خبرنامہ

ایٹمی کمان کی خامی،جنرل غلام مصطفی سے مکالمہ۔۔اسداللہ غالب

وزیراعظم کی حالیہ بیماری نے پاکستان میں حکومت کاری کے نقائص کو الم نشرح کر کے رکھ دیا ہے۔
اس سے پاکستان کی جنگ ہنسائی ہوئی ہے۔
ملک کی سیکورٹی کمان کی خامی بھی دنیا کی نظروں میں آ گئی ہے۔
ہمارے ہاں آئین پر فخر کیا جاتا ہے، جمہوریت پر بھی اترانے والے بہت ہیں اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا علم بھی بلند کیا جاتا ہے مگر وزیر اعظم کی بیماری نے ظاہر کیا ہے کہ ہمارا آئین کس قدر ناقص ہے، ہماری جمہوریت کس حد تک تار عنکبوت سے مشابہت رکھتی ہے اور ہماری پارلیمنٹ ایمر جنسی چیلنج سے نبٹنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر عاری ہے۔
مسئلہ میاں نواز شریف کی ذات کا نہیں، ملک کا ہے، آئین کا ہے اورسسٹم کا ہے۔
ترکی میں مبینہ فوجی بغاوت کو سمجھنے کے لئے میں نے لیفٹننٹ جنرل غلام مصطفی سے ایک ملاقات کی ۔ بغاوت کے دروان ترکی کے صدر اور وزیر اعظم کے کردار کی بات بھی چھڑی جو انہوں نے بغاوت کو فرو کرنے کے لئے ادا کیا۔یہیں سے اپنے وزیر اعظم کی بیماری کی طرف بھی اشارہ ہوا کہ ان کے دل کی سرجری کے دوران پاکستان ایٹمی کمان سے کچھ دیر کے لیے محروم ہو گیا تھا۔
ایسا کیوں ہوا۔اس کی وجہ آئین ہے۔
ہمارے آئین میں پہلے تو یہ گنجائش موجود تھی کہ وزیراعظم کی بیماری، بے ہوشی یا پاگل پن کے دوران سینیئر وزیر ان کے اختیارات استعمال کر سکتا ہے۔ یہ گنجائش ایک آئینی ترمیم کے ہتھوڑے سے کچل دی گئی۔
موجودہ آئین میں وزیر اعظم کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آ جائے تو ا سکی جگہ لینے والا کوئی نہیں۔پاکستان ایک چیف ایگزیکٹو سے محروم ہو جاتا ہے ۔ اس کا نقصان حکومت کی عام ورکنگ پر تو زیادہ نہیں پڑتا مگر جو کام آئین کے تحت صرف وزیر اعظم ہی انجام دے سکتا ہے، وہ رک جاتے ہیں۔
اور اگر اس دوران ملک کسی بیرونی جارحیت کا نشانہ بن جائے تو اس کا جواب دینے کے لئے افواج پاکستان کو احکامات دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔
خاص طور پر ایٹمی جارحیت کی صورت میں جوابی کاروائی کے فیصلے کے لئے صرف اڑھائی منٹ ہوتے ہیں۔ موجودہ آئین کے تحت یہ فیصلہ صرف وزیر اعظم ہی کر سکتا ہے۔
اگر لندن میں سرجری کے لئے بے ہوشی کے دوران ایسی ایمرجنسی آ جاتی تو پاکستان جارح ملک کے رحم و کرم پر ہوتا۔
جنرل غلام مصطفی نے یہ تجزیہ کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا ہے کہ فوری طور پر ، پہلی فرصت میں، مزید کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر، آئین میں وزیر اعظم کے قائم مقام کی شق ڈا ل لینی چاہئے تاکہ آئندہ ایٹمی کمان کے خلا کی نوبت نہ آنے پائے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں اس کے لئے کیا معمول ہے۔ میرا سوال تھا۔
