خبرنامہ

ملک برکت علی ممتاز دانشوروں کی رائے میں

آخر کار ملک برکت علی پر کتاب منظر عام پر آگئی۔ اس کا سہرا ان کے پوتے ڈاکٹر محمود شوکت کے سر سجتا ہے۔ صوبہ پنجاب قیام پاکستان کا سہرا اپنے سر باندھتا ہے لیکن اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ 10 سال تک پنجاب سے مسلم لیگ کا صرف ایک نمائندہ پنجاب اسمبلی کا ممبر رہا اور وہ ملک برکت علی مرحوم و مغفور تھے۔ مسلم لیگ کا یہ تنہا ستارہ جمہوریت کی سر بلندی کا سبب بنا اور اس نے مسلمانان پنجاب کے حق میں آواز اٹھائی۔ آج اس شخص کی اگر پوجنے کی اجازت ہوتی تو میں کہتا کہ اس کی پوجا کی جائے۔ وہ محسن پاکستان ہیں، وہ محسن جمہوریت ہیں، وہ محسن عوام ہیں۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کو اہل پنجاب نے نہیں، اہل بنگال نے تشکیل دیا۔ پنجاب والوں نے تو آل انڈیا مسلم لیگ کے مقابل اپنی لیگیں کھڑی کیں۔ چلیے اس اختلاف کو بھی چھوڑیے، بات کرتے ہیں کہ اہل پنجاب نے قائداعظم کی آل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ کیا سلوک کیا اور آل انڈیا کانگریس کا کس حد تک ساتھ دیا۔
77 سال میں قائداعظم کی مسلم لیگ کے وارثوں کو ذرا توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ملک برکت علی پر کوئی کتاب لکھواتے اور اسے شائع کرتے تاکہ اہل پنجاب پر واضح ہوتا کہ اس علاقے میں قائداعظم کا علم کس شخص نے تن تنہا متحدہ پنجاب اسمبلی میں بلند کیے رکھا، اس نے چومکھی لڑائی لڑی۔ ہندو اور سکھ بھی اس کے خلاف تھے اور مسلمان نام والے یونینسٹ ان کے خون کے پیاسے تھے، اسی لیے ان خان بہادروں، جاگیر داروں اور ذیلداروں نے ملک برکت علی کا نام کسی تاریخ کی کتاب میں نہیں آنے دیا تھا اور انھی لوگوں کے سر پہ سیاست کے تاج سجائے گئے جو انگریز کے کتے نہلاتے تھے، اونچے شملے پہنتے تھے اور خدا کی زمین پر تب بھی اکڑ کر چلتے تھے اور آج تو ان کی اکڑ فوں دیکھی نہیں جاتی۔ وہ کھلے عام سیاست کی مویشی منڈی میں اپنی قیمتیں لگواتے ہیں اور کروڑوں کے بھاﺅ بکتے ہیں اور یہ دولت منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر منتقل کر دی جا تی ہے اور شرم ان کو مگر نہیں آتی۔
ملک برکت علی پر کتاب تو ان کے بیٹے ملک شوکت علی کو لکھنی چاہیے تھی، لیکن ملک برکت علی کے پوتے ڈاکٹر محمود شوکت نے اپنے باپ پر اپنے دادا حضور کا یہ قرض سود سمیت چکا دیا ہے۔ انہوں نے کما حقہ تحقیق کا حق اداکر دیا ہے۔ ڈاکٹر محمود شوکت کا نام اور کام کسی تعارف کا محتاج نہیں، وہ پاکستان کے چوٹی کے سرجن ہیں بلکہ بچوں کے لیے زندگی کی امید کی کرن ہیں، وہ میو ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین رہے ہیں، وہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر بھی رہے، وہ کئی ایک میڈیکل کالجز کے پرنسپل بھی رہے ہیں، وہ صوبہ پنجاب کی کورونا کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔ وہ خدمت خلق میں بھی بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور نیکی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
اس کتاب کے اندر اور مین کور پر تین ممتاز دانشوروں کی رائے موجود ہے جن میں مجیب الرحمن شامی، عرفان صدیقی اور ڈاکٹر امجد ثاقب شامل ہیں۔ عرفان صدیقی شعبہ تدریس سے وابستہ رہے، ممتاز دانشور اور بڑے پائے کے کالم نویس ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی ٹاپ لیڈرشپ میں شامل ہیں۔ وہ ملک برکت علی کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ڈاکٹر محمود شوکت کی کتاب کا مسودہ ملا تو اپنی مصروفیات کے باعث کئی دن دیکھ نہ پایا اور جب میل خوردہ اوراق پر روایتی خط میں لکھی تحریر پڑھنا شروع کی تو وقت کا احساس کیے بغیر دیر تک پڑھتا رہا۔بلا شبہ یہ کتاب ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جس میں تحقیق کے قرینوں کو پوری طرح ملحوظ ِ خاطر رکھا گیا ہے۔ داد دینا پڑتی ہے کہ ڈاکٹر محمود شوکت نے اس قدر ریاضت اور عرق ریزی سے کام کیا، جسے واقعات کے حقیقی مآخذ تک پہنچنے کے جنوں سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ کاش ہماری جامعات اور دیگر علمی وادبی ادارے بھی ملک برکت علی مرحوم جیسی نابغہ روزگار شخصیات کو نسلِ نو سے متعارف کرانے کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی کریں۔“
