خبرنامہ

حکومت اور فوج اپنے فرض سے غافل نہیں

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اس بات کا برملا اظہار کہ افغانستان ہمارا ہمسایہ اور برادر ملک ہے جس کے ساتھ ہماری ہزاروں کلومیٹر لمبی سرحد ہے۔ اسکے ساتھ تعلقات بہتر بنانا، معاشی تعاون، تجارت کا فروغ اور تعاون کو وسعت دینا ہماری خواہش ہے لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ خوارج آج بھی وہاں سے آپریٹ کررہے ہیں اور پاکستان میں ہمارے بے گناہ لوگوں کو شہید کررہے ہیں، یہ پالیسی نہیں چل سکتی۔کیونکہ حکومت پاکستان اور فوج اپنے فرض سے غافل نہیں۔ افغان حکومت کو ایک سے زائد مرتبہ اچھے تعلقات قائم کرنے کا پیغام دیا ہے لیکن خوارج کا ناطقہ مکمل طور پر بند کرنا ہو گا، انھیں کسی صورت پاکستان کے بے گناہ عوام کو شہید کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ ہمارے لیے ریڈ لائن ہے۔ اگر ٹی ٹی پی بدستور افغان سرزمین سے آپریٹ کرے گی تو یہ ہمارے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں، پاکستان کی سالمیت کے تقاضوں کا ہم پوری طرح دفاع کریں گے۔
افغان طالبان کو شاید یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ دنیا بہت بدل چکی ہے اور بین الاقوامی برادری کا حصہ بننے کے لیے انھیں دہشت گرد عناصر کی پشت پناہی چھوڑنا پڑے گی۔ پاکستان وہ ملک ہے جس نے پچھلی تقریباً نصف صدی کے دوران افغانستان پر اتنے احسانات کیے ہیں کہ افغان طالبان چاہ کر بھی ان کا بدلہ نہیں دے سکتے۔ ایک طرف وہ اسلام اور قرآن کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب قرآن کے اس پیغام کو پس پشت ڈال رہے ہیں کہ بھلائی کا بدلہ بھلائی سے دیا جانا چاہیے۔ انھیں اگر کوئی تحفظات ہیں تو وہ پاکستانی حکومت اور سکیورٹی فورسز سے ان کے بارے میں کھل کر بات کریں لیکن دہشت گرد عناصر کی حمایت اور معاونت سے باز آئیں ورنہ بین الاقوامی برادری کی نظر میں وہ بھی دہشت گرد ہی شمار ہوں گے۔
افغانستان میں قائم طالبان کی عبوری حکومت معاملات کو سدھارنے کی بجائے بگاڑنے کی طرف مائل دکھائی دیتی ہے۔ اسکی جانب سے جس طرح دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں کو کھل کھیلنے کی اجازت دی جارہی ہے اسکی وجہ سے صرف افغانستان کے ہمسایوں کے لیے ہی مسائل پیدا نہیں ہونگے بلکہ افغانستان بھی مسلسل غیر مستحکم رہے گا۔ پاکستان نے بارہا افغان عبوری حکومت سے فتنہ الخوارج کو پاکستان کے خلاف اپنی سر زمین استعمال کرنے سے روکنے کا کہا لیکن اس فتنے اور اسکے دہشت گردوں پر قابو پانے کی بجائے افغان طالبان مسلسل انکی حمایت اور معاونت کر رہے ہیں۔ یہ دہشت گرد افغانستان میں پوری آزادی کے ساتھ موجود ہیں اور پاکستان مخالف دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے افغان سر زمین کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں جو پاکستان کے لیے کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر قیادت سال 2024ء میں پاکستان کے لیے پاک فوج کی خدمات کے تناظر میں خوارج، دہشت گردوں کے لیے واضح پالیسی کی بدولت رواں سال آپریشنز میں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ سال 2024ء کے دوران 59775 کامیاب انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جن میں 925 دہشت گرد بشمول خوارج کو ہلاک کیا گیا اور سیکڑوں گرفتار کیے گئے۔ افواجِ پاکستان، انٹیلی جنس، پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے روزانہ کی بنیاد پر آپریشنز کیے۔ سال 2024ء میں ان آپریشنز کے دوران 73 انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، ہلاک دہشت گردوں میں فدا الرحمن عرف لعل، علی رحمن عرف طحٰہ سواتی اور ابو یحییٰ شامل ہیں۔ 