جنرل صاحب نے کہا کہ ایک تو آج تک کسی چیف ایگزیکٹو نے بیرون ملک ایسی سرجری نہیں کروائی جس میں بے ہوش کیا جانا ضرور ی ہے۔ منموہن سنگھ کو دل کی تکلیف لاحق ہوئی تو وہ نئی دہلی میں سرکاری ہسپتال میں معائنے کے لئے گئے، دود ن تک ان کے ٹیسٹ ہوتے رہے، جن کی روسے فیصلہ کیا گیا کہ ا ن کی بائی پاس سرجری ضرور ی ہے،یہ بحث ضرور چلی کہ سٹنٹ ڈال کر کام چلایا جائے مگر آخری فیصلہ سرجری کے حق میں ہوا ۔
آپریشن سے ایک روز پیشتر وزیر اعظم منموہن سنگھ نے آئینی اختیارا ستعمال کرتے ہوئے وزیر خارجہ پرناب مکھر جی کو اپنے اختیارات سونپ دیئے، ان میں وزارت خزانہ کا قلم دان بھی تھا اور کابینہ کے اجلاسوں کی صدارت حتی کہ یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کے فرائض کی انجام دہی بھی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مکھر جی کے ہاتھ میں ایٹمی کمان بھی خود بخود چلی گئی۔
جنرل مصطفی کا یہ بھی کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کی سرجری ان کا ذاتی یا خاندانی مسئلہ نہیں تھا، اس کا تعلق وزیر اعظم کے منصب سے تھا اور وزیر اعظم بھی ایک ایٹمی ملک کا ،ا سلئے ان کی صحت کے بارے میں تمام معلومات ڈاکٹروں کے ذریعے جاری کی جانی ضروری تھیں۔جیساکہ من موہن سنگھ کے کیس میں ہوا، دنیا جانتی ہے کہ من موہن سنگھ کو ہفتہ24 جنوری2009 کی صبح سات بج کر پندرہ منٹ پر آپریشن کے لئے بے ہوش کیا گیا، خیال یہ تھا کہ یہ آپریشن سات آٹھ گھنٹے تک چلے گا،ا س لئے کہ یہ سیکنڈ بائی پاس تھا ، اس سے پہلے من موہن سنگھ برطانیہ سے ایک آپریشن کروا چکے تھے، سیکنڈ بائی پاس پر زیادہ وقت لگتا ہے۔ اس آپریشن کے لئے بھارت کے ممتاز سرجن پانڈا کو ممبئی سے بلایا گیا، انہوں نے دھڑکتے دل پر آپریشن کا آغاز کیا، یہ ایک غیر معمولی آپریشن تھا، جبکہ عام حالات میں مریض کے دوران خون کو مشینوں پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔آپریشن چودہ گھنٹے تک طوالت پکڑ گیا،اس لئے کہ نہ صرف پہلی دو نالیاں بھی بند ہو چکی تھیں بلکہ سینہ کھولنے پر پتہ چلا کہ مزید تین نالیاں بھی بند ہیں۔ڈاکٹر پانڈے نے منموہن سنگھ کو پانچ نئی نالیاں لگائیں۔ڈاکٹر پانڈے دل کے آپریشن کی اس قدر مہارت رکھتے ہیں کہ ایک مریض کے آٹھ بائی پاس بھی کر چکے ہیں اور یہ مریض معمول کی زندگی گزار رہا ہے۔
من موہن سنگھ کو چودہ گھنٹے کے آپریشن کے بعدشام آٹھ پچین پر آئی سی یو میں منتقل کیا گیا، ان کی صحت کی پہلی خبر ان کے میڈیا ایڈوائزر کی طرف سے جاری ہوئی۔ڈاکٹروں نے خبردار کیا تھا کہ چونکہ منموہن شوگر کے مریض ہیں، اس لئے مکمل صحت یابی کے لئے زیادہ وقت لیں گے۔یہ بھی بتایا گیا کہ انہیں تین سے چار روز تک آئی سی یو میں رکھا جائے گا، پھر چار پانچ روز ہسپتال میں گزارنے کے بعد انہیں گھر جانے کی اجازت دی جائے گی۔ لمحہ بہ لمحہ تمام ہیلتھ بلیٹن حکومت کی طرف سے جاری ہوئے جبکہ آپریشن کی کامیابی کا اعلان پرناپ مکھر جی نے کیا، خاندان کہیں بھی درمیان میں نہیں تھا اور عوام سے کچھ بھی چھپانے کی کوشش نہیں کی گئی۔
اصولی طور پر دہلی کے جس سرکاری ہسپتال میں وزیر اعظم کا آپریشن ہوا،ا س کاایک کمرہ ہفتے کے ساتوں روز چوبیس گھنٹے وزیر اعظم کے ہنگامی علاج کے لئے تیار رکھا جاتا ہے۔
