خبرنامہ

سانحہ اے پی ایس کی دلدوز یادیں

دل ہے کہ چین کی دولت سے محروم ہے، آنکھیں ہیں کہ برسات کا منظر پیش کر رہی ہیں اور جان عدم اطمینان کے باعث ہلکان ہو رہی ہے۔سانحہ اے پی ایس پشاور کو 10 سال مکمل ہوگئے لیکن، زخم آج بھی تازہ ہیں اور ان سے لہو رس رہا ہے۔ جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا، وہاں کے مکینوں کی آنکھیں آج بھی اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتی ہیں۔
سکون دل گیا نظروں سے سب نظارے گئے
چمن میں کھلتے ہوئے جب سے پھول مارے گئے
ہوائے موت ذرا دیر کیا ادھر آئی
کہ میرے ہاتھ سے اڑ کر مرے غبارے گئے
یہ کیسی کربلا برپا ہوئی پشاور میں
لہو میں ڈوبے ہوئے میرے بچے مارے گئے
انہیں ہی مرتبہ ملتا ہے جا کے جنت میں
حصول علم کی خاطر جو جان وارے گئے
چمن اجاڑنے والو تمہیں خدا سمجھے
تمہیں نہ آئی حیا پھول تو ہمارے گئے
رہے گا یاد ہمیں آنے والی نسلوں تک
وہ نقش پا جو یہاں خون سے ابھارے گئے
سلام میرا عظیم ان شہید بچوں کو
جو اپنی جیت کی خاطر یہ جان ہارے گئے۔
بعض لوگوں کے اپنے بچے اس سکول میں نہیں پڑھ رہے تھے لیکن اس واقعے کا ان پر اتنا اثر ہوا کہ وہ بھاگ کر سکول گئے اور اپنی بچیوں کے نام لے کر پکارتے رہے۔ وزیراعظم شہبازشریف اس سانحے پر بے حد رنجیدہ ہیں،وہ کہتے ہیں کہ وقت اس سانحے اور ان معصوم بچوں کی جدائی کا صدمہ مٹا نہیں سکتا۔ اے پی ایس سانحے نے قوم کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور ہمیں دہشت گردی کے ناسور کے خلاف متحد کردیا۔ ملک دشمن عناصر کی ایما پر دہشت گرد معصوم پاکستانیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز ملک دشمن عناصر سے ہمت اور جواں مردی سے نبرد آزما ہیں۔اور دہشت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملاکر دم لیں گی۔
دس سال قبل 16 دسمبر سال 2014ء کو امن اور تعلیم کے دشمنوں نے آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کیا،سفاک دہشت گردوں نے علم کی پیاس بجھانے والے معصوم بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا، دہشت گرد سکول کے عقبی راستے سے صبح 10 بجے کے قریب عمارت میں داخل ہوئے، اس وقت آٹھویں،نویں اور دسویں جماعت کے طالب علم آڈیٹوریم میں تربیت میں مشغول تھے۔دہشت گردوں نے ہال میں داخل ہوتے ہی ہر طرف اندھا دھند فائرنگ شروع کردی اور اے پی ایس کی دیواروں کو خون سے رنگ دیا، دہشت گردوں کی فائرنگ سے پرنسپل،اساتذہ،طلبہ اور دیگر عملے سمیت 140 سے زائد افراد شہید ہوئے۔معصوم طلباء اور بے گناہ اساتذہ خون میں نہلا دیئیگئے اور پھولوں کی خوشبو سے مہکتے سکول سے چند ہی لمحوں میں بارود کی بو سے آرہی تھی۔ آرمی پبلک سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی کی فرض شناسی برسوں یاد رکھی جائے گی، بہادر خاتون نے اپنی جان قربان کردی لیکن دہشت گردوں اور بچوں کے بیچ دیوار بن کر کھڑی رہیں۔
میرے بچوں کی شہادت یہ گواہی دے گی
ہم نے شہ رگ کا لہو دے کے نکھارے ہیں نجوم
میرے بچوں کی شہادت نے یہ پیغام دیا
تازہ تر ہم سے ہوئیں آج شجاعت کی رسوم
سکیورٹی فورسز نے فوری طور پر پہنچ کر اے پی ایس کا گھیراؤ کیا اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 6 خودکش حملہ آوروں کو طویل آپریشن کے بعد مار ڈالا۔سانحہ اے پی ایس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نئی روح پھونکی، نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا اور قبائلی علاقوں سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوا۔ اے پی ایس حملے میں ملوث 6 دہشت گردوں کو سکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا جنہیں ملٹری کورٹس نے موت کی سزائیں بھی سنائی تھیں۔دہشت گرد مسلسل افغانستان کی سر زمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے معصوم شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں، آج بھی پاکستان کی افواج اور عوام افغانستان کے دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے۔
