اسلام آباد (ملت آن لائن + آئی این پی) پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ‘ سینٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے پانامہ کیس سے متعلق مزید تحقیقات کے لئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دینے کے حوالے سے عدالتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جج نے صحیح کہا تھا یہ فیصلہ برسوں نہیں بھلا پائیں گے‘ جن اداروں کی جے آئی ٹی بنانے کا کہا گیا کچھ وزارت داخلہ اور کچھ وزارت خزانہ کے ماتحت ہیں‘ وزیراعظم کا آئی ایس آئی سے خاندانی تعلق ہے‘ یہ ادارے شفاف تحقیقات کیسے کرسکتے ہیں‘ عدالتوں کی طرف سے شریف خاندان پر ہمیشہ سے نرم ہاتھ رکھا گیا‘ جوڈیشل کمیشن بن جاتا تب بھی وزیراعظم خود پیش ہوتے ہم جرح کرتے ‘ مزہ آتا ‘ ان کے پیٹ سے پیسے باہر کھینچ لیتے‘ جے آئی ٹی میں تو جرح بھی نہیں ہوگی‘ مریم نواز شریف کیس میں مرکزی ملزم کی حیثیت رکھتی تھیں انہیں بالکل استثنیٰ دینے کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے‘ اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں‘ وزیراعظم نواز شریف سسٹم کو بچانے کے لئے فوری طور پر مستعفی ہوں‘ آئندہ احتجاج کے حوالے سے جلد حکمت عملی طے کرلیں گے۔ وہ جمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کررہے تھے اس موقع پر پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ اپوزیشن وزیراعظم کے استعفے پر مکمل اتفاق رائے رکھتی ہے۔ ایوان کے باہر اگر احتجاج الگ الگ بھی ہو تو کوئی مذائقہ نہیں مقصد ایک ہی ہے۔ 2014ء میں جب چالیس ہزار بندے احتجاج کررہے تھے اور وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کررہے تھے تب ہم نے پارلیمنٹ اور جمہوریت کو بچانے کے لئے وزیراعظم کا ساتھ دیا۔ آج ہم پھر جمہوریت اور سسٹم کو بچانے کے لئے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ جمہوریت اور اداروں کو سہارا دیا ہے۔ آج اداروں نے کھل کر فیصلہ دیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نااہل ہیں اب اگر (ن) لیگ طاقت کے بل بوتے پر یہ فیصلہ نہیں مانتی تو ہمارے پاس احتجاج کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے مستقبل کے چیف جسٹس سمیت دو ججوں نے کلیئر فیصلہ دیا ہے کہ وزیراعظم کو نااہل کیا جائے‘ تین ججز نے بھی وزیراعظم پر لگائے گئے الزامات کی تردید نہیں کی صرف ایک چیز کا کہا ہے کہ اس کی مزید تحقیقات کی جائیں اس کے لئے جے آئی ٹی بنائی جائے۔ ان ججز نے شبہات کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ جے آئی ٹی قبول نہیں سرکاری ملازمین کس طرح اپنے مالک کی تحقیقات کرسکتے ہیں۔ 19ویں گریڈ کے افسران وزیراعظم سے کس طرح سوال کریں گے۔ اگر ادارے اس طرح کے فیصلے دیں گے تو ہمیں قابل قبول نہیں ہوں گے۔ بہتر ہوتا کہ سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل کمیشن بنا دیا جاتا وہ سوالات کرسکتے تھے۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ دونوں ایوانوں میں احتجاج میں بھرپور شرکت پر اپوزیشن کا مشکور ہوں۔ میں ہمیشہ کہتا رہا اور یہ بات تاریخ کا بھی حصہ ہے کہ عدالتوں کی طرف سے ہمیشہ شریف خاندان پر نرم ہاتھ رکھا جاتا رہا ہے۔ جب کرپشن کے الزامات پر ماضی میں مسلم لیگ (ن) کی اسمبلیاں توڑی گئیں تو عدالت نے چھ ہفتوں میں بحال کردیا تھا۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کرپشن الزامات پر برطرف کی گئی تو تین سالوں میں بھی بحال نہیں کیا گیا۔ (ن) لیگ نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا ‘ توڑ پھوڑ کی ‘ ماڈل ٹاؤن میں 14 نہتے لوگوں کو شہید کیا مگر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جے آئی ٹی بھی بنی لیکن ان کا انجام کیا ہوا۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ جن اداروں کے افسران پر مشتمل جے آئی ٹی بنانے کا کہا گیا ہے وہ وزارت داخلہ اور وزارت خزانہ کے ماتحت ہیں۔ وہ کیا تحقیقات کریں گے۔ وزیراعظم کا آئی ایس آئی سے ویسے ہی خاندانی تعلق ہے ہم اس جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہیں۔ مریم نواز کا کیس میں مرکزی کردار تھا انہیں بالکل استثنیٰ دیدیا گیا یہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ جج نے صحیح کہا تھا کہ فیصلہ برسوں یاد رکھا جائے گا۔ واقعی یہ فیصلہ برسوں بھلایا نہیں جاسکتا۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ دو ججز نے وزیراعظم کو نااہل قرار دیا باقی ججز نے بھی ان کی تردید نہیں کی نہ وزیراعظم کو نااہل قرار دیا بلکہ کہا گیا کہ مزید تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کیس میں اتنا مواد تھا کہ پانچوں ججز کی طرف سے وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جاسکتا تھا تاہم پھر بھی اگر مزید تحقیقات کی ضرورت تھی تو جے آئی ٹی کی جگہ جوڈیشل کمیشن بنا کر تحقیقات کی جاتیں۔ جوڈیشل کمیشن میں وزیراعظم خود پیش ہوتے ہم ان پر جرح کرتے مزہ آتا ان کے پیٹ سے پیسے باہر کھینچ لاتے۔ جے آئی ٹی میں تو کوئی جرح بھی نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہی تحریک انصاف ‘ جماعت اسلامی اور شیخ رشید کو کہا تھا کہ عدالت نہ جائیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا تاہم اگر وہ عدالت گئے ہیں تو اب وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کرسکتے ہیں۔
خبرنامہ
پیپلز پارٹی نے عدالتی فیصلے کو مسترد کردیا
