’شہباز کرے پرواز‘کے نعرے بعد اب پاکستان کی اڑان کا نیا نعرہ لگا ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں حکومت کی شبانہ روز کوششوں کی بدولت ’اڑان پاکستان‘ پروگرام کے تحت آئندہ پانچ سال اور طویل مدت میں 2035ءتک کے معاشی اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ مثلاً ملکی شرح نمو میں اگلے پانچ سال میں 6 فیصد اضافے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ آئندہ 10 سال میں یعنی 2035ءتک مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا سائز ایک ٹریلین ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ اڑان پاکستان کا پہلا مقصد ایکسپورٹ یعنی برآمدات پر مبنی معیشت کو تشکیل دینا، دوسرا مقصد ملک میں ڈیجیٹل انقلاب لانا، تیسرا مقصد ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات سے نمٹنا ہے۔ چوتھا سیکٹر جس پر توجہ دی جائے گی، وہ انرجی اور انفراسٹرکچر کا ہے جبکہ پانچواں ایکویٹی پر مبنی معاشرے کی تعمیر ہے۔
’اڑان پاکستان‘ کے تحت سب سے پہلے برآمدات کو اگلے پانچ سال میں 60 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچانا ہے۔ اڑان پاکستان کے تحت جی ڈی پی کی شرح نمو کو آئندہ پانچ برس میں 6 فیصد تک لے جانا ہے۔ اڑان پاکستان کے تحت آئندہ پانچ برس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فری لانسنگ انڈسٹری کو پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس کیلئے سالانہ دو لاکھ آئی ٹی گریجویٹس تیار کیے جائیں گے۔ ’اڑان پاکستان‘ منصوبے میں آئندہ پانچ برس میں گرین ہاوس گیسز میں 50 فیصد تک کمی کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، قابل کاشت زمین میں 20 فیصد سے زائد اضافہ اور پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں دس ملین ایکٹر فٹ تک کا اضافہ کرنا ہے۔ توانائی کے شعبے میں قابل تجدید توانائی کا حصہ دس فیصد تک بڑھانا ہے۔ ’اڑان پاکستان‘ کی دستاویز کے مطابق غربت کی شرح میں 13 فیصد تک کمی لانا ہے۔اڑان پاکستان منصوبے میں عوامی شراکت داری کیلئے پبلک، پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبے بھی اس پروگرام کا حصہ ہیں۔
حکومت کی جانب سے 5 سالہ اقتصادی منصوبہ ’اڑان پاکستان‘ ماضی کے منصوبوں میں ہونیوالی خامیوں کو مد نظر رکھ کر مرتب کیا گیا ہے تاکہ ان خامیوں سے بچا جاسکے کیونکہ وژن 2010ءاور وژن 2025ء جیسے منصوبے سیاسی عدم استحکام اور پالیسی میں تسلسل کی کمی کی وجہ سے سبوتاژ ہوگئے تھے۔ اب حکومت نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ 2047ءتک پاکستان کو 3 ٹریلین ڈالر کی معیشت میں تبدیل کرے گی کیونکہ ’یہ اقدام سماجی و اقتصادی چیلنجز پر قابو پانے، ملک کی صلاحیتوں کوسامنے لانے اور پائیدار ترقی کے مواقع پیدا کرنے کے قومی عزم کی نمائندگی کرتا ہے‘۔ اور یہ منصوبہ پالیسی کے تسلسل، اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت اور قابل عمل اقدامات کے نتائج پر مرکوز ہے۔
