جوہری پروگرام : وزیراعظم کاامریکہ کودلیرانہ جواب
Dec 31, 2024رائے, ادارتی مضامین
وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس میںوزیراعظم شہباز شریف نے اس عزم کابرملا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے ہم پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں ، ان کا کوئی جواز نہیں۔حال ہی میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں تعاون کے الزام میں نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس سمیت چار پاکستانی اداروں پر اضافی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیوملر کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکہ نے اپنے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت پاکستان کے کچھ نجی اداروں پر اضافی پابندیاں عائد کی ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان م امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کے بیان کے مطابق پاکستان نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس نے، جو پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کا ذمہ دار ہے، پاکستان کے لانگ رینج بیلسٹک میزائل پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے کچھ مواد کے حصول کے لئے کام کیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایسا ہی الزام ایفیلی ایٹس انٹرنیشنل، اختر اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ اور اورک سائیڈ انٹرپرائزز پر بھی عائد کیا گیا۔
پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے امریکا کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں پرصائب ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام صرف ملک کے دفاع کے لیے ہے اور یہ 24کروڑ عوام کا پروگرام ہے، دنیا میں ہر ملک کو اپنے دفاع کو پورا پورا حق حاصل ہے،اس لئے پاکستان کے جوہری پروگرام پرحکومت کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کے خلاف کوئی جارحیت کی جاتی ہے تو ہم صرف اپنا دفاع کریں گے۔ نیشنل ڈیفنس کمپلیکس اور دیگر اداروں پر امریکی پابندیوں کا کوئی جواز نہیں،پاکستان ایسا قطعی کوئی ارادہ نہیں رکھتا کہ ہمارا جوہری نظام جارحانہ عزائم پر مبنی ہو،یہ سو فیصد خالصتاًدفاعی نظام ہے۔
امریکہ نے اس سال ماہ ستمبر میں بھی پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو مبینہ طور پر ساز و سامان کی ترسیل کرنے والے چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سمیت کئی چینی کمپنیوں پر پابندیاںلگائی تھیں۔ ان کمپنیوں پرالزام تھا کہ انہوں نے میزائل ٹیکنالوجی کی پابندیوں کے باوجود پاکستان کے شاہین میزائل 3 اور ابابیل سسٹمز کے راکٹ موٹرز کیلئے ساز و سامان فراہم کیا تھا۔اسی سال اپریل میں امریکہ نے چین کی تین اور بیلاروس کی ایک کمپنی پر پاکستان کے میزائل پروگرام کی تیاری اور تعاون کرنے کے الزام میں پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو مِلر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکہ ان چار کمپنیوں کو نامزد کر رہا ہے جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل میں ملوث رہی ہیں۔ امریکہ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خلاف کارروائی کرتا رہے گا۔
پاکستان پرعائد کی گئی حالیہ امریکی پابندیوں پر ترجمان دفترِ خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے شدید ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکہ کی مزید پابندیوں کو متعصبانہ اور دوہرے معیار کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ اس سے خطے میں فوجی عدم توازن بڑھے گا۔ انہوں نے باور کرایا کہ پاکستان کی سٹریٹجک صلاحیت خودمختاری کے دفاع اور جنوبی ایشیاء میں امن و استحکام کے لئے ہے اور پاکستان کے میزائل پروگرام پر ملک کے 24 کروڑ عوام کا مقدس اعتماد ہے۔ ماضی میں تجارتی اداروں کی اسی طرح کی فہرستیں بغیر کسی ثبوت کے محض شکوک و شبہات کی بنیاد پر تیار کی گئیں جبکہ پاکستان ایٹمی عدم پھیلائو کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے امریکہ پر یہ بھی واضح کیا کہ اس طرح دہرے معیارات اور امتیازی اقدامات ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کی کوششوں کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے اور عالمی امن کوبھی خطرے میں ڈالیں گے۔ پاکستان نے اس پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا کہ ماضی میں دوسرے ممالک کو جدید فوجی ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے لائسنس کی شرط بھی ختم کر دی گئی جبکہ اب پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر مزید پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔
