چیئرمین سینیٹ کی دوڑ: (ن) لیگ کے بعد پیپلزپارٹی کا بھی اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ
اسلام آباد:(ملت آن لائن) مسلم لیگ (ن) کے بعد پیپلزپارٹی نے بھی سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل ہونے کا دعویٰ کردیا۔ ایوان بالا کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان جوڑ توڑ جاری ہے، مسلم لیگ (ن) نے چیئرمین سینیٹ کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے کادعویٰ کیا ہے جس کےبعد پیپلزپارٹی بھی اسی دعوے کے ساتھ سامنے آگئی ہے۔ (ن) لیگ کا چیئرمین سینیٹ کیلئے مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ
’57 ارکان کی حمایت حاصل ہے‘
جیونیوز کے مطابق پیپلزپارٹی کے رہنما ڈاکٹر قیوم سومرو نے دعویٰ کیا ہےکہ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے مطلوبہ ارکان سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہو چکی ہے، عہدوں کے لیے 53 ارکان کی حمایت درکار ہے لیکن ہمیں اب تک 57 ارکان سینیٹ کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر قیوم سومرو کا کہنا ہے کہ دیگر جماعتوں سے رابطے جاری ہیں اور جلد مزید ارکان کی حمایت بھی مل جائے گی۔
(ن) لیگ کا راجہ ظفر کے نام پر غور
دوسری جانب ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے چیئرمین سینیٹ کے لیے راجہ ظفر الحق کے نام پر غور شروع کردیا ہے۔ سینیٹ میں 33 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے اپنا چیئرمین سینیٹ لانے کے لئے رابطے مزید تیز کردیئے ہیں جس کے لئے سینیٹر مشاہد اللہ کراچی پہنچ گئے جہاں وہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور مسلم لیگ فنکشنل سے رابطہ کریں گے۔
فضل الرحمان کی پی پی سے دوبارہ رابطے کی تجویز
جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے تجویز دی ہے کہ رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کے لئے پیپلز پارٹی سے دورباہ رابطہ کیا جائے ۔ سینیٹ چیئرمین شپ: عمران خان نے اپنے 13 ارکان وزیراعلیٰ بلوچستان کی جھولی میں ڈال دیے ادھر فاٹا اور بلوچستان کے آزاد گروپ نے سیاسی جماعتوں سے ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ مانگ لیا۔
عمران خان کا اعلان
گزشتہ روز چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے درمیان ہونے والی ملاقات کے دوران سینیٹ میں آئندہ کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ بعدازاں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران عمران خان کا کہنا تھا کہ سینیٹ چیئرمین شپ پر پیپلز پارٹی کے ساتھ جانا مشکل ہے تاہم تحریک انصاف کے 13 سینیٹرز بلوچستان سے منتخب 8 آزاد سینیٹرز کا ساتھ دیں گے اور یہ 21 سینیٹرز پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی بھی طرح کی بات چیت کے لیے آزاد ہیں۔