خبرنامہ

زلفی بخاری کو اتنی آسانی سے بیرون ملک روانہ ہونے کی اجازت کسطرح دی گئی؟ آئی ایچ سی

اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ(ای سی ایل) میں نام ہونے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے ساتھی زلفی بخاری کی بیرون ملک روانگی پر برہمی کا اظہار کیا۔

واضح رہے کہ برطانوی نژاد پاکستانی سید زلفی بخاری کے وکیل سکندر بشیر محمد کی جانب سے ای سی ایل سے ان کا نام خارج کرنے کی درخواست میں بتایا گیا تھا کہ انہیں 11 جون کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے ) کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ ان کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہے۔

خیال رہے کہ زلفی بخاری کو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے ہمراہ عمرے کی ادائیگی کے لیے نجی جہاز سے سعودی عرب روانہ ہونے سے روک دیا گیا تھا تاہم جب عمران خان نے متعلقہ حکام سے خود بات کی تو انہیں ساتھ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔

نیب ذرائع کے مطابق ذوالفقار حسین بخاری پر آف شور کمپنی رکھنے اور آمدنی سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے، اس ضمن میں سپریم کورٹ کی جانب سے آف شور کمپنیوں کے حامل تمام افراد کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی تھی، جس پر نیب نے انہیں بھی پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا تھا۔

لیکنن زلفی بخاری نیب کے دیے گئے نوٹسز پر پیش نہیں ہوئے اور تیسرا نوٹس ملنے پر موقف اپنایا کہ چونکہ وہ غیر ملکی شہری ہیں اسلیے نیب ان سے تحقیقات کا حق نہیں رکھتا۔

اس سلسلے میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں زلفی بخاری کی جانب سے ای سی ایل سے نام نکالے جانے کی درخواست کی سماعت ہوئی جس میں نیب کے ایڈشنل ڈپٹی پروسیکیوٹر جنرل( اے ڈی پی جی) سردار مظفر عباسی کی اپیل پر عدالت نے زلفی بخاری کو نیک نیتی سے نیب تحقیقات میں تعاون کرنے کا حکم دیا۔

ادھر نیب کے اے ڈی پی جی نے عدالت کو آگاہ کی کہ بیورو کی جانب سے زلفی بخاری کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کی درخواست بھیجی گئی تھی، تاہم متعلقہ کمیٹٰی غیرفعال ہے جس کے باعث ان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کردیا گیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نیب کی جانب سے متعدد نوٹسز دیے جانے کے باوجود زلفی بخاری پیش نہیں ہوئے جس کے باعث ان کا نام ای سی ایل میں درج کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے جسٹس فاروق نے ریمارکس دیے کہ بلیک لسٹ میں ان لوگوں کا نام شامل کیا جاتا ہے جو ریاست کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہوں اور حیرت کا اظہار کیا کہ نیب کو مطلع کیے بغیر زلفی بخاری کو جلد بازی میں ملک سے باہر جانے کی اجازت کس طرح دی گئی۔

عدالت نے وزارت داخلہ کے سیکشن آفیسر سے دریافت کیا کہ جب زلفی بخاری کا نام ای سی ایل میں درج تھا تو انہیں عمرے کے لیے روانہ ہونے کی اجازت کیوں اور کیسے دی گئی۔

جسٹس فاروق نے ریمارکس دیتے ہوئے مزید کہا کہ عام طور پراعلیٰ عدالت کے احکامات کے باوجود وزارت داخلہ ای سی ایل سے نام خارج کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہے، لیکن اس معاملے میں اتنی پُھرتی دکھائی گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میری خواہش ہے کہ اتنی ہی پھرتی عام لوگوں کے معاملے میں بھی دکھائی جائے، بعد ازاں عدالت نے نیب اور وزارت داخلہ کو مذکورہ معاملے پر تحریری جواب داخل کرانے کی ہدایت کردی۔

دوسری جانب عدالت میں ایک اور پٹیشن کی بھی سماعت کی گئی جس میں زلفی بخاری کو نور خان ایئر بیس سے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے پر وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے حکام کے خلاف کارروائی کی درخواست کی گئی تھی۔

اس سلسے میں عدالت نے وزارت دفاع کو اس معاملے کی وضاحت پیش کرنے کے لیے عہدیدار بھیجنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت اگلے بدھ تک موخر کردی۔