سیاسی قیادت کو نیا میثاق جمہوریت لانا ہوگا، فاروق ستار
کراچی(ملت آن لائن)متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ ملک کے سیاسی حالات اتار چڑھائو کا شکار ہیں۔ جمہوری نظام کی بقا اور مضبوطی کیلیے تمام سیاسی قیادت کو باہمی مشاورت سے ایک نیا میثاق جمہوریت لانا ہوگا۔ قومی معاملات پر اتفاق رائے کیلیے سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ڈائیلاگ ہونے چاہیں۔
لینڈ ریفارمز بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور قومی مالیاتی کمیشن کی منصفانہ تقسیم کیلیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ایم کیوایم پاکستان کا اب لندن سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی لندن سے اب ایم کیو ایم کو چلایا جاسکتا ہے۔ 23 اگست 2016ء کے اقدام کے باوجود ہمیں مکمل سیاسی آزادی نہیں دی گئی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے ارکان پارلیمنٹ، اراکین اسمبلی اور بلدیاتی نمائندے مستعفیٰ نہیں ہوں گے۔ہم ایوانوں میں رہ کر عوام کے حقوق کیلیے آواز بلند کرتے رہیں گے۔ متحدہ پاکستان پی ایس پی یا مہاجرقومی موومنٹ ضم نہیں ہورہے اورنہ ہی ان میں کوئی اتحاد ہورہا ہے تاہم مسائل کے حل کیلیے بات چیت کے سلسلے کو جاری رکھا جائے گا۔ملک سے غداری کے الزامات اور اس پر کارروائی کیلیے نظام کو واضح ہونا چاہیے۔
اگر کسی کو الزام لگایا جاتا ہے تو ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کو عدالت میں لے کر جائے، ثبوت پیش کرے اوراس کیخلاف کارروائی کرے۔ عام انتخابات کا انعقاد وقت پر ہونا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہا رانھوں نے اتوار کو ایم کیو ایم (پاکستان) کے عارضی مرکز بہادرآباد میں پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پارٹی کے سینئر رہنما عامر خان، سید امین الحق اور دیگر بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ 23 اگست 2016ء کی پالیسی پر ہر حال میں قائم رہیں گے۔
ہم مہاجر کاز نہیں بلکہ قومی سطح کی سیاست کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے عدالت میں بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات کے حصول کیلیے ایک آئینی پٹیشن دائر کی ہے جو منظور ہوچکی ہے۔ اگر عدالت نے فیصلہ دیا اور بلدیاتی مقامی حکومتوں کو اختیارات مل گئے تو اس کا فائدہ میئر کراچی کو نہیں بلکہ تمام بلدیاتی حکومتوں اور ان کے نمائندوں کو ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ دوسری پٹیشن ہم روزگار اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف عدالت میں دائرکریں گے۔ انھوں نے کہا کہ اگر وسائل کی تقسیم کیلیے آئین کے آرٹیکل 160 کی نئی شق 5 شامل کردی جائے تو پھر وسائل کی منصفانہ تقسیم کا نظام نافذ ہوجائے گا جس سے نئے انتظامی یونٹس اور صوبوں کی تحریکیں خود بخود دم توڑ جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم میں صوبائی خود مختاری کا مسئلہ حل ہوا ہے لیکن اب ہمیں ضلعوں کی خود مختاری کیلیے بھی قانون سازی کرنی ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت آئین کے آرٹیکل 140 پر عمل درآمد اور آرٹیکل 160 میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ آرٹیکل 140A کے ساتھ اس میں B کا اضافہ کیا جائے تاکہ کسی کو بھی یہ حق حاصل ہوسکے کہ بلدیاتی حکومتوں کو اختیارات نہ ملنے پر وہ صوبائی حکومتوں کے خلاف عدالتوں میں جائے اور صوبائی حکومت کے خلاف عدالت کارروائی کرسکے۔ انھوں نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان نتائج میں شہری علاقوں کو دیوار سے لگایا نہیں بلکہ چن دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے پٹیشن دائر کرچکے ہیں یقین ہے کہ عدالت اس معاملے پر جلد کیس کی سماعت کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ بلدیاتی نمائندوں کے پاس کچرا اٹھانے کا اختیار بھی نہیں ،کراچی میں 9 سال کے دوران 12 لاکھ ٹن کچرا جمع ہوچکا ہے۔
کچرا اٹھانا سب سے بڑا چیلنج ہے جس کے لیے ہم بلدیاتی ایمرجنسی نافذ کرنے جارہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت ہماری 4 ترجیحات ہیں جن میں کچرا اٹھانا، فراہمی ونکاسی آب کی بحالی، سڑکوں کی استرکاری اور عوامی مسائل کا حل شامل ہے۔۔ انھوں نے کہا کہ جب تک احتساب کا نظام مضبوط نہیں ہوگا ملک سے کرپشن ختم نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ادارے کو بااختیار بنانا ہوگا۔ نظام ایسا ہونا چاہیے کہ جو بھی کرپشن کرے اس کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ہونی چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہم بلدیاتی نمائندوں کی کارکردگی کا جائزہ لے رہے ہیں۔ فی الحال کسی کو تبدیل نہیں جارہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو ارکان اسمبلی ہمیں چھوڑ کر دیگر جماعتوں میں چلے گئے ہیں ان کو اپنے ضمیر اور اخلاقی طور پر مستعفیٰ ہو جانا چاہیے تاہم ہم ان کے خلاف ریفرنس دائر نہیں کر رہے ہیں، کل ممکن ہے کہ وہ ہمارے پاس واپس آجائیں۔