نواز شریف کی سینئر وکلا اور ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل کمیشن بنانے کی تجویز
کراچی:(ملت آن لائن) سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے سینئر وکلاء اور ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل کمیشن بنانے کی تجویز دی ہے جو مولوی تمیزالدین سمیت پاناما کیس کا جائزہ لے۔ کراچی میں وکلاء کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کمیشن مقدمات کا جائزہ لے کر تاریخ کو درست کرے، ایسا ممکن نہیں تو ماضی قریب کے تین مقدمات کا جائزہ لے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ کمیشن پاناما کیس، عمران خان کیس اور جہانگیر ترین کیس کا جائزہ لے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی عدلیہ توبحال ہوگئی مگر ملک کے عوام کو انصاف نہیں مل سکا جو کسی بھی مہذب جمہوری معاشرے کا حسن ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج مقدمات کی بڑی تعداد مختلف عدالتوں میں ہے، گزشتہ سال تک پاکستان کی مختلف عدالتوں میں 18 لاکھ 59 ہزارمقدمات التواکے شکار تھے۔ نواز شریف نے کہا کہ نومبر 2017 تک سپریم کورٹ میں 38 ہزار سے زائد مقدمات التواء کا شکار تھے۔ انہوں نے کہا کہ یاسین آزاد نے مسلم لیگ ن میں شامل اختیار کرلی ہے، بڑے وکلا کی پارٹی میں شمولیت اثاثہ ثابت ہوگی۔ نواز شریف نے کہا کہ وکلاء انسانی معاشرے کا انتہائی اہم حصہ ہوتے ہیں، جب حقوق اور فرائض کا توازن بگڑ جائے تو جرائم بڑھ جاتے ہیں، وکلا کے کردار کوعزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یاسین آزاد سمیت 40 وکلاء نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کی، مشرف کے آمرانہ اقدامات کے خلاف وکلا نے پرعزم کردار ادا کیا۔ نواز شریف نے کہا کہ عدلیہ بحالی میں کامیاب ہوگئے تاہم عدل کی تابناک صبح نہ ہوسکی، یہ تحریک چند ججوں کی بحالی کے لیے نہیں تھی۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میں نے بھی عدلیہ بحالی تحریک میں کردار ادا کیا تھا، اس تحریک کو دیر تک یاد رکھا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ آمر ہر رعایت کا مستحق ٹھہرا لیکن کسی منتخب جمہوری نمائندے کو کوئی نرمی رعایت نہیں ملی، کیا عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ کے درمیان وہ توازن باقی رہ گیا ہے جس کا تقاضہ آئين کرتا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے صدر نے کہا کہ آج وزیراعظم کا عہدہ مفلوج ہوچکا ہے، وزیراعظم اور وزیراعلی کا جوڈيشل کمیشن قائم کرنے کا اختیار بھی سلب کرلیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ستون دوسرے ستون پر صوابدید کے کوڑے برسانے لگے تو کیا دستوری نظام برقرار رہے گا، صوابدیدی اختیار کے لمبے ہاتھ پارلمینٹ تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ پاناما کیس کے فیصلے میں میرے لیے گاڈ فادر اور سسیلین مافیا کے الفاظ استعمال کیے گئے، عمران خان کے خلاف حنیف عباسی کے مقدمے میں ایک جج نے میرے بارے میں سات صفحات لکھ ڈالے۔ انہوں نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ کے ہر کام کے لیے عدلیہ کی توثیق ضرور قرار پائے گی، جس پٹیشن کو عدالت نے فضول اور ناکارہ قرار دیا وہ یکایک کس طرح قابل سماعت ہوگئی۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ اپریل 2016 میں اورنج ٹرین کو روکا گیا اور ایک سال بعد فیصلہ محفوظ ہوا جسے 8 ماہ بعد سنایا گیا۔