خبرنامہ

جسٹس آصف سعید نے وزیر اعظم کے وکیل کے سامنے نئے سوالات رکھ دیئے

اسلام آباد: (ملت+اے پی پی) سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کی سماعت کل تک ملتوی ، جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ سماعت صبح ساڑھے نو بجے سے ایک بجے تک ہوا کرے گی ، سوال یہ ہے کہ شریف خاندان کے پاس پیسہ کیسے آیا ، منی ٹریل کیا تھا ۔ پاناما کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال اٹھایا کہ وزیر اعظم کے بقول اتفاق فیکٹری قومیائی گئی تو شریف خاندان کے پاس روپیہ بھی نہ رہا ، سوال یہ ہے کہ شریف خاندان کے پاس پیسہ کیسے آیا ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دبئی سٹیل مل کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا ، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ فیکٹری کی فروخت پر کیا کیا گیا ، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ فیکٹری فروخت کے معاہدوں میں بینک گارنٹی موجود ہے ، اس کا مطلب ہے بینک کی ٹرانزیکشن ہوئی ہے ۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ دبئی سے رقم قطر یا جدہ کیسے گئی ، رقم منتقلی کی بینک ٹرانزیکشن کہاں ہے ، جسٹس آصف نے کہا کہ وزیر اعظم نے تقریر میں کہا کہ گلف فیکٹری سے 33 ملین درہم ملے ، طارق شفیع کے مطابق گلف فیکٹری سے 12 ملین درہم ملے ، جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ فیکٹری کے واجبات کا کیا بنا ، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ، فیکٹری سے 12 ملین درہم ملے جو ریکارڈ پر ہے ، وکیل نعیم بخاری نے جواب دیا کہ وزیراعظم نے کہا کہ جدہ فیکٹری دبئی کے سرمائے سے لگائی ، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ واجبات ادا ہوئے تو ہمیں اندھیرے میں کیوں رکھا جا رہا ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیر اعظم کے وکیل کے سامنے نئے سوالات اٹھا دیئے ، بتایا جائے نواز شریف پنجاب کے وزیرخزانہ کب بنے ؟ نواز شریف وزیراعظم کب بنے ؟ نواز شریف دوسری بار وزیراعظم کب بنے ؟ نواز شریف ملک بدر کب کیے گئے ؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیر اعظم کے وکیل سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کہ نواز شریف 1980 سے 1997 تک کاروبار اور سرکاری عہدہ رکھتے تھے ، دیکھنا ہوگا کہ وزیر اعظم نے عوامی عہدے کا غلط استعمال تو نہیں کیا ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رقم کی دبئی سے قطر جدہ منتقلی کی تفصیلات دوسرا فریق دے گا ، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ رقم کی منتقلی سے متعلق دبئی اور قطر کے قوانین کیا ہیں ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر دبئی اور قطر میں قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو پاکستان میں سزا ہو سکتی ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 12 ملین درہم دو دہائیوں تک کہاں رہے ، وزیر اعظم کے بقول دبئی سرمایہ کاری کی رقم بیرون ملک ہے ، بعد میں بتایا کہ 12 ملین درہم کی رقم قطر میں لگائی ، پناما کیس کی سماعت روانہ ساڑھے نو بجے سے دن ایک بجے تک ہوگی ۔ وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں غلط حقائق بیان کیے ، وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں جھوٹ بولا ، وزیر اعظم کے بیان میں قطر کا کہیں ذکر نہیں تھا ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم نے آپ کا پوائنٹ نوٹ کر لیا ہے ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالت سے ایسی تشریح نہ کروائیں جس سے کوئی الیکشن لڑ نہ سکے ۔ جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیئے کہ آئینی و قانونی حق پر قدغن نہیں لگاتے ، ہمارے سوال یا آبزرویشن کو فیصلہ بنا کر پیش نہ کریں ، مشکل سوال بھی پوچھتے ہیں کہ تاکہ وکیل گھبرا کر سچ بول دے ، ہم سوالات سے چیزیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ، ہمارے سوالات اور آبزرویشنز کو زیر غور نہ لایا جائے ۔ بعد میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ حکومت پی آئی ڈی کا پلیٹ فارم استعمال کرتی ہے ، ہمارا کام الزام لگانا ثبوت دینا نہیں ہے ، اپوزیشن عوام کے پیسے کی چوری پر آواز بلند کرتی ہے ، ججوں کی آبزرویشنز اور سوالات پر کوئی بات نہیں ہوگی ، عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی ۔