عرفان صدیقی نے لکھا ہے کہ 1936ءکے انتخابات میں دو اصحاب مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے جبکہ کتاب کے اندر یہ تفصیل موجود ہے کہ صرف ملک برکت علی نے مسلم لیگ کے نمائندے کے طور پر حلف اٹھایا تھا۔ دوسرے صاحب راجہ غضنفر علی یونینسٹ پارٹی کو پیارے ہوگئے تھے۔ممتاز دانشور،صحافی اور سیاستدان محترم مجیب الرحمن شامی ملک برکت علی کے بارے میں اپنی صائب رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ملک صاحب کے پوتے ڈاکٹر محمود شوکت نے جو ایک بڑے معالج کے طورپر پہچانے جاتے ہیں اور پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں،اپنے دادا کے تذکرے کو کتابی شکل میں محفوظ کردیا ہے۔ امید ہے ان کی یہ کاوش جہاں ملک صاحب کا رشتہ موجود اور آنے والی نسلوں سے قائم رکھے گی، وہاں سیاسی کارکنوں کو یہ سبق بھی ازبر کرائے گی کہ اعلیٰ اقدار سے وابستہ ہونے والے اور قوم کی سر بلندی کے لیے جدوجہد کرنے والے امر ہوجاتے ہیں، انھیں بھلایا نہیں جا سکتا، نہ تاریخ کو ان کے بغیر مکمل کیا جا سکتا ہے۔“
پاکستان کے لاکھوں بلکہ کروڑوں انسانوں کے لیے امید کی کرن ڈاکٹر امجد ثاقب سے ملک کا ہر غریب اور مزدور بخوبی واقف ہے۔ ان کی اخوت فاو¿نڈیشن لاکھوں بے روزگاروں کو روزگار اور ہزاروں بے گھروں کو گھر فراہم کر چکی ہے۔ عمران خان ہو یا شہباز شریف، ہر حکومت نے ڈاکٹر امجد ثاقب پر بھر پور اعتماد کرتے ہوئے اربوں روپے کے عوامی اور فلاحی منصوبے ان کو حوالے کیے۔ وہ ہر دور میں ہر حکومت کے اعتماد پر پورا اترے۔ ملک برکت علی کے بارے میں لکھتے ہوئے وہ اس طرح سے رقم طراز ہیں:
”جو کہانیاں ڈاکٹر محمود شوکت نے مجھے سنائیں، وہ بعد میں اس کتاب میں لکھ دیں، کہانیاں اس لیے لکھی جاتی ہیں کہ لوگ ان میں موجود اچھے کردار منتخب کریں اور پھر ان جیسا بن جائیں۔ کاش ہم بھی ملک برکت علی جیسا بن سکیں۔ اگر ایسا بننا ممکن نہ ہوتو ان کی کچھ خوبیاں ہی ہمیں مل جائیں۔ امانت، دیانت، صداقت اور دردمندی۔ پاکستان اس روز اپنی منزل پر پہنچے گا جب ہم ان لوگوں کے نقش قدم پر چلیں گے جنھوں نے اس وطن کا خواب دیکھا اور پھر اس کی تعبیر کے لیے زندگی وقف کر دی۔“
ڈاکٹر محمود شوکت کی کتاب چھپ چکی ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ الطاف حسن قریشی جیسے بزرگ صحافی اور عطاءالحق قاسمی جیسے ممتاز دانشور کی رائے بھی حاصل کر لی جاتی اور نوجوان نسل کے آج کے سٹار حامد میر، جاوید چودھری، سہیل وڑائچ، ارشاد عارف کی بھی صائب رائے اگر شامل کر لی جاتی تو کتاب اور معتبر ہو جاتی بلکہ کتاب کو چار چاند لگ جاتے۔ کتاب طباعت، کاغذ اور جلد بندی یعنی ہر لحاظ سے معیاری ہے اور ملک برکت علی مرحوم کے شایان شان ہے۔ ایسی کتاب ہاتھ میں لے کر انسان فخر محسوس کرتا ہے۔ اس کتاب کو یقیناً ہر لائبریری اور ہر ڈرائنگ روم کی زینت بننا چاہیے۔ ہر طالب علم کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ قیام پاکستان کا ایک تابناک باب ہمارے سامنے آچکا ہے اور نوجوان نسل کیلئے ملک برکت علی کا روشن کردار جاننا ضروری ہے کہ کس طرح انھوں نے تن تنہا متحدہ پنجاب اسمبلی میں حضرت قائداعظم کی آل انڈیا مسلم لیگ کے لیے جدوجہد کی۔ یہ کتاب لاہور کے کسی ناشر نے شائع نہیں کی بلکہ کسی دور دراز کے قصبے کے پبلشر نے اسے چھاپا ہے، اس لیے یہ کتاب کہاں سے مل سکتی ہے، اس کے لیے ڈاکٹر محمود شوکت سے انکے موبائل فون نمبر 03334254252 پر رابطہ کرکے معلومات لی جا سکتی ہیں۔