ہیں اور اپنی نئی تصنیف جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، اس میں انھوں نے ہمارے اپنے پیدا کردہ معاشرتی مسائل کی نشاندہی پر قلم اٹھاتے ہوئے ان کی اصلاح کابھی بیڑا اٹھا یا ہے۔ اس کتاب کا جو ابتدائی مسودہ مجھ تک پہنچا ہے ، ا س کوپڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ افتخار سندھو کے قلم نے سپیڈپکڑ لی ہے۔اس لیے ایک کے بعد دوسری کتاب چند ماہ میں سامنے آرہی ہے۔
اس کتاب کے دیباچے میںچودھری افتخار سندھو کا کہنا ہے کہ ہمارا ملک پاکستان 1947ء میں قائم ہو گیا تھا، غلط بن گیا یا صحیح، یہ بحث اب ختم ہونی چاہیے۔یہ 25 کروڑ افراد کا ملک ہے،اب دنیا کا کوئی دوسرا ملک ہمیں قبول نہیں کرے گا ، ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن تھا ہی نہیں ، اس کے سوا کہ ہم اس نئے نویلے ،خداداد ملک کو ترقی کے راستے پر لے جاتے اور اس کو پوری دنیا میں ایک باعزت مقام دلانے کی سعی کرتے۔ اپنے معاشرے اور ملک کو تعلیمی، سماجی، سیاسی، معاشی، اجتماعی، انفرادی اور اخلاقی ترقی کی طرف لے کر جانا ہمارا قومی فرض ِ اوّلین تھا جو ہم نے بدقسمتی سے کسی بھی سطح پر پورا نہیں کیا۔نہ ہم نے معاشرتی سطح پر پورا کیا ہے نہ ہم نے انفرادی سطح پر پورا کیا ہے، نہ ہم نے انتظامی سطح پہ پورا کیا ہے۔ ہمارے کسی بھی طبقے نے اس کو پورا نہیں کیا۔اس طرح ہم تمام شعبوں میں ترقی کرنے سے نہ صرف قاصر رہے بلکہ تنز ّلی کی طرف چلے گئے اور ملک کی تباہی اور بربادی کی طرف سفر کا آغاز 1947 ء سے ہی کر دیا گیاتھا اور آج تک ہم اسی راستے پر چل رہے ہیں۔ ہم ہر وقت حکومت کی نالائقیوں، نااہلیوں، بدمعاشیوں، عیاشیوں، فحاشیوں، کرپشن، لوٹ مار اور ملک کو برباد کرنے کے تذکرے سارا دن تو کرتے رہتے ہیں اور وہ ہم کرتے رہیں گے۔ہم غیر ملکی سازشوں کا بھی ذکر کرتے ہیں اوراپنے آپ کو انفرادی طور پر بری الذمہ تصور کرتے ہیں یا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان اپنے گناہوں یا اپنی غلطیوں کا بوجھ ہمیشہ کسی دوسرے پر ڈالنے اور اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے۔
انھوں نے اس کتاب میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس ملک کو تباہ و برباد کرنے میںہماری اشرافیہ کو جو کرنا تھا ، اس نے کیا ہے لیکن ہم نے خود بھی اس میں کوئی کم کردار ادا نہیں کیا۔ ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے ملک کو برباد کیا ہے، ہم نے خود پوری دنیا میںاپنے آپ کو ذلیل ور سوا کیا ہے۔ اس کتاب میںخاص طور پر ان سماجی بیماریوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو انفرادی سطح پر اس معاشرے میں عام لوگوں نے خود اختیار کر کے اپنے معاشرے اور اپنے ہی ملک کا ستیاناس کیا ہے۔اپنے سماج کا بیڑا غرق کرکے آج دنیا میں ہم عبرت کا نشان بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میںجس شعبے کو بھی آپ لے لیں، ہم تنزلی کی آخری حد وںکو پہنچے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اس کتاب میں وہ وجوہات بیان کی ہیں کہ کیوں ہم اس سطح تک پہنچے۔ ملک کا تو جو حال ہونا تھا وہ ہو چکا ، لیکن میں بتا رہا ہوں کہ یہ وہ سماجی بیماریاں ہیں جن کی وجہ سے ہم یہاں تک پہنچے ہیں، یہ آپ کے اپنے کرتوت ہیں جو آپ نے کیے ہیں اور اس کی اصلاح بھی اب آپ کو خود ہی کرنا ہوگی۔
خبرنامہ
افتخار سندھو کے قلم نے سپیڈ پکڑ لی