سانحہ آرمی پبلک سکول کو تو دس سال بیت گئے لیکن اس افسوسناک سانحہ کی یادیں آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔ 10 سال گزرنے کے بعد بھی وہ دل دہلا دینے والے مناظر اور بچوں کی چیخیں عینی شاہدین کے ذہنوں میں زندہ ہیں۔شہیدہونے والے طلبہ کے دوست 10 سال بعد آج بھی اپنے دوست کی فیملی کو اپنی فیملی سمجھتے ہیں۔ شہید بچوں کے والدین آج بھی ایک جگہ بیٹھ کر اپنے بچوں کو یاد اور ایک دوسرے کو تسلی دے کر اپنا غم بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔شہداء کے لواحقین جب بھی اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہیں تو غم سے نڈھال ہوجاتے ہیں تاہم جب قربانی دینے والے شہداء کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے تو لواحقین کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں۔
حوصلہ لاؤں کہاں سے کہ وہ مائیں دیکھوں
درد اتنا ہے کہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتا ہوں
آنچ اتنی ہے کہ یخ بستہ نفس بھی پگھلا
لفظ ایسے ہیں کہ میں سہہ بھی نہیں سکتا ہوں
سانحہ آرمی پبلک اسکول کے نتیجے میں جہاں ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوا وہیں علم دشمن عناصر کے ناپاک ارادے بھی خاک میں مل گئے۔ ملک بھر کے عوام سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور میں شہید ہونے والے بچوں اور اساتذہ کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کررہے ہیں کہ آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم بچوں اور اساتذہ کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا، 16 دسمبر 2014ء کا دن ملک کی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائیگا۔ 16 دسمبر کے دلخراش واقعے نے پورے ملک کو جس غم اور دکھ میں مبتلا کیا تھا وہ ناقابل بیان ہے۔ آرمی پبلک سکول کے ان معصوم ہیروز کی قربانیوں سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ہمیں آپس کے باہمی اختلافات کو بھلا کر دہشت گردی سے پاک، ترقی یافتہ اور خوشحال ملک کیلئے مل جل کر کوششیں کرنی چاہئیں۔ 10 سال کے بعد بھی سانحہ اے پی ایس کا غم روز اول کی طرح پوری قوم کے دلوں میں موجود ہے۔پوری قوم کو ان خاندانوں پر فخر ہے جنہوں نے اس عظیم صدمے کو برداشت کیا۔ پوری قوم ان غمزدہ خاندانوں کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ ملک کی تاریخ میں اے پی ایس کے معصوم ہیروز کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
سانحہ اے پی ایس نے پوری قوم کو دہشت گردی کے خلاف متحد کیا اور مسلح افواج نے پوری قوم کی مدد سے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کا اعادہ کیا جس کے نتیجے میں کافی حد تک دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوا۔ آج ایک بار پھر دہشت گرد ہماری سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کو ناکام بنانے کیلئے مسلح افواج بھرپور عزم کے ساتھ دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کیلئے نبردآزما ہے۔ قوم کو ایک بار پھر دسمبر 2014 والے جذبے کو دہراتے ہوئے سکیورٹی اداروں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔
ہماری مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لازوال قربانیاں دی ہیں جنہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے تعلیم کو اپنی میراث بنانے کی ضرورت ہے۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کے بچوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ہم نے دس برس قبل یہ وزنی ترین کفن اٹھائے تھے اور دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں ہے جس نے اتنی بڑی قربانی دی اور ہم یہ سانحہ کبھی بھی نہیں بھول سکتے۔ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ سانحہ اے پی ایس میں شہید ہونے والے بچوں کا درد اور دکھ پوری قوم آج بھی محسوس کر رہی ہے اور شہداء کے لواحقین سے دلی ہمدردی کا اظہارکر رہی ہے۔