خبرنامہ

ایون فیلڈ ریفرنس:واجد ضیاء کو تیسرے روز بھی کڑے سوالات کا سامنا، سماعت ملتوی

ایون فیلڈ ریفرنس:واجد

ایون فیلڈ ریفرنس:واجد ضیاء کو تیسرے روز بھی کڑے سوالات کا سامنا، سماعت ملتوی

اسلام آباد:(ملت آن لائن) شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کو تیسرے روز بھی کڑے سوالات کا سامنا رہا جب کہ سماعت 2 اپریل تک ملتوی کردی گئی۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی جس کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیاء پر تیسرے روز جرح جاری رکھی۔ سماعت کے آغاز پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے جیری فری مین سے متعلق سوال کیا جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ حسن نواز کے 2 ٹرسٹ ڈیڈ پر 2 جنوری 2006 کو دستخط کی جیری فری مین نےتصدیق کی اور وہ اس کے گواہ ہیں۔ واجد ضیاء نے بتایا کہ ٹرسٹ ڈیڈ نیلسن اور نیسکول سے متعلق تھی جن کی کاپیاں جیری فری مین کے آفس میں ہیں جس پر خواجہ حارث نے سوال کیا ‘آپ نے جیری فری مین کو دستاویزات اور ثبوتوں کے ساتھ پاکستان آکر بیان دینے کا لکھا’ جس پر گواہ واجد ضیاء نے کہا کہ نہیں انہیں پاکستان آنے کا نہیں کہا۔
خواجہ حارث کے واجد ضیاء سے گلف اسٹیل سے متعلق سوالات
نواز شریف کے وکیل نے سوال کیا کہ ‘جے آئی ٹی کی تفتیش کے مطابق گلف اسٹیل مل دبئی میں کب قائم ہوئی’ جس پر خواجہ حارث نے بتایا ‘ہماری تفتیش، دستاویزات اور کاغذات کی روشنی میں گلف اسٹیل مل 1978 میں بنی’، خواجہ حارث نے پوچھا 1978 کے شیئرز سیل کنٹریکٹ دیکھ لیں، کیا آپ نے ان کی تصدیق کرائی جس پر واجد ضیاء نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں کیا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ اگر آپ نے تصدیق نہیں کرائی تو کیا آپ اس کنٹریکٹ کے مندرجات کو درست تسلیم کرتے ہیں جس پر واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی نے گلف اسٹیل مل کے کنٹریکٹ کو درست تسلیم کیا۔ خواجہ حارث نے پوچھا ’14 اپریل 1980 کو آہلی اسٹیل مل بنی کیا آپ نے اس کے مالک سے رابطہ کیا’ جس پر واجد ضیاء نے کہا گلف اسٹیل کے بعد آہلی اسٹیل مل بنی لیکن ہم نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ خواجہ حارث نے پوچھا ‘جے آئی ٹی والیم 3 میں جو خط ہے، اس کے مطابق اسٹیل مل کا اسکریپ دبئی نہیں بلکہ شارجہ سے جدہ گیا’، واجد ضیا نے جواب دیا یہ بات درست ہے، خواجہ حارث نے پوچھا خط کے مطابق وہ اسکریپ نہیں بلکہ استعمال شدہ مشینری تھی جس پر واجد ضیاء نے کہا یہ درست ہے کہ اسکریپ نہیں بلکہ وہ استعمال شدہ مشینری تھی۔ نواز شریف کے وکیل نے سوال کیا ‘جے آئی ٹی نے دبئی اتھارٹی کو ایم ایل اے بھیجا کہ اسکریپ بھیجنے کا کوئی ریکارڈ موجود ہے’ جس پر واجد ضیا نے کہا ایسا کوئی ایم ایل اے نہیں بھیجا گیا۔
ہمارے پاس کوئی ایسی دستاویزات نہیں جن پر سپریم کورٹ کی مہر ہو، واجد ضیاء
خواجہ حارث نے سوال کیا ‘جے آئی ٹی کے والیم میں کتنی ایسی دستاویزات ہیں جن پرسپریم کورٹ کی مہر ہے جس پر واجد ضیاء نے کہا ‘ہمارے پاس کوئی ایسی دستاویزات نہیں جن پر سپریم کورٹ کی مہر ہو’۔ اس موقع پر جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ ‘کیا میں جے آئی ٹی کے والیم دیکھ سکتا ہوں’ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ آپ زیادہ بول رہے ہیں، آپ کو اتنا کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ جس پر واجد ضیاء نے کہا کہ میں کچھ اور باتیں شامل کرنا چاہتا ہوں جس پر فاضل جج محمد بشیر نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ اور نہ بولیں۔ گزشتہ دو روز کے دوران ہونے والی سماعت کے دوران خواجہ حارث نے لندن فلیٹس کی ملکیت سے متعلق واجد ضیاء سے سوالات کیے۔
لندن فلیٹس: نواز شریف کے بینیفشل اونرہونے کی دستاویزات پیش نہیں کیں، واجد ضیا
جے آئی ٹی سربراہ کو گلف اسٹیل ملز اور قطری شہزادے کے خط سے متعلق بھی سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ واجد ضیاء نے کہا کہ لندن فلیٹس سے متعلق ایسی دستاویزات پیش نہیں کیں جن سے ثابت ہو کہ نواز شریف بینی فیشل اونر ہیں۔ واجد ضیاء نے گزشتہ سماعت پر یہ بھی انکشاف کیا کہ قطری شہزادے کو سوالنامہ بھیجنے کے معاملے پر جے آئی ٹی ممبران میں اتفاق نہیں ہوا تھا۔
نیب ریفرنسز کا پس منظر
سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق تھے۔ نیب کی جانب سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف ان کے بچوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔ دوسری جانب العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔ نیب کی جانب سے ان تینوں ریفرنسز کے ضمنی ریفرنسز بھی احتساب عدالت میں دائر کیے جاچکے ہیں۔