14 مطلوب دہشت گردوں نے ہتھیار ڈال کر خود کو قومی دھارے میں شامل کیا، دو خودکش بمباروں کو گرفتار کر کے ملک کو بڑی تباہی سے بچایا گیا۔ آرمی چیف دہشت گردوں، خوارج، ان کے سہولت کاروں کے بارے میں دو ٹوک موقف رکھتے ہیں اور غیر ملکی جریدے نے بھی آرمی چیف کو دہشت گردوں کے خلاف توانا آواز بننے پر خراجِ تحسین پیش کیا۔ جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو افغانستان کی سرزمین سے آزادانہ دہشت گرد کارروائیوں پر تحفظات ہیں، ایک پاکستانی کی جان اور حفاظت ہمارے لیے افغانستان پر مقدم ہے۔
گزشتہ پانچ سال کے دوران کسی ایک سال میں مارے جانے والے دہشت گردوں کی سب سے زیادہ تعداد 2024ء کی ہے۔ دہشت گردی کے اس ناسور سے نمٹنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر 169 سے زائد اپریشنز افواج پاکستان، انٹیلی جنس، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے انٹیلی جنس ایجنسیز اور سکیورٹی فورسز کے بروقت اقدامات کی وجہ سے دہشت گردی کے کئی منصوبوں کو ناکام بنایا گیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دشمن کے نیٹ ورکس پکڑنے اور دہشت گردوں کو کیفر کردار کو پہنچانے میں بھی اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ ان کارروائیوں میں دہشت گردوں سے بھاری تعداد میں بیرونی ساختہ اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا۔ ان اپریشنز میں 73 انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی بھی ہلاکتیں ہوئیں اور 27 افغان دہشت گردوں کو بھی سکیورٹی فورسز نے جہنم واصل کیا۔
اس امر میں کوئی دو رائے نہیں ملک کی سلامتی و خود مختاری کو سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کے ناسور کا ہی درپیش ہے جس نے گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ملک کی معیشت کو عدم استحکام سے دوچار کیا ہوا ہے جبکہ اس عرصہ میں ہماری سکیورٹی فورسز کے دس ہزار جوانوں اور افسران سمیت ملک کے 80 ہزار کے قریب شہری گھناؤنی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اس دہشت گردی میں بڑا ہاتھ ہمارے دشمن بھارت کا ہے جسے پاکستان کی آزادی اور سلامتی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ چنانچہ وہ دہشت گرد تنظیموں اور ملک کے بدخواہ دیگر عناصر کی سرپرستی اور فنڈنگ کر کے افغانستان کے راستے سے انھیں پاکستان میں داخل کرکے انکے ذریعے اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کی سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔ اس کے لیے یقیناً بھارت کو ہماری اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے جو ہماری سیاسی قیادتوں کی پیدا کردہ ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں عبوری طالبان حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پاکستان واپس آنے کی اجازت دی گئی جس کے بعد ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر اٹھی جو اب رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ سیاست اپنی جگہ مگر ملک کی سلامتی اور خودمختاری کا تحفظ ہم سب کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ اس سلسلہ میں ہماری سکیورٹی فورسز تو دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ہمہ وقت آپریشنز میں مصروف ہیں اور ملک میں امن وامان کے قیام کے لیے اپنی جانیں بھی نچھاور کر رہی ہیں۔ان شاء اللہ پاکستان کے دشمن اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ حکومت اور فوج اپنے فرض سے غافل نہیں۔