احتساب عدالت کے رجسٹرارآفس نے ابتدائی اسکروٹنی کے بعد نیب کی جانب شریف خاندان اور اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنسزکونامکمل قرار دے دیا۔
احتساب عدالت نے نیب کو ریفرنسز کے ساتھ متعلقہ دستاویزات جمع کرانے کا حکم دے دیا۔
رجسٹرار آفس نے احتساب عدالت کو ریفرنس کے ساتھ متعلقہ دستاویزات نہ ہونے کے متعلق آگاہ کردیا۔
شریف خاندان اور اسحاق دار کے خلاف ریفرنسز اسلام آباد کی احتساب عدالت میں دائر کیے گئے تھے، نیب کی پراسکیوشن ٹیم نے رجسٹرار آفس میں ریفرنسز جمع کرائے تھے۔
نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے گزشتہ روز 4 ریفرنسز کی منظوری دی تھی جن میں سے 3 ریفرنسز شریف خاندان اور ایک وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ہے۔
آج نیب کی جانب سے چاروں ریفرنس دائر کیے گئے تھے،نیب کی پراسیکیوشن ٹیم نے شریف خاندان کے خلاف تینوں ریفرنس دائر کیے ۔شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ کے 2 ریفرنسز دائر کیے گئے جب کہ ایک ریفرنس عزیزیہ اسٹیل مل کے معاملے پر دائر کیا گیا ۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ناجائز اثاثہ جات ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کیا گیا ۔
نیب کی پراسیکیوشن ٹیم نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کیے ۔ ذرائع کے مطابق ریفرنسز کے ساتھ جے آئی ٹی کے 9 جلدیں لگائی گئی ہیں جو ہر ریفرنس کے ساتھ منسلک کی گئیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف تینوں ریفرنسز میں نیب کی سیکشن نو اے لگائی گئی ہے جو غیر قانونی رقوم اور تحائف کی ترسیل سے متعلق ہے جب کہ نیب لاہور اور راولپنڈی نے دفعہ نو اے کی تمام14ذیلی دفعات کو شامل کیا گیا ہے اور ہردفعہ کی سزا 14 سال قید مقرر ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف سیکشن 14 سی لگائی گئی ہے جو آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق ہے۔
ذرائع کے مطابق نیب کی دفعات میں سزا کے ساتھ بعد عوامی عہدیداروں کے لیے عمر بھر کی نااہلی بھی ہوتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب کی جانب سے مریم نواز پر جعلی دستاویزات دینے پر الگ سے شیڈول دو کا حوالہ دیا گیا ۔ اس کے علاوہ ان کے خلاف تحقیقات میں نقصان پہنچانے سے متعلق سیکشن 31 اے کا حوالہ بھی شامل ہے اور اس الزام کے جرم میں تین سال قید کی سزا بنتی ہے۔
ذرائع کے مطابق ریفرنسز کی نقول ضروری تبدیلیوں کے بعد دستخط کے لیے چیئرمین نیب کے گھر بھجوائی گئی تھیں، ریفرنسز میں تبدیلیاں نیب ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں مشاورت سے کی گئیں۔
ذرائع نے بتایا کہ نیب لاہور کی جانب سے پیش کیے گئے دونوں ریفرنسز کسی تبدیلی کے بغیر منظور کیے گئے تھے جب کہ نیب راولپنڈی کے ریفرنسز میں کچھ قانونی خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔
ڈی جی نیب راولپنڈی کو ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں کچھ سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
شریف خاندان اور اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنسز پاناما کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں تیار کیے گئے ہیں۔