سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن نظرثانی کیس میں ملک ریاض کی جانب سے تحریری جواب جمع کرانے کے بعد قومی احتساب بیورو ( نیب ) کو ملک ریاض اور ان کے اہل خانہ کے خلاف کارروائی سے روک دیا، ساتھ ہی عدالت نے بحریہ ٹاؤن کو سرمایہ کاروں سے رقم وصول کرنے کی اجازت دے دی۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بحریہ ٹاؤن نظر ثانی کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض عدالت میں پیش ہوئے اور تحریری جواب جمع کرایا۔
جواب میں کہا گیا کہ ملک ریاض 15 دنوں میں 5 ارب روپے زر ضمانت جمع کروائیں گے اور بحریہ ٹاؤن کے تمام مقدمات سے متعلق معاملات حل ہونے تک سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں موجود رہے گی۔
اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک ریاض یا ان کے اہل خانہ کی تمام جائیدادیں قرق ( ضبط ) کریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل کی ساری عدالتی کارروائی میڈیا نے بلیک آؤٹ کردی، کیا آپ کا اتنا اثر و رسوخ ہے؟ کیا آپ نے پیسے تو نہیں لگا دیے؟ ملک ریاض آپ کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔
اس پر ملک ریاض نے کہا کہ ہر چیز میرے نام نہ لگائی جائے، پورے میڈیا میں مجھے ڈان بنا دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ حکومتیں بنانے اور گرانے میں ڈان نہیں بنے رہے؟
جس پر ملک ریاض نے کہا کہ میں نے کیا گناہ کیا ہے، اس پر چیف جسٹس نے ملک ریاض کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ حکومتیں بنانے اور گرانے کا کام چھوڑ دیں، ملک ریاض وہ وقت نہیں رہا، جب آپ کے لیے اگلے ہی دن حکومتیں تبدیل ہوجاتی تھیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے اخراجات کے لیے جتنے پیسے چاہئیں وہ رکھ لیں، ہمیں بتائیں سینیٹ انتخابات میں آپ نے کیا کیا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے سینیٹ انتخابات میں کیا کردار ادا کیا، آپ بس رہنے دیں۔
اس دوران چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ ملک ریاض میں بحریہ ٹاؤن کراچی کا دورہ کرنے کے لیے آرہا ہوں، میں نے حساب کتاب کرکے ایک ایک روپیہ واپس کروانا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ملک ریاض کو جیل بھیج دیا تو جہاں کرین کھڑی ہے وہیں کھڑی رہے گی۔
بعد ازاں عدالت نے ملک ریاض کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب پر کہا کہ ملک ریاض نے تحریری تجاویز عدالت میں جمع کرادی ہیں، جس میں کہا گیا کہ ملک ریاض 5 ارب روپے 15 دنوں میں جمع کروائیں گے۔
عدالت نے نے حکم دیا کہ ملک ریاض اپنی اور اہل خانہ کے نام پر موجود جائیدادوں کے کاغذات بطور ضمانت عدالت میں جمع کرائیں گے اور وہ انہیں بیچ نہیں سکتے۔
عدالت نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے تجاویز دی گئی جبکہ ملک ریاض نے 5 ارب روپے بطور ضمانت عدالت میں جمع کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ 5 ارب روپے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ دوسری تجویز میں بحریہ ٹاؤن نے کہا ہے کہ وہ اپنی ذاتی جائیداد نہیں بیچیں گے، ملک ریاض کے خاندان کی ذاتی جائیدادیں ضمانت کے طور پر عدالت کو دی جائیں گی۔
عدالتی حکم میں کہا گیا کہ ملک ریاض اقساط کی مد میں وصول کرنے والی رقم کا 20 فیصد زر ضمانت کے طور پر سپریم کورٹ کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائیں گے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ میں علیحدہ اکاؤنٹ کھولا جائے گا۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ نیب بحریہ ٹاون کے خلاف اس وقت تک کارروائی نہ کرے جب تک نظر ثانی کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کیس کا فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہوگئے اور ایک نے ملک ریاض کے حق میں اختلاف کیا، اس لیے نظرثانی کیس میں 5 رکنی لاجر بینچ تشکیل دیا جائے گا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے زمین خریدنے والوں سے رقم وصول کرنے کو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے رقم وصول کرنے سے روک دیا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کو 2 ہفتوں میں 5 ارب روپے اور ذاتی جائیداد کے کاغذات بطور ضمانت جمع کرانے کا حکم دیا تھا جبکہ عدالت نے ملک ریاض سے 2 ہفتوں میں 5 ارب روپے اور ذاتی جائیداد کے کاغذات بطور ضمانت طلب کیے تھے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
خیال رہے کہ 4 مئی 2018 کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا تھا۔
جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 1-2 کی اکثریت سے بحریہ ٹاؤن اراضی سے متعلق کیسز پر فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے کو قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجنے اور تین ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ بحریہ ٹاؤن کو اراضی کا تبادلہ خلاف قانون تھا، لہٰذا حکومت کی اراضی حکومت کو واپس کی جائے جبکہ بحریہ ٹاؤن کی اراضی بحریہ ٹاؤن کو واپس دی جائے۔
عدالت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا تھا جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیں۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کے ساتھ زمین کا تبادلہ قانون کے مطابق کیا جاسکتا ہے لیکن زمین کے تبادلے کی شرائط اور قیمت عدالت کا عمل درآمد بینچ طے کرے گا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ جب تک سندھ حکومت زمین کا فیصلہ نہیں کرتی، الاٹی اسپیشل اکاؤنٹ میں رقم جمع کرنے کے پابند ہوں گے، اس سلسلے میں عدالت نے ایڈیشنل رجسٹرار کراچی کو اسپیشل اکاؤنٹ کھولنے کی ہدایت کی تھی۔
یہ بھی یاد رہے کہ 30 مئی کو نیب نے سپریم کورٹ کے احکامات کے پیش نظر بحریہ ٹاؤن کے خلاف اپنی تحقیقات مکمل کرتے ہوئے اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ زمین کی غیرقانونی منتقلی میں ملوث اداروں اور افراد کے خلاف ان کا کیس بہت مضبوط ہے۔
تحقیقات کے حوالے سے نیب نے انکشاف کیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے متعلقہ حکام کے ساتھ مل کر ہزاروں ایکڑ زمینیں ہڑپ کیں جس کے سبب قومی خزانے کو 90 ارب روپے کا نقصان ہوا۔