اسلام آباد (ملت آن لائن + آئی این پی) سپریم کورٹ میں اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے سے متعلق کیس کی سماعت پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ دنیا کے کئی شہروں میں 1863سے میٹرو ٹرین چل رہی ہے،میٹرو ٹرین کے چلنے سے لندن ٹاور تو نہیں گرا،میٹرو ٹرین کیلئے ڈھانچہ ویسا ہونا چاہیے جو بیرون ملک بنائے گئے،یقینی یہ بنانا ہے کہ عمارتوں کے ڈھانچے کو نقصان نہ ہو،آثار قدیمہ کے قوانین کی تشریح عدالت کا کام ہے،پاکستانی ماہرین کی رپورٹ قبول نہیں تو کیا بھارت ماہرین کو لایا جائے۔منگل کو سپریم کورٹ میں اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں5رکنی لارجر بنچ نے کی۔وکیل ماس ٹرانزٹ اتھارٹی مخدوم علی خان نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے سات ماہرین کی رپورٹ مسترد کی،مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کے سامنے کسی نے رپورٹس پر اعتراض نہیں کیا،ڈاکٹر ایپل اور پامیلا راجر ماضی میں حکومتی اداروں سے وابستہ رہے،ماضی کی وابستگی کی بنیاد پر ان کی رپورٹ کو مسترد کیا گیا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ پاکستانی ماہرین کی رپورٹ قبول نہیں تو کیا بھارتی ماہرین کو لایا جائے،بظاہر ہائیکورٹ کے فیصلے میں دی گئی وجوہات قابل قبول نہیں،یقینی یہ بنانا ہے کہ عمارتوں کے ڈھانچے کو نقصان نہ ہو۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ میٹرو سے پیدا ارتعاش کا جائزہ سائنٹیفک بنیادوں پر لیا گیا۔مخدوم علی خان نے کہا کہ پروفیسر کوننگم نے رپورٹ میں قانون کی تشریح کی ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ پروفیسر کونیسپاک رپورٹ کا جائزہ لینے کا کہا تھا،آثارقدیمہ کے قوانین کی تشریح عدالت کا کام ہے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ پروفیسر کا احترام ہے مگر ماہرانہ رائے کہاں دی ہے؟۔مخدوم علی خان نے کہا کہ پروفیسرکوننگم آرکیالوجی کے ماہر ہیں۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ آثار قدیمہ کا ماہر سول انجیئرنگ میں رائے کیسے دے سکتا ہے؟۔مخدوم علی کان نے کہا کہ پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کا بھی رپورٹ پر یہی موقف ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ دنیا کے کئی شہروں میں 1863سے میٹرو ٹرین چل رہی ہے،میٹرو ٹرین کے چلنے سے لندن ٹاور تو نہیں گرا،میٹرو ٹرین کیلئے ڈھانچہ ویسا ہونا چاہیے جو بیرون ملک بنائے گئے۔۔۔۔(خ م)
خبرنامہ
میٹرو ٹرین کے چلنے سے لندن ٹاور تو نہیں گرا
