خبرنامہ

وزیراعظم کا شر پسندوں کو کچلنے کا عزم

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے منگل اور بدھ کو دو دن متواتر 26 نومبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر پی ٹی آئی کی یلغار کے ردعمل میں کہا کہ یہ حکومت ہنگامہ کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر رہے گی۔ شہباز شریف نے جاتی امرا میں اپنے قائد اور بڑے بھائی صدر مسلم لیگ (ن) محمد نواز شریف سے خصوصی ملاقات بھی کی جس میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال، 26 نومبر کے واقعات اور سول نافرمانی کی کال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ ملکی سلامتی اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے والوں کا محاسبہ کیا جائے گا۔ ملکی ترقی کی راہ میں کسی کو رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔دوسری طرف، نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے پی ٹی آئی کی قیادت کو کہا ہے کہ ملک کو بدنام کرنا بند کریں، میں مفاہمت پر یقین رکھتا ہوں، میں نے ماضی میں بہت مفاہمت کی ہے۔ سینیٹر اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ تحریک انصاف نے 9 مئی کو تمام ریڈ لائنز کراس کیں۔ پی ٹی آئی نے 26 نومبر کو ایک بار پھر ملک دشمنی کامظاہرہ کیا ہے۔
2014ءمیں پی ٹی آئی نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں 126 دن تک احتجاجی دھرنا دیا تھا اور اس دھرنے میں عمران خان کو ریحام خان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا تھا اور پی ٹی آئی کو الٹا مخدوم جاوید ہاشمی کی صورت میں ایک بڑے سیاسی رہنما کی حمایت سے محروم ہوگئی تھی۔ پی ٹی آئی کے اس احتجاج کے دوران میں نے ایک ملاقات میں ایک اعلیٰ فوجی افسر سے استفسار کیا کہ یہ اسلام آباد میں کیا ہو رہا ہے، ہر روز شام کو ڈی چوک میں ایک سیاسی اکھاڑا لگتا ہے، ایک سیاسی جماعت کے جمع ہوتے ہیں اور رات بھر گالی گلوچ اور ناچ گانے کی محفل ہوتی ہے۔ یہ لوگ تو ریاست کو چیلنج کر رہے ہیں کیا ریاست اس قدر کمزور ہوگئی ہے کہ کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ میرے سوال کے جواب میں اس اعلیٰ فوجی افسر کا کہنا تھا کہ یہ ان لوگوں کی بھول ہے ریاست سے کوئی نہیں لڑ سکتا۔ اس احتجاج کے دوران بھی پی ٹی آئی کے شتر بے مہار کارکنوں نے قانون کو ہاتھ میں لے لیا تھا اور سپریم کورٹ کی عمارت پر گندے کپڑے دھو کر خشک کرنے کے لیے ڈالے گئے، اس اقدام سے دنیا بھر میں پاکستان کا سر شرم سے جھک گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پی ٹی وی جیسے حساس سرکاری ادارے کی عمارت پر قبضہ کرکے عوام کو کئی ایک وقت کی نشریات سے محروم کر دیا تھا بلکہ دفتر میں توڑ پھوڑ بھی کی تھی جس باعث ادارے کو بھاری مالی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ پی ٹی آئی کے کارکن پی ٹی وی کے ساتھ دیگر سرکاری عمارتوں میں بھی جا گھسے تھے اور لوٹ مار بھی کی تھی۔ ایسا ہوتے ہوئے پاکستان کے لاکھوں بلکہ کروڑوں عوام نے مختلف ٹیلی ویڑن چینلز پر سارا دن دیکھا۔ اس سب کے باوجود پی ٹی آئی پرامن احتجاج کی دعویدار بن جاتی ہے۔ کیا اپنے ہی گھر میں آگ لگانے کو پ±ر امن احتجاج کہتے ہیں؟
ادھر، وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام نے کہا ہے کہ نام نہاد تبدیلی کے نام پر عوام کو دھوکا دینے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مسلسل تیسری حکومت کے باوجود عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے، پی ٹی آئی کا آئے روز احتجاج، غنڈا گردی اور وفاقی دارالحکومت پر یلغار ریاست سے غداری کے مترادف ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ غیر ضروری مشقوں اور تجربات نے خیبر پختونخوا میں صحت اور تعلیم کے شعبوں کو برباد کر دیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے پی تخریب کاری میں مصروف ہیں۔ خیبر پختونخوا میں عوامی مسائل کے حل، گورننس اور صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بہتری پر توجہ دینے کی بجائے ٹیکس دہندگان کا پیسہ پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے احتجاج اور غیر معقول سیاست کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جس سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