پاکستان کے جس میزائل پروگرام پرامریکہ کی طرف سے بار بار پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں،یہ پروگرام تو کیا پاکستان کو تو ایٹمی پروگرام کی بھی ضرورت نہیں تھی،اگر پاکستان کا بدترین اورازلی دشمن بھارت اسلحہ کی دوڑ شروع نہ کرتا۔شروع ہی سے اس کے جارحانہ عزائم نہ ہوتے تو اسلحہ کی دوڑ کی ضرورت بھی پیش نہ آتی۔بھارت نے 1965میں پاکستان پر قبضہ کر نے کاخواب لیکر رات کے اندھیرے میں حملہ کردیا تھا۔ پاکستان کی مسلح افواج کے جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر وطن عزیر کا دفاع کیا۔اس کے بعد اس نے 1971ء میںہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرکے ایک طویل جنگ کے بعد پاکستان کو دو لخت کر دیا۔اسکے بعد اس نے پوکھران میں ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان پر اپنی دھاک جمانے کی کوشش کی۔اس پر پاکستان کو بھی مجبوراً اپناایٹمی پروگرام شروع کرنا پڑا۔80ء کی دہائی میں یہ پروگرام شروع ہوا، 1984ء میں صدرجنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں وطن عزیزپاکستان ہر طرح سے ایٹمی قوت سے لیس ہو چکا تھا،اگرچہ اسکا باقاعدہ اعلان بھارت کے مئی 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے جواب میں دھماکے کر کے کیا گیا۔ پاکستان ایک ایٹمی قوت نہ ہوتا تو اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کے تحت ہندو بنیا باقی پاکستان کو بھی اب تک ہڑپ کرچکا ہوتا۔یہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور اس کے دیگر میزائل و راکٹ سازی سمیت دفاعی کے منصوبے ہی ہیں جوخطے میں دفاعی توازن قائم رکھے ہوئے ہیں۔
امریکہ دنیا میں ایٹمی عدم پھیلائوکی بات کرتا ہے۔دنیا میں انسانیت کی ایٹم بم کے ذریعے سب سے پہلے تباہی امریکہ کی طرف سے کی گئی تھی۔اگر جاپان کے پاس اس وقت ایٹم بم ہوتا تو امریکہ کبھی ہیروشیما اور ناگاساکی کو انسانوں سمیت جلا کر راکھ نہ کرپاتا۔ایران ایٹمی قوت ہوتا تو اسرائیل اس کے اندر گھس کریلغار پر یلغار نہ کرتا۔لیبیا کی طرح یوکرائن نے بھی اپنا ایٹمی پروگرام کچھ طاقتوں کی اس کے دفاع کی یقین دہانی پر لپیٹ دیا تھااوریوکرین آج روس کے ہاتھوں تباہی سے دوچار ہے۔کرنل قذافی کو اقتدار کے ساتھ جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ گئے تھے۔
پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام جارحیت کے لیے نہیں بلکہ یہ کم از کم ڈیٹرنس پر برقرار ہے۔جدت کو محدود کیا جا سکتا ہے نہ ٹیکنالوجی کے آگے بند باندھا جا سکتا ہے۔کسی ملک کے پاس اسلحہ روایتی ہے یا غیر روایتی، اسے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپڈیٹ کرنا ہی پڑتا ہے۔وزارت خارجہ کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے امریکہ کو جرأت مندانہ،ٹھوس اورمسکت جواب دیا گیا ہے۔یہی پوری قوم کا دو ٹوک مئوقف ہے۔ ایٹمی عدم پھیلائو کے بارے میں امریکی پالیسیاں منافقت پر مبنی ہیں، وہ خود بھی ایٹمی عدم پھیلائوکے معاہدوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ بھارت اور اسرائیل کی سرپرستی بھی کرتا ہے جو جنگ کی آگ بھڑکا کر عالمی جنگ کی نوبت لانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ پاکستان اپنے دفاع و سلامتی پر کوئی مفاہمت نہیں کرسکتا۔ اس کے میزائل پروگرام میں توسیع پر امریکی پابندیاں بلاجواز اور دوہرے معیار کا شاہکار ہیں۔ جو پاکستان کے لئے قابل قبول ہیں اور نہ ہی قابل برداشت ہیں۔اس حوالے سے وزیر اعظم نے قومی موقف کی بھر پورترجمانی کا حق ادا کردیا ہے۔
خبرنامہ
جوہری پروگرام : وزیراعظم کاامریکہ کودلیرانہ جواب