جنرل مصطفی نے بتایا کہ بھارت کے بیشتر سیاستدانوں کو لاحق امراض کا ہر ایک کو علم ہے۔جارج فرنانڈیس کے دماغ سے ریشہ نکالنے کے لئے آپریشن کیا جاچکا ہے۔سونیا گاندھی کو دمے کے حملے کی وجہ سے ہسپتال داخل کیا گیا۔رام پلواس کی اینجیو پلاسٹی کی گئی،ارجن سنگھ کئی امراض میں مبتلا ہیں، ان کے مثانے میں پتھر ہیں، ان کے دل کی شریان بند ہے اور اوپر سے شوگر کا مرض بھی۔سوشما سوراج شوگرا ور بلڈ پریشر سے دوچار ہیں۔شرد پوار کینسر کا آپریشن کروا چکے ہین ، ا س مرض نے دوبارہ سرا ٹھایا اور نیا آپریشن ہوا، وہ بلڈ پریشر کے بھی مریض ہیں۔شیلا ڈکشت کا بھی بائی پاس ہو چکا ہے اور مانی شنکر آئر کو ایک معمولی ہارٹ اٹیک ہو ا تھا۔
جنرل مصطفی نے ریگن، کلنٹن ، اور اوبامہ کے امراض پر بھی بات کی، نکتہ یہ ہے کہ ان عالمی راہنماؤں کے بارے میں عوام کو ایک ایک تفصیل کا علم ہے اور دنیا بھی سب کچھ جانتی ہے مگر ہمارے وزیر اعظم کی بیماری اورا س کے علاج کی بھنک کسی کونہیں پڑنے دی گئی، اس میں کوئی خاندانی حکمت ہو گی مگر ا سکا نقصان ملک کی گورننس کو ہوا اور سیکورٹی کو بھی ہو سکتا تھا۔ اللہ نے ہمیں ا س سے محفوظ رکھا مگرآئندہ کے لئے اس کی پیش بندی کی جانی چاہئے۔
پاکستان کی ایٹمی کمان میں کہیں خلا نہیں چھوڑا جا سکتا، یہ قومی خود کشی کے مترادف ہے۔
اس مکالمے کو ختم کرنے سے پہلے میں ایک کالم کار کے فیس بک تبصرے کو نہیں بھول سکتا ، کالم کار نے لکھا تھا کہ انہوں نے لندنجا کرخود وزیر اعظم کے سینے ا ور ٹانگوں کے زخم دیکھے ہیں مگر بارہ میں سے چھ آدمی ان کی بات ماننے کو تیار نہیں، اس پر کسی دل جلے نے فقرہ کسا کہ گواہی کا معتبر ہونا ضروری ہے۔
کیا اس کے بعد بھی اس امر کی ضرورت نہیں تھی کہ ہسپتال کے ڈاکٹر ہیلتھ بیلٹن جاری کرتے ۔ان پر ہر کوئی اعتبار کرتا۔
ایک سنگین مسئلہ جس کی طرف جنرل مصطفی نے اشارہ کیا،ا س پر آپ سوچنے لگیں تو سر پیٹ کے رہ جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم خواہ کوئی بھی ہو،ا سکی بے ہوشی کی صورت میں پاکستان کے سرجن جنرل کا موجود رہنا ضروری ہے اور ایک ٹاپ سیکورٹی اہل کار کو بھی وہاں موجود رہنا چا ہئے ورنہ کسی بھی بیرونی ہسپتال میں وزیر اعظم کو وہ انجیکشن لگا یا جا سکتا ہے جو انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنے قیدیوں سے راز اگلوانے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ اس صورت میں ہمارے ایٹمی راز چوری کئے جا سکتے ہیں کیونکہ یہ وزیر اعظم کے حافظے میں محفوظ ہوتے ہیں۔
جنرل مصطفی کی یہ بھی تجویز ہے کہ وزیر اعظم کے علاج معالجے کی مکمل نگرانی ملکی ڈاکٹرز کو کرنی چاہئے تاکہ ہر دوا کو باقاعدہ اور مکمل طور پر چیک کر کے ہی وزیراعظم پر استعمال کیا جائے۔
لیفٹننٹ جنرل غلام مصطفی آرمی سٹریٹیجک فورسز کمانڈا دارے کے بانی سربراہ رہ چکے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا تجزیہ علمی اور قومی اہمیت کا حامل ہے ۔