اسلام آباد: (ملت+اے پی پی) سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ قانونی سوالات پوچھیں تو پی ٹی آئی وکیل پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں ، نعیم بخاری صاحب لگتا ہے آپ مچھلیاں پکڑ رہے ہیں ، قانونی سوالات کے ساتھ فلرٹ نہ کریں ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے پاناما درخواستوں پر سماعت کی ۔ سماعت کے آغاز پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نعیم بخاری کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی معاونت بہت اچھی رہی ، نعیم بخاری نے دلائل کے آغاز پر کہا کہ 15 نومبر کو قطری خط عدالت میں پیش کیا گیا ۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں جدہ اور دبئی فیکٹری کے ریکارڈ کی موجودگی کی بات کی ، قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا ، آج تک جدہ فیکٹری کا ریکارڈ پیش نہیں ہوا ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں اپنا دفاع مکمل کر لیا تھا ؟ جسٹس گلزار بولے کہ اصل سوال 12 ملین درہم کا ہے ۔ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ جائیداد کی ملکیت شریف خاندان تسلیم کرتا ہے ، شریف خاندان کا موقف ہے کہ 2006 میں آف شور کمپنیاں خریدی ، 1993 سے 1996 میں جائیدادیں خریدنے سے متعلق کوئی دستاویز پیش نہیں ہوئی ۔ نعیم بخاری نے کہا کہ شریف فیملی نے فلیٹس خریداری کی ٹرانزیکشن کا ریکارڈ پیش نہیں کیا ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ فلیٹس الثانی خاندان نے خریدے تو شریف فیملی کیسے ریکارڈ پیش کر دے ۔ کاروبارمیاں شریف مرحوم کا تھا تو کیسے کہہ سکتے ہیں پیسہ نواز شریف نے باہر بھیجا ۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ رقم تو قطر سے لندن منتقل نہیں ہوئی ، لندن فلیٹس تو سرمایہ کاری کی سیٹلمنٹ سے ملے تھے ، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ تمام کاروبار میاں شریف مرحوم کا تھا ، کیا پھر بھی منی ٹریل پیش کرنا نواز شریف کی ذمہ داری ہے ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بظاہر شریف فیملی کو دبئی فیکٹری سے 12 ملین درہم ملے، نعیم بخاری صاحب آج آپ فارم میں نہیں ہیں ، لگتا ہے پیر کے روز آپ اچھا کام نہیں کرتے ، آپ فارم میں واپس آئیں ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دبئی قطر جدہ کی سرمایہ کاری 2004 تک میاں شریف نے کی ۔ نعیم بخاری نے کہا کہ 1999 میں مریم نواز ، حسین نواز ، نواز شریف حدیبہ پیپرز مل کے ڈائریکٹر تھے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ التوفیق کیس میں حسین نواز ، مریم نواز فریق نہیں تھے ، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ پارٹی نے موقف دینا ہے کہ 34 ملین ڈالرز برطانیہ میں کیسے ادا ہوئے ، نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز والد کے زیر کفالت ہے ، اس معاملے پر دلائل منسوخ کر دیئے تھے ، زیرکفالت کے معاملے پر کافی مواد ہے ، اب دلائل دوںگا ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ واپڈا کے مقدمے میں سپریم کورٹ زیرکفالت کے معاملے پر فیصلہ دے چکی ہے ۔ عدالتی فیصلوں کی روشنی میں زیرکفالت کا معاملہ ثابت کرنا ہوگا ، مریم نواز کی ٹیکس سے متعلق آمدن صفر ہے ، نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز کی آمدن صفر ہے ، انہوں نے بی ایم ڈبلیو کار کی قیمت 35 لاکھ روپے بتائی ، دوسرے سال اسی کار کی قیمت 2 کروڑ 81 لاکھ روپے بتائی ۔ نواز شریف نے اپنی بیٹی کو کروڑوں روپے تحفے میں دیئے ، کیپٹن صفدر کا 2013 سے پہلے ٹیکس نمبر نہیں ہے ، کیپٹن صفدر نے 2011،12 میں کوئی ٹیکس نہیں دیا ۔ کیپٹن صفدر کی آمدن ہی نہیں تو بیوی کی کفالت کیسے کر سکتے ہیں ، مریم نواز نے چودھری شوگر ملز اور اپنے بھائی سے بھی قرض لیا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تمام تحائف کا ذکر گوشواروں میں موجود ہے ، آمدن اور قابل ٹیکس آمدن میں فرق ہوتا ہے ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ مریم نواز نے کن نامعلوم ذرائع سے قرض لیا یہ قابل وضاحت ہے ، آپ مریم نواز کے 2011،12 کے گوشوارے پیش کر رہے ہیں ، فلیٹس کا معاملہ تو اس سے پہلے کا ہے ۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ تحائف کے تبادلے کا ثبوت کیا ہے ، نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز تسلیم کرتی ہیں کہ ان کا اپنا کوئی گھر نہیں ، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کا موقف ہے کہ مریم نواز نے یوٹیلٹی بل ادا نہیں کیا ، کرائے کا گھر بھی ہو تو بل ادا کرنا پڑتا ہے ، پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ہارون پاشا نے انٹرویو میں کہا کہ ریکارڈ وکلاء کو دے دیا ہے ، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہارون پاشا کا انٹرویو عدالتی کارروائی سے ایک دن پہلے ہوا اگلے دن وکلاء نے کہا کہ ریکارڈ دستیاب نہیں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مجموعی طور پر حسین نواز نے اپنے والد نواز شریف کو 81 کروڑ روپے دیئے ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ حسین نواز کا نیشنل ٹیکس نمبر عدالت میں پیش کیا گیا ہے ، اگر تحفہ دینے اور لینے والا این ٹی این نمبر رکھتا تو ٹیکس کا ایشو نہیں ہوتا ، نعیم بخاری نے کہا کہ حسین نواز کا ٹیکس نمبر 1995 کا ہے ، 2000ء میں حسین نواز لندن چلے گئے، حسین نواز کی آمدن کا ذریعہ کیا ہے جہاں سے مالی تحائف دیئے گئے ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حسین نواز پاکستان میں نہیں ہوتے اس لیے ٹیکس ادا کرنا ضروری نہیں ، جسٹس گلزار نے کہا کہ بیٹا اپنے والد کو والد اپنے بیٹے کو تحفہ دے سکتا ہے ، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ نعیم بخاری ہمارے قانونی سوالات کا جواب نہیں دیتے ، نعیم بخاری صاحب قانونی سوالات کے ساتھ فلرٹ نہ کریں ، قانونی سوالات پوچھیں تو پی ٹی آئی وکیل پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں ، نعیم بخاری صاحب لگتا ہے آپ مچھلیاں پکڑ رہے ہیں ۔ عدالتی استفسار پر نعیم بخاری نے کہا کہ اسحاق ڈار نے 20 مئی 2000 کو مجسٹریٹ درجہ اول لاہور کے سامنے منی لانڈرنگ کا اعترافی بیان دیا ۔ نیب نے حدیبہ پیپر مل پر ریفرنس فائل کیا جسے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ، لاہور ہائیکورٹ نے ریفرنس دائر کرنے کو کالعدم قرار دے دیا۔ نعیم بخاری نے آج دلائل مکمل کرنے کی بات کی تو جسٹس آصف سعید کھوسہ بولے آپ کو دلائل مکمل کرنے کی کیا ضرورت ہے،جب تک عدالت کو مطمئن نہیں کرتے آپ روسٹرم پر رہیں گے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالت کے اطمینان تک آپ کو روسٹرم پر روکیں گے، میڈیا کے اطمینان کیلئے نہیں روکیں گے، نعیم بخاری نے اسحاق ڈار کا اعترافی بیان حلفی عدالت میں پڑھ کر سنایا ۔