خبرنامہ

عدالتی کارروائی میں خفیہ ایجنسی کی مداخلت کے الزامات مسترد

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور خان کاسی نے خفیہ ایجنسی کی عدالتی معاملات میں مداخلت کرنے اور من پسند بینچ تشکیل دینے کے حوالے سے ایک سینئر جج کے الزامات مسترد کردیئے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق اور جسٹس مینگل حسن اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے انٹرسروسز انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) کی جانب سے دائر کردہ انٹرا کورٹ اپیل (آئی سی اے) کی سماعت کی۔

اپیل میں عدالتی حکم نامے سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے منفی ریمارکس حذف کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

خفیہ ادارے کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ مذکورہ عدالتی حکم نامہ سوشل میڈیا کے ذریعے اندرونِ اور بیرونِ ملک زیر گردش رہا جس سے دنیا بھر میں پاک فوج، آئی ایس آئی اور عدلیہ کا وقار مجروح ہوا۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ عدالت، حکم نامے سے منفی ریمارکس حذف کرے اور پٹیشنر پر غیر سنجیدہ پٹیشن دائر کرنے کی وجہ سے مقدمہ بازی کے اخراجات عائد کیے جائیں۔

مذکورہ مقدمے کے پس منظر کے مطابق محمد افتخار راجہ نامی شخص نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی جس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ ان کے بھائی رب نواز کو خفیہ اداروں نے اغوا کیا۔

دوسری جانب جب 18 جولائی کو پولیس نے رب نواز کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں پیش کیا گیا، جسے مبینہ طور پر کچھ لوگ اپنے ساتھ لے گئے تھے، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ خود اپنے آبائی علاقے وہاڑی گئے تھے۔

تاہم ان کے بھائی محمد افتخار کا پھر بھی اصرار تھا کہ ان کا بھائی جھوٹ بول رہا ہے اور اسے خفیہ ادارے کے اہلکار اپنے ہمراہ لے کر گئے تھے اور مبینہ طور پر جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔

اس سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے یکم اگست کو انٹرا کورٹ اپیل پر کارروائی کرتے ہوئے مدعی اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو نوٹسز جاری کیے تھے۔

بعدازاں ایڈووکیٹ جنرل طارق محمود نے ڈویژن بینچ کے سامنے عدالت میں پیش ہوئے اور رجسٹرار آئی ایچ سی کے توسط سے جسٹس انور خان کاسی کا پیغام پہنچایا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی عدالتی کارروائی میں کسی ادارے یا فرد کی بیرونی مداخلت کی اجازت نہیں دی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے بحیثیت سیشن جج اور بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کبھی کسی سے ہدایات نہیں لیں۔

جس کے بعد عدالت نے انٹرا کورٹ اپیل منظور کرتے ہوئے عدالتی حکم نامے سے مذکورہ ریمارکس حذف کرنے کے احکامات جاری کردیے۔