اسلام آباد: انصار عباسی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیب اور احتساب عدالتوں میں صرف شریف خاندان کے کیسز چلانے کیلئے سپریم کورٹ غیر معمولی دلچسپی دکھا رہی ہے، جس سے شفاف تحقیقات اور شفاف ٹرائل پر سوالات اٹھتے ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس اعجاز الاحسن کو 28؍ جولائی کے فیصلے پر عمل کرانے کیلئے نگران جج مقرر کیے جانے کے فیصلے نے کئی لوگوں بشمول وکلاء برادری کو بھی حیران کر دیا ہے۔کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے تمام کیسز میں نیب کی آزادی اور غیر جانبداریت کو یقینی بنانے کی بجائے سپریم کورٹ کا نگران جج صرف شریف خاندان کے کیسز کے حوالے سے نیب اور احتساب عدالتوں کی نگرانی کرے گا۔
یہ کیسز سپریم کورٹ نے خود نیب کو بھجوائے ہیں تاکہ احتساب عدالتوں میں ٹرائل کیلئے ریفرنس دائر کیا جا سکے۔ پہلے ہی سپریم کورٹ کے 28؍ جولائی کے شریف خاندان کے نیب میں کیسز کی نگرانی کے فیصلے پر کئی لوگ پریشان نظر آ رہے تھے۔ لیکن اب سپریم کورٹ نے جسٹس اعجاز الاحسن کو نگراں جج مقرر کر دیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اسی پانچ رکنی بینچ کا حصہ تھے جس نے سابق وزیراعظم کو نا اہل قرار دیا تھا اور نیب کو شریف خاندان کیخلاف مختلف ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہی وہ صورتحال ہے جو شفاف تحقیقات اور شفاف ٹرائل کے معاملے پر آ کر مرتکز ہو جاتی ہے۔ کیا سپریم کورٹ براہِ راست کسی بھی کیس میں ایسے کیس کی نگرانی کر سکتی ہے جس کا فیصلہ وہ پہلے ہی دے چکی ہو؟ اسی طرح سپریم کورٹ کے نگران کے تحت ایک ٹرائل کورٹ شفاف اور آزادانہ انداز سے کام کر سکتی ہے؟ اِس کیس میں، نیب اور احتساب عدالتوں کی نگرانی کرنے والا جج وہ ہے جس نے پہلے ہی شریف خاندان کیخلاف ریفرنس دائر کرکے ٹرائل کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر رشید اے رضوی کا کہنا ہے کہ یہ کیس اُس اصول کی نفی کا معاملہ ہے جس کے تحت ’’نہ صرف انصاف ہونا چاہئے بلکہ انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہئے‘‘۔
بدھ کو جیو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے رشید رضوی کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کا جج احتساب عدالت کی کارروائی کی نگرانی کرے گا تو اس عدالت کی جانب سے سامنے آنے والے کسی بھی فیصلے کو سپریم کورٹ کے دبائو میں دیا گیا فیصلہ سمجھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں میں قرار دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کسی بھی طرح کی نگرانی حتیٰ کہ پولیس تحقیقات کی نگرانی بھی نہیں کر سکتی۔
رشید رضوی نے حیرت کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ کس طرح احتساب عدالت کی نگرانی کی حد تک جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ نے بھی اسی طرح کی رائے کا اظہار کیا اور کہا کہ انہی وجوہات کی بنا پر وہ جے آئی ٹی کی مستقل مانیٹرنگ اور سپریم کورٹ کی جانب سے اس کی تعریفوں کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے جے آئی ٹی کی مستقل تعریفوں کے بعد، احتساب عدالت کا جج، چاہے وہ کتنا ہی آزاد کیوں نہ ہو، کس طرح شفاف اور آزادانہ انداز سے انصاف کر سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام تو ہائی کورٹ کے کسی جج کیلئے بھی مشکل ہوگا کہ وہ سپریم کورٹ کی مانیٹرنگ سے اثر انداز ہوئے بغیر کام کرے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ جاری کرکے قانون کو نظر انداز کیا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک اور صدر بیریسٹر علی ظفر نے جیو نیوز کو بتایا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 10؍ اے کی خلاف ورزی ہے، آرٹیکل میں شفاف ٹرائل کی ضمانت دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شفاف ٹرائل کا صرف یہ مطلب ہے کہ ٹرائل کورٹ کا جج کسی بھی دبائو میں نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ جب ملک کی سپریم کورٹ ٹرائل کی مانیٹرنگ کرے گی تو ٹرائل کورٹ کا جج یقیناً دبائو میں ہوگا۔ سپریم کورٹ نے اپنے 28؍ جولائی کے فیصلے میں لندن کی ایوین فیلڈ کی جائیدادوں اور دیگر معاملات پر نیب کو میاں نواز شریف، مریم نواز شریف، حسین نواز شریف، حسن نواز شریف اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد، نیب نے پیر کو مذکورہ افراد اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کیخلاف چار ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ پاناما کیس کی سماعت کے دوران، سپریم کورٹ نے متعدد مرتبہ نیب، ایف آئی اے، ایف بی وغیرہ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ اس بات کے اشارے تھے کہ سپریم کورٹ حکومت کو ہدایت دے گی کہ ان اداروں کی از سر نو ڈھانچہ سازی اور اصلاحات کیلئے اقدامات کیے جائیں تاکہ انہیں آزاد، خود مختار اور سیاست سے پاک بنایا جا سکے۔ لیکن، سپریم کورٹ نے یہ کام اپنے 20؍ اپریل کے فیصلے میں کیا اور نہ ہی 28؍ جولائی کے فیصلے میں ایسی کوئی ہدایت دی۔