وفاقی وزیر انجینئر امیر مقام نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو مشورہ دیا کہ وہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں عوامی جلسے کریں جہاں امن و امان کی صورتحال خراب ہو رہی ہے اور لوگ شام کے بعد گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے۔ جنوبی اضلاع میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے پر توجہ دینے کے بجائے بدعنوانی اور ناقص طرز حکمرانی کے علاوہ بدعنوانی کے کیسز خیبر پختونخوا میں سامنے آنے لگے ہیں۔ صوبائی وزراءاور مشیروں کی طرف سے ایک دوسرے پر کرپشن کے حالیہ الزامات نے خیبر پختونخوا کے حکمرانوں کے کرپشن مخالف دعووں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے پاس عوامی فلاح و بہبود کے وڑن کا فقدان ہے اور یہ کہ اشتعال انگیزی کی سیاست ان کا بنیادی محور ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کے وسائل لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے جلسوں میں استعمال ہوئے۔ پاکستانی عوام ان مظاہرین کے بارے میں جانتے ہیں جو غیر ملکی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ حکومت نے پی ٹی آئی کے تخریب کاروں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کو اپنایا ہے اور کسی کو دوبارہ اسلام آباد کا امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ امن و امان کا قیام حکومت کی اولین ترجیح ہے اور جب بھی ملک میں کسی نے قانون کو ہاتھ میں لیا تو ٹارگٹ ایکشن لیا جائے گا کیونکہ پی ٹی آئی کارکنوں کو ایک بار پھر نعروں پر گمراہ کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کا شر پسندوں کو کچلنے کا عزم صائب فیصلہ ہے۔ حکومت ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔
دوسری طرف، عمران خان کے ذہن پر یہ بھوت طاری ہے کہ جس طرح عالمی قوتیں دوسری ملکوں کو طاقت کے بل پر تسخیر کرتی ہیں وہ بھی ایسا کر دکھائیں۔ وہ اپنی تقریروں میں تاریخ کے حوالے بہت دیتے ہیں۔ شاید وہ سننے والوں پر رعب جماتے ہیں کہ وہ بہت صاحب مطالعہ ہیں۔ انکے ذہن کے کسی گوشے میں سقوط ڈھاکہ کے سانحے کی تفصیلات موجود ہیں اور انھیں یاد ہے کہ کس طرح اندرا گاندھی نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ڈھاکہ میں فوج اتاری اور عمران خان کے شہر میانوالی کے سپوت جنرل نیازی کو سرنڈر کرنے پر مجبور کیا۔ عمران خان کو شاید یہ بھی یاد ہے کہ سوویت روس نے افغانستان میں فوجیں داخل کر کے افغانستان پر قبضہ کیا۔ پھر انھیں یہ بھی یاد ہے کہ صدام حسین نے طاقت کے بل پر کویت پر قبضہ جما لیا اور پھر عمران خان یہ بھی نہیں بھول پائے کہ امریکا نے عراق پر برق رفتار حملہ کیا اور چند گھنٹوں میں بغداد فتح کر لیا اور بالآخر صدام حسین کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ عمران خان کو وار آن ٹیرر نہیں بھولتی جب امریکا اور نیٹو کی افواج نے کابل کا گھیراو کرلیا تھا اور اب تازہ ترین شام میں جو سانحہ رونما ہوا ہے اور امریکا، نیٹو ،ترکی اور اسرئیل کی فوجوں نے برسوں تک بمباری کر کے شام کو سرمہ بنا دیا اور اب اسرائیلی ٹینکوں نے شام کے دارالحکومت نے دمشق کا رخ کر کے بشار الاسد کو فرار ہونے پر مجبور کردیا۔ یہ سب کچھ طاقت کے نشے کا مظاہرہ تھا اور اب عمران خان بھی اسی طاقت کے نشے میں اسلام آباد کو مسخر کرنا چاہتا ہے۔ عالمی قوتوں نے تو دوسرے ملکوں کو نشانہ بنایا لیکن عمراخان کی توپوں کا رخ اپنے ہی ملک کے دارالحکومت کی طرف ہے مگر وہ بھول رہا کہ وہ جس ریاست سے ٹکرانا چاہتا ہے اس کا نام پاکستان ہے۔ جس کی طرف دنیا کی کوئی قوت میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتی۔