خبرنامہ

نیب کی مانیٹرنگ آرٹیکل 10 اے کی خلاف ورزی ہے،ماہرین قانون

اسلام آباد (ملت آن لائن) سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججوں سمیت پاکستان کے اعلیٰ قانونی ماہرین اور سینئر ترین وکلا کی متفقہ رائے ہےکہ نیب اور احتساب عدالتوں کی مانیٹرنگ کیلئے پامانا کیس بنچ کے ایک رکن کا تقرر آئین کے آرٹیکل 10 اے کی روح کے منافی اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔ ان کا موقف ہے کہ عدالت عظمیٰ نے جب پہلے ہی پاناما کیس میں فیصلہ دے دیا اور معاملہ ٹرائیل کورٹ کے حوالے کر دیا گیا ہے تو احتساب عدالت کو آزادانہ کام کرنے کا موقع ملنا چاہئے ۔

سپریم کورٹ کی جانب سے کوئی مداخلت یا جج کا تقرر جو اسی کیس میں پہلے ہی فیصلہ دے چکے آئین کے آرٹیکل 10 اے کے روح کے خلاف اور ماتحت عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہے۔ جسٹس (ر) خلیل الرحمان خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے عدلیہ کی تاریخ میں نئی نظیر قائم کی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ماتحت عدالت میں مقدمے کی مانیٹرنگ کی گئی ہو اور یہ منصفانہ ٹرائل کے حق کے خلاف ہونے کے علاوہ آرٹیکل 10 اے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس (ر) خلیل الرحمن نے کہا کہ ماتحت عدلیہ کا کوئی جج سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف کیسے جاسکتا ہے۔ جب فیصلہ دینے والا جج خود زیر سماعت مقدمے کی مانیٹرنگ کر رہا ہوْملک کے سینئر ترین وکیل عابد حسن منٹو نے مانیٹرنگ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ ماتحت عدالت میں کسی مخصوص کیس میں کارروائی کو سپریم کورٹ کے جج کے ذریعہ مانیٹر کرنے کے خلاف ہیں۔ جے آئی ٹی سے لے کر احتساب عدالت کی مانیٹرنگ تک ایسا لگتا ہے جسے عدالت عظمیٰ کوئی مخصوص نتیجہ چاہتی ہے اور مدعا علیہان کی آزادی کو متاثر کیا جارہااور ایسا لگتا ہے عدالت عظمیٰ اپنی مرضی کا فیصلہ چاہتی ہے۔ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو تنقیدی طور پر لینا چاہئے۔ اسے نیب اور احتساب عدالت کی مانیٹرنگ کیلئے کسی اور جج کو مقرر کرنا چاہئے۔ جس کا پاناما کیس سے کوئی تعلق نہ رہا ہو۔ ہم ججوں کی تربیت ہی کسی فریق کا دبائو قبول نہ کرنے کی ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے احتساب عدالت کے جج کا فیصلہ شفاف اور منصفانہ ہوگا۔ اس مقدمے کی سماعت میں ماتحت عدلیہ کا جج پہلے ہی نہایت محتاط ہوگا۔ وہ جانتا ہے کہ اس کے فیصلے کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا جائے گا۔

جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کا کہنا تھا کہ جج صاحبان ہمیشہ غیر جانبدار ہوتے اور ان کے فیصلے غیر جانبداری کے عکاس اورمظہر ہوتے ہیں۔ لہٰذا سپریم کورٹ کے اسی جج کو مقرر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں جو پہلے ہی سے کیس سے باخبر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملزم کو اپنی مرضی کی عدالت اور جج کے انتخاب کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ تاہم انہیں اپنے دفاع کا مکمل موقع ملنا چاہئے۔ سپریم کورٹ بارا یسوسی ایشن کے سابق صدر رشید اے رضوی نے عدالت عظمیٰ سےماتحت عدالت کیلئے مانیٹر جج کی تقرری کو مکمل طور پر عدلیہ کی آز ادی کے خلاف قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ماتحت عدالت میں کسی مخصوص مقدمے کی مانیٹرنگ کی کوئی نظیر بھی نہیں ملتی۔

سپریم کورٹ بار کے ایک اور سابق صدر سید علی ظفر نے کہا کہ پوری عدالتی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا تاہم مقدمے نمٹانے کیلئے معینہ مدت دیئے جانے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ مانیٹرنگ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے جج کا اختیار اس کی ٹائم لائن تک محدود ہوگا۔ لیکن اگر مانیٹرنگ پوری کارروائی پرمحیط ہوگی تو پھر یہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے ماتحت عدلیہ پر اثر انداز ہونے کے مترادف ہوگا۔