خبرنامہ

ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف، مریم نواز کی قسمت کا فیصلہ کچھ دیر میں متوقع

اسلام آباد کی احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تا حیات قائد نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کچھ دیرمیں سنایا جائے گا۔

اس سے قبل احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ 7 روز تک مؤخر کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی تھی۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف کی درخواست پر سماعت کی تھی اور وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

وقفے کے بعد مذکورہ درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے احتساب عدالت نے نواز شریف کی فیصلہ 7 روز تک مؤخر کرنے کی درخواست مسترد کردی۔

احتساب عدالت کی جانب سے نواز شریف کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کچھ ہی دیر میں سنائے جانے کا امکان ہے۔

ادھر ایون فیلڈ ریفرنس کے متوقع فیصلے کے موقع پراحتساب عدالت کے اطراف میں سخت سیکیورٹی کے انتظامات کیے گئے تھے اور کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو عدالت میں آنے کی اجازت نہیں تھی جبکہ شہری انتظامیہ نے اسلام آباد میں دفعہ 144 بھی نافذ کر دی تھی۔

احتساب عدالت کے اطراف اور اندر سخت سیکیورٹی کے لیے رینجرز اور کمانڈوز کے خصوصی دستے بھی تعینات کیے گئے تھے جبکہ اس دوران صحافیوں کو بھی کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ 7 روز تک مؤخر کرنے کی درخواست
اس سے قبل اسلام آباد کی احتساب عدالت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ آج (بروز جمعہ) سنایا جائے گا۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی جانب سے 3 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا اور اسے سنانے کے لیے 6 جولائی کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے احتساب عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں اس فیصلے کو چند روز کے لیے مؤخر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ بیگم کلثوم نواز کی طبیعت کی ناسازی کے باعث وہ فیصلے کے موقع پر عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے لہٰذا چند روز کے لیے اس فیصلے کو مؤخر کیا جائے۔

واضح رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کئی مواقع پر دعویٰ کرچکے ہیں کہ وہ مجموعی طور پراحتساب عدالت میں 100 سے زائد مرتبہ پیش ہوچکے ہیں جبکہ 9 ماہ سے زائد اس کیس کی سماعت جاری رہی۔

فیصلے کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا، وکیل مریم نواز

ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے محفوظ کیا جانے والا فیصلہ سنائے جانے سے متعلق مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ ان کا کیس بہت مضبوط ہے۔

عدالت کے باہر صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیصلے کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا فیصلہ آئے گا۔

انہوں نے بتایا کہ عدالت نے دونوں فریقین کے دلائل سن لیے اور اس پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو کچھ ہی دیر میں سنادیا جائے گا۔

اس موقع پر صحافیوں کی جانب سے پوچھا گیا کہ آیا سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر فیصلہ سننے کے لیے عدالت میں پیش ہوں گے؟ تو اس پر وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ موبائل فون میسر نہ ہونے کی وجہ سے کیپٹن (ر) صفدر سے تاحال کوئی رابطہ نہیں ہوا، تاہم اس حوالے سے وہ کیپٹن (ر) صفدر سے گفتگو کریں گے۔

احتساب عدالت کے باہر موجود مسلم لیگ (ن) کے رہنما آصف کرمانی نے فیصلے کے حوالے سے کہا کہ اللہ تعالیٰ خیر کرے گا اور ہم اچھے کی امید رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے کہا کہ جیسے ہی بیگم کلثوم نواز کی طبیعت ٹھیک ہوگی اور وہ ہوش میں آئیں گی تو وہ اور مریم نواز فوری طور پر وطن واپس آجائیں گے۔

آصف کرمانی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی درخواست پر فیصلہ آنے دیں اس کے بعد ہی تفصیلی بات کی جائے گی۔

ایون فیلڈ ریفرنس کا پس منظر

یاد رہے کہ گزشتہ برس 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کی روشنی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا تھا جس کے ساتھ ہی وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے بھی نااہل قرار پائے تھے۔

مذکورہ فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا، جبکہ ان ریفرنسز پر 6 ماہ میں فیصلہ سنانے کا بھی حکم دیا تھا۔

بعد ازاں نیب کی جانب سے نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف 8ستمبر2017 کوعبوری ریفرنس دائرکیا گیا تھا۔

ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز، حسن اورحسین نوازکے علاوہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدرملزم نامزد تھے، تاہم عدالت نےعدم حاضری کی بنا پر نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دیا تھا۔

مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر 19 اکتوبر 2017 کو براہ راست فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ نوازشریف کی عدم موجودگی کی بنا پران کے نمائندے ظافرخان کے ذریعے فردجرم عائد کی گئی تاہم نواز شریف 26 ستمبر 2017 کو پہلی بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوگئے تھے۔

9 اکتوبر2017 کو مریم نواز احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئی تھیں جبکہ کیپٹن (ر) صفدر کوایئرپورٹ سے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

26 اکتوبر2017 کو نوازشریف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے،3 نومبر 2017 کو پہلی بار نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر)صفدر اکٹھے عدالت میں پیش ہوئے اور 8 نومبر2017 کو پیشی کے موقع پر نوازشریف پربراہ راست فرد جرم عائد کی گئی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے ان ریفرنس کا فیصلہ 6 ماہ میں کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ مدت رواں برس مارچ میں ختم ہونی تھی تاہم سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کی درخواست پر شریف خاندان کے خلاف زیرِ سماعت نیب ریفرنسز کی ٹرائل کی مدت میں 2 ماہ تک کی توسیع کردی گئی تھی۔

نیب ریفرنسز کی توسیع شدہ مدت مئی میں اختتام پذیر ہوئی تاہم احتساب عدالت کی جانب سے سپریم کورٹ میں ٹرائل کی مدت میں مزید توسیع کے لیے درخواست دائر کی گئی جسے عدالتِ عظمیٰ نے قبول کرلیا اور ٹرائل کی مدت میں 9 جون تک توسیع کی۔

سپریم کورٹ کی توسیع شدہ مدت جون میں اختتام ہونے والی تھی، تاہم احتساب عدالت نے ٹرائل کی مدت میں توسیع کا فیصلہ کرتے ہوئے 4 جون کو ایک مرتبہ پھر عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔

10 جون کو سپریم کورٹ کی جانب سے حکم دیا گیا کہ شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کا فیصلہ ایک ماہ میں سنایا جائے۔

11 جون 2018 کو کیس میں نیا موڑ آیا جب حتمی دلائل کی تاریخ سے ایک دن پہلے خواجہ حارث کیس سے الگ ہوگئے جس پر نوازشریف کی طرف سے ایڈووکیٹ جہانگیر جدون نے وکالت نامہ جمع کروایا تاہم 19جون کوخواجہ حارث احتساب عدالت پہنچے اوردست برداری کی درخواست واپس لے لی۔

یہ بھی یاد رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں مجموعی طور پر18 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء بھی شامل تھے۔