سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے خلاف قومی احتساب بیورو(نیب) کی جانب سے دائر العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز کی مدت میں چوتھی مرتبہ توسیع کرتے ہوئے احتساب عدالت کو مزید 6 ہفتوں کا وقت دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بینچ نے نیب ریفرنس کی مدت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران نیب کے وکیل، نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث بھی پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس اعجاز الاحسن نے نیب کے وکیل سے استفار کیا کہ آپ کو مزید کتنا وقت درکار ہے، اس پر وکیل نیب نے بتایا کہ مجموعی طور پر 4 ریفرنس تھے، فلیگ شپ انویسٹمنٹ میں 18 گواہان تھے، 14 پر جرح مکمل ہوچکی ہے، گواہان پر جرح رہتی ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غالباً ایک ریفرنس پر کارروائی مکمل ہوچکی ہے، جس پر وکیل نیب نے بتایا کہ ایون فیلڈ والا ریفرنس مکمل ہوچکا ہے جبکہ باقی ریفرنس پر 12 جولائی کو سماعت رکھی گئی ہے۔
نیب کے وکیل نے بتایا کہ ریفرنس نمبر 21 اسحٰق ڈار سے متعلق ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسحٰق ڈار تو مفرور ہیں، کیا غیر موجودگی میں سزا ہو سکتی ہے؟ مزید وقت کتنا درکار ہے؟
چیف جسٹس کے استفسار پر وکیل نیب نے بتایا کہ 11 جون سے اب تک شریف خاندان کے خلاف دو ریفرنس پر کارروائی نہیں ہوئی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ان تمام کیسز کا فیصلہ جلدی ہو، اسحٰق ڈار کو ہم نے بھی طلب کیا ہوا ہے مگر وہ مفرور ہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہمیں یقین ہے کہ خواجہ حارث دیے گئے وقت میں کارروائی مکمل کریں گے۔
چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا اب آپ کے میرے ساتھ تعلقات بہتر ہوجائیں گے؟ نیب نے 4 ہفتے مانگے آپ نے 6 ہفتے مانگے، ہم آپ کو 6 ہفتے دے رہے ہیں۔
اس پر خواجہ حارث نے اعتراض کیا کہ جج محمد بشیر نے ایک ریفرنس میں فیصلہ دیا ہے باقی کو سننا چاہیے لیکن ان ریفرنس کی سماعت جج محمد بشیر نہیں کریں۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اعتراض نہیں کر سکتے، ایک جج جس نے تمام ریفرنسز میں سماعت کی، گواہان کے بیان قلمبند کئے اب وہ کیسے تبدیل ہو۔
خواجہ حارث نے کہا کہ شروع سے تمام ریفرنس میں مماثلت تھی لیکن اکھٹا کرکے نہیں سنا گیا جبکہ ریفرنسز میں گواہ اور ثبوت ایک جیسے ہیں۔
دوران سماعت خواجہ حارث نے مزید کہا کہ ایک ریفرنس پر فیصلہ ہو چکا ہے تو اس جج کا دوسرے ریفرنس پر اثر کیا پڑے گا۔
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنس میں مماثلت نہیں ہے، ان میں گواہ اور ثبوت الگ الگ ہیں، ہم آپ کے جج پر اعتراضات پرمائل نہیں ہیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ حارث آپ بار بارغیرمنصفانہ اقدام کی بات کرتے ہیں، سپریم کورٹ ایسا سوچ بھی نہیں سکتی، آپ کو علم ہے کہ سپریم کورٹ ملک کی کتنی خدمت کررہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ رات 3 بجے تک سیرینا ھوٹل میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں، آپ کو غیر منصفانہ اقدام کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی، آپ ناراض نہ ہوں ہم 6 ہفتے کا وقت دیتے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے العزیزیہ ریفرنس مل، فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنس کی سماعت کی مدت میں توسیع کرتے ہوئے انہیں 6 ہفتے کی مہلت دے دی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو 10 سال، مریم نواز کو 7 سال جبکہ کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ (ایک ارب 10 کروڑ روپے سے زائد) اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ (30 کروڑ روپے سے زائد) جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
نیب ریفرنسز کا پس منظر
یاد رہے کہ گزشتہ برس 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما پیپرزکیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کی روشنی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قراردے دیا تھا جس کے ساتھ ہی وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے بھی نااہل قرار پائے تھے۔
مذکورہ فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا، جبکہ ان ریفرنسز پر 6 ماہ میں فیصلہ سنانے کا بھی حکم دیا تھا۔
تاہم سپریم کورٹ کی متعین کردہ مدت رواں برس مارچ میں ختم ہونی تھی تاہم سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کی درخواست پر شریف خاندان کے خلاف زیرِ سماعت نیب ریفرنسز کی ٹرائل کی مدت میں 2 ماہ تک کی توسیع کردی تھی۔
نیب ریفرنسز کی توسیع شدہ مدت مئی میں اختتام پذیر ہوئی تاہم احتساب عدالت کی جانب سے سپریم کورٹ میں ٹرائل کی مدت میں مزید توسیع کے لیے درخواست دائر کی گئی جسے عدالتِ عظمیٰ نے قبول کرلیا اور ٹرائل کی مدت میں 9 جون تک توسیع کی۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کی توسیع شدہ مدت جون میں اختتام ہونے والی تھی کہ احتساب عدالت نے ٹرائل کی مدت میں توسیع کا فیصلہ کرتے ہوئے 4 جون کو ایک مرتبہ پھرعدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کردی تھی۔
احتساب عدالت کی اس درخواست پر عدالت عظمیٰ نے 10 جون کو احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنسز کا فیصلہ ایک ماہ میں سنانے کا حکم دیا تھا۔