ماضی کے منصوبوں کے برعکس یہ منصوبہ تمام صوبوں، وزارتوں اور شعبوں کو یکجا کرنے والے ایک مضبوط عمل درآمد کے طریقہ کار کے ذریعے سیاسی مداخلت سے پاک منصوبہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اڑان پاکستان ایک مشترکہ فریم ورک کی سہولت فراہم کرے گا جو تعلیمی اداروں، صنعت، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی شراکت داروں سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز کی شراکت داری اور ہم آہنگی کو یقینی بنائے گا کیونکہ یہ منصوبہ حقیقت پسندانہ اور بہترین عالمی طریقوں پر مبنی ہے۔ یہ منصوبہ ملائیشیا، ترکی اور جنوبی کوریا جیسے ممالک سے متاثر ہو کر مرتب کیا گیا ہے جنھوں نے اسی طرح کے فریم ورک کے تحت اپنی معیشتوں کو کامیابی سے تبدیل کیا ہے۔ پاکستان کی 65 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر ہے اور یہ ایک منفرد طاقت ہے۔ تعلیم، ہنرمندی کی ترقی اور ڈیجیٹل اقدامات کے ذریعے نوجوانوں کو بااختیار بنانے سے آبادیاتی فوائد حاصل ہوں گے جو معاشی تبدیلی کو آگے بڑھائیں گے۔ ان کوششوں سے پاکستان ٹیکنالوجی کے عالمی مرکز کے طور پر ابھرے گا اور نوجوانوں کیلئے لاکھوں ملازمتیں پیدا ہوں گی۔یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ شہباز شریف کی حکومت جدید فنانسنگ ماڈلز کو ترجیح دے رہی ہے، یہ اقدام صرف حکومت کی زیر سرپرستی کوشش نہیں بلکہ نجی شعبے، ترقیاتی شراکت داروں اور معاشرے کے ساتھ شراکت داری ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اڑان پاکستان پر عمل درآمد کرانے میں مرکزی ستون ہے۔ سی پیک کے تحت توانائی اور نقل و حمل کے منصوبوں کو صنعتی ترقی کی حمایت اور وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی اہم منڈیوں تک رسائی کو بہتر بنانے کیلئے وسعت دی جا رہی ہے۔ سی پیک ایک منصوبے سے بڑھ کر منصوبہ ہے۔ یہ ایک گیم چینجر ہے جو پاکستان کو عالمی ویلیو چینز میں ضم کرتا ہے اور ملک کو علاقائی اقتصادی مرکز کے طور پر کھڑا کرتا ہے۔ اس اقدام کا ہدف آئی ٹی، مینوفیکچرنگ، زراعت، تخلیقی صنعتوں، افرادی قوت اور معدنیات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے سالانہ برآمدات میں اضافہ کرتے ہوئے اسے 60 ارب ڈالر تک لے جانا ہے۔ برآمدات معاشی ترقی کو آگے بڑھائیں گی۔ ”میڈ ان پاکستان“ کے معیار کو عالمی معیار کے طور پر ری برانڈ کرنے سے روپے میں استحکام آئے گا، درآمدی انحصار میں کمی آئیگی اور پائیدار ترقی کو فروغ ملے گا۔
نیشنل اکنامک ٹرانسفارمیشن یونٹ (این ای ٹی یو) کے قیام کا مقصد منصوبے پر موثر عمل درآمد اور احتساب کو یقینی بنانا ہے۔ این ای ٹی یو، نتائج پر مبنی انتظامی نظام اپنائے گا تاکہ پیش رفت، بنیادی کارکردگی کے اشارے کی نگرانی کی جاسکے اور حکمت عملی کو ازسر نو ترتیب دیا جاسکے، حکومت 2000 سے زائد ماہرین کی مدد سے اس کے فریم ورک کو تشکیل دینے کیلئے اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت پاکستان کی کامیابی میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔حکومت نے انتظامی اصلاحات کی حمایت کیلئے چیمپیئنز آف ریفارمز نیٹ ورک کو متحرک کیا ہے اور پاکستان سنٹیئیل 2047ءلیب قائم کی ہے جو جدت اور تعاون کا مرکز ہے۔
توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبے سے متعلق اس منصوبے کا مقصد انرجی مکس میں 10 فیصد حصے کے ساتھ قابل تجدید توانائی پر منتقلی، ریلوے فریٹ ٹرانسپورٹ میں 25 فیصد اضافہ اور تجارتی توسیع کے لیے علاقائی ہم آہنگی کا فائدہ اٹھانا ہے۔ ان اقدامات سے اقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا اور علاقائی رابطے بڑھیں گے۔ مساوات، اخلاقیات اور اختیارات سونپنا اس منصوبے کے بنیادی اصول ہیں۔ شرح خواندگی کو 10 فیصد تک بہتر بنانے، خواتین کی لیبر فورس میں شرکت کو 17 فیصد تک بڑھانے اور نوجوانوں کی بے روزگاری کو 6 فیصد تک کم کرنے کی کوششوں سے ایک منصفانہ اور جامع معاشرے کو فروغ ملے گا جو پسماندہ طبقات کو بااختیار اور سماجی ہم آہنگی کو یقینی بنائے گا۔