اسلام آبا د سینئرقانون دان ،سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ سے نااہل قرار دئیے گئے وزیراعظم نواز شریف کو صرف عوامی طاقت سے ریلیف ملے گا، سڑکوں پر نکلنا ہوگا اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ شاہراہ دستور کو بند کردیا جائے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں جس آرٹیکل کا استعمال کیا گیا وہ تو اس کیس پر لاگو نہیں ہوسکتا۔ میرا مطالبہ ہے کہ آرٹیکل 184/3میں ترمیم کی جائے اور آرٹیکل 62/63کو 1973 کے آئین کے مطابق بنایا جائے۔
جمعرات کو نیشنل پریس کلب کے پروگرام میٹ د ی پریس میں اظہار خیال کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اب تک دو دفعہ سویلین گاڈ فادر نکالے جا چکے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ سویلین گاڈ فادر کتنے لاچار اور مجبور ہوتے ہیں،کاش آپ مافیاز کے خلاف فیصلہ دے سکتے، مجھے کسی مافیا کے خلاف ایک فیصلہ ہی دکھا دیں، آپ تو اب تک لینڈ مافیا کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکے، ملک اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ہے ،آج کل اسٹیبلشمنٹ میڈیا سیاستدانوں کے ذریعے بولتی ہے کوئی بتائے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے ادارے کس قانون کے تحت کام کرتے ہیں، ان کو فنڈ عوام کے نام پر ملتے ہیں تو وہ اس کا بجٹ کیوں اسمبلی میں پیش نہیں کرتے، مجھے سپریم کورٹ کے فیصلے سے اسٹیبلشمنٹ کی بو آ رہی ہے، کیونکہ جس آرٹیکل کا استعمال کیا گیا وہ تو اس کیس پر لاگو نہیں ہو سکتا۔ میں نوازشریف کے نہیں قانون کے ساتھ ہوں، کبھی ن لیگ کو ووٹ نہیں دیا ہمیشہ پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا اور دیتی رہوں گی۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ بعض لوگ سمجھ رہے تھے کہ حکومت کے جانے سے بہت سے پرندے اڑ جائیں گے اور کئی نے تو 30 اور50 کی تعداد بھی بتا دی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا اور یہ ان لوگوں کے لیے جواب ہے جو سیاستدانوں کو غلیظ سمجھتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ سیاستدانوں نے ملٹری کورٹ بنا کر اپنے پائو ں پر خود کلہاڑی ماری اور یہ انکی سب سے بڑی غلطی تھی ، ملٹری کورٹس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک وکیل کہے کہ ہمیں بولنا نہیں آتا اور آج سے ڈاکٹر اور انجینئر ہماری جگہ عدالتوں میں بولیں گے۔ ملٹری کورٹس کے معاملے میں عدالت ، وکیلوں اور سیاستدانوں نے قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں جبکہ دوسری جانب پارلیمان نے اپنے حقوق دوسرے کے ہاتھوں میں دے کر اپنا ہاتھ خود کٹوایا ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ پاکستان کے لوگ اتنے سادہ نہیں کہ وہ ہر بات مان لیں،ہمیں آئندہ کی نسلوں کو اندرونی اور بیرونی جنگوں سے پاک پاکستان دینا ہے، ہمیں اس ملک میں قلم اور زبان کی مکمل آزادی چاہیے ،اسٹیبلشمنٹ یہ جان لے کہ اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے حق کیلئے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے میاں نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے پر کہا کہ آرٹیکل184/3 کا غلط استعمال ہوا ہے اور ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جے آئی ٹی کے بننے سے پہلے ہی ایک جج نے اپنے ٖفیصلے کا آغاز گاڈ فادر سے کیااور جے آئی ٹی کی دستاویزت کواس طرح لکھنا اتنا آسان نہیں تھا اور یہ کیسے مان لیا جا ئے کہ اسکے پیچھے کسی کا ہاتھ نہیں۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ جس آرٹیکل کا استعمال کیا گیا وہ تو اس پر لاگو ہی نہیں ہو سکتا اور اس سے پہلے سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اسے رد کیا اور بعد میں پتہ نہیں کیوں اسے کورٹ میں چلایا ۔ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے چلنے والی وفاقی شریعت عدالتیں کوئی کام نہیں کرتی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ فاٹا کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق دئیے جائیں اور یہ کام صرف ایک صدارتی حکم نامے سے بھی ہو سکتا ہے ، اگر صرف یہ کہہ دیں کہ فاٹا کے عوام اپنے کیسز پشاور ہائی کورٹ میں لا سکتے ہیں تو وہ انکے بہت سے مسائل کاحل ہو سکتا ہے ،ہمیں کشمیر کے مسئلے پر بھی بات چیت کی ضرورت ہے اور یہ مسئلہ جنگ سے نہیں بات چیت سے حل ہوگا اور ہمیں ملک میں عوام کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرنا ہو گی ، وکیل اور صحافی اس ملک میں جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ فیصلے غلط ہونا کوئی عجوبہ نہیں،اگر فیصلے سے آمرانہ بو آئے تو سمجھیں کہ ادارے کا وقار کم کیا، وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ نے اس ادارے پر دھبہ لگادیا اورانصاف کی سیٹ کی بے حرمتی ہوئی۔ قبل ازیں صدر نیشنل پریس کلب شکیل انجم اور صدر پی ایف یو جے افضل بٹ نے معزز مہمان کو نیشنل پریس کلب آمد پر خوش آمدید کہا اور انسانی حقوق اور وکلاء تحریک میں ان کی خدمات کو سراہا،پروگرام کے آخر میں عاصمہ جہانگیر کو یادگاری شیلڈ بھی دی گئی۔
این این آئی کے مطابق عاصمہ جہانگیر نے کہاہے کہ بے نظیر کو کہا تھا آپ کیسز سڑکوں پر جیتیں گی ،نواز شریف لوگوں کوساتھ لیکر چلیں اور عوام کی طاقت دکھائیں، پانا ما کیس چلا لوگ سوچ رہے تھے کہ سونے ،ہیروں اور نوٹوں کی بوریاں نکلیں گی مگر اقامہ نکلا ،جمہوری نظام کا مخالف آنیوالی نسلوں کا دشمن ہے، انہوں نے کہاکہ جے آئی ٹی کی کارروائی کے دور ان سپریم کورٹ کے ججز نے حکومت کو سسلین مافیا کہہ دیا میں ججز کی عزت کرتی ہوں ،عدلیہ کیلئے جان قربان کر نے کیلئے تیار ہوں، میری عزت اور رسوائی اسی کے ساتھ ہے میں ججز سے ادب سے کہتی ہوں کہ کاش آپ اصل مافیا کے خلاف لڑ سکتے آپ تو اس مافیا کے آگے لبیک کہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نیب میں کیس چلائیں مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے پہلے بھی نیب میں کیسز چل رہے ہیں نیب کے معاملے پر ایک جج کو تعینات کر دیا گیا جس کی کوئی مثال نہیں، انہوںنے کہاکہ مہذب دنیا میں دکھائیں کسی چھوٹی کورٹ کی مانیٹرنگ اعلیٰ کورٹ کررہی ہو،کوئی بھی فیصلہ آئے اپیل لیکر کہاںجائینگے ۔
عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ جج کیلئے قابلیت ہی نہیں دیانت لازمی ہوتی ہے۔نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیصلہ تو ٹھیک طرح لکھ لیتے ؟ انہوںنے کہاکہ ہم بچپن سے جدو جہد کررہے ہیں اب ہمارے جانے کا وقت آگیا ہے ہم نے آنے والی نسلوں کو ایسا پاکستان نہیں دینا۔ انہوںنے کہاکہ میر ا پارلیمنٹ سے جھگڑا ہے میں پارلیمنٹ سے بے حد ناراض ہوں ٗ 18ویں ترمیم کے دور ان ہمارا مذاق اڑایا گیا ٗ ہماری بات نہیں مانی گئی آپ کو آرٹیکل 62اور 63کے علاوہ اور بھی بہت راستے روکنا ہونگے جو پچھلی آمریت چھوڑ کر گئی ہے ،آپ کو بنیادی حقوق دینا ہونگے جو آئین دیتا ہے،ثبوت لینے کیلئے ٹارچر نہیں کیا جائیگا،میں کئی شقیں بتا سکتی ہوں جو عام بنیادی حقوق نہیں ہیں، انہوںنے کہاکہ پارلیمنٹ میں آپ نہ قانون کو ڈسکس کر تے ہیں نہ جو ڈیشری کو ڈسکس کر تے ہیں۔ آپ صرف وہی کہہ سکتے ہیں جو آپ سے کہلوانا چاہیں۔
عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ اگر آپ کی آرمی سیاست میں آئیگی تو ڈسکشن ہوگی،آپ سرحدوں پر لڑینگے تو ہم آپ پر جانیں نچھاور کرینگے، آپ کیلئے نغمے گائیں گے آپ سیاست میں آئیں گے تو پھر ہم اپنے حقوق سلب نہیں کر نے دینگے انہوںنے کہاکہ ابھی تک پاکستانی قوم میں قلم اور آواز کی جان ہے۔میں احتساب کی مخالف نہیں ہوں اگر آپ نے احتساب کر نا ہے تو پارلیمنٹ کے اندر پورا بجٹ ڈسکس کر نا ہوگا دفاعی بجٹ آج تک کیوں ڈسکس نہیں ہوا، سب سے زیادہ بجٹ دفاع میں جاتا ہے کیا ہمیں اس کے بارے میں پتہ نہیں ہونا چاہیے؟ عاصمہ جہانگیر نے کہاکہ کیا سارے سویلین دشمن ہیںہمارا ٹیکس ہمیں دے دیں پھر ہم بھی چھوٹی موٹی چیزوں سے گزارا کر لینگے ۔ 184تھری کو اپنی تنخواہوں کیلئے استعمال کیا گیا ٗ 184تھری کو میمو گیٹ اور وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کیلئے استعمال کرتے ہیں، انہوںنے کہاکہ 184تھری کے بعد اپیل نہیں ہے صرف ریویو ہے پارلیمنٹ اپیل کا حق دے انہوں نے کہاکہ میں نے اور بھی بہت سارے کیسز دیکھے ہیں غریبوں کے ساتھ بہت زیادتی ہوتی ہے نو جوان امتحان دیکر آتے ہیں پھر نوکری کا لیٹر ملتا ہے وہ گھر میں مٹھائیاں بانٹتا ہے مگر آپ اسے روک دیتے ہیں ؟184تھری لوگوں کو تکلیف دینے کیلئے نہیں لوگوں کو تحفظ دینے کیلئے ہے ۔
انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کا کوئی ایک فیصلہ دکھادیں جس کو پڑھ کر کہوں کہ انسانی حقوق کا تحفظ کیا ہے ٗ آپ سے حقوق مانگنا ہمارا حق ہے حقوق دینے ہیں تو کھل کر دیں جو آئین نے دیئے ہیں ۔ میں وزیر اعظم سے التجا کر تی ہوں کہ فاٹا کا مسئلہ کب سے ہے ٗ فاٹا پختونخوا میں آئے گا یا نہیں یہ سیاسی بحث ہے ،فاٹا کے لوگوں کو انسانی حقوق دینگے یا نہیں ٗ آپ کو صرف ایک صدارتی آرڈر جاری کر نا ہے تا کہ ان لوگوں کی اعلیٰ عدلیہ تک رسائی ہو سکے۔
انہوں نے کہاکہ آپ آپریشن کرتے ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو حقوق مانگنا اس کا حق ہے ٗ آئی ڈی پیز کا گھر واپس جانا حق ہے وہ آپ کی منتیں نہ کریں وہاں انسانی حقوق کہاں آئیں گے ،گلگت بلتستان کے لوگ ا پنے حقوق مانگ رہے ہیں ہم نے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کیلئے کیا الفاظ استعمال کئے ٗ یہ اچھے الفاظ نہیں تھے ہم کشمیریوں کی جدوجہد کے ساتھ ہیں یہ غلط بات ہے کہ آپ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کی تذلیل سر عام کریں، انہوں نے کہاکہ افغانستان ٗ بھارت اور ایران ہمارے ہمسائے ہیں ہمیں ان کے ساتھ ہمسایوں کی طرح رہنا ہوگا اور تجارت کرنا ہوگی۔
اسمگلنگ ہو رہی ہے مگر تجارت نہیں کر سکتے کیونکہ تجارت سے ہمارے نوجوانوں کو روزگار ملے گا اوراسمگلنگ کا پیسہ کہیں اور جاتا ہے۔ ہم کشمیر جنگ کر کے نہیں لے سکتے ہمیں مذاکرات کر نا ہونگے انہوں نے کہاکہ ہم بات ہی نہیں کرینگے تو کس طرف جائینگے۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حوالے سے کہا کہ آپ پاکستان کے آرمی چیف رہے اور فوراً کسی اور ملک کی نوکری کرلی اس سے بڑی پریشانی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہر دس سال بعد کوئی نہ کوئی ایسا سیاستدان پیدا کر دیا جاتا ہے جو اشاروں پر چلے۔