خبرنامہ

ثاقب نثار کیخلاف الزامات پر ہلچل

ثاقب نثار کیخلاف الزامات پر ہلچل

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف الزامات پر ہلچل مچ گئی ‘قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا محمد شمیم کے انکشافات پر 22نومبر کوکمیٹی کا اجلاس بلالیاجس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ‘ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم‘سینئر صحافی انصار عباسی اور عامر غوری سمیت تمام متعلقہ افرادکو طلب کیاگیاہے جبکہ کمیٹی کے چیئرمین میاں جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ رانا شمیم کا بیان حلفی بہت اہم ہے ‘ کیا 20 سال بعد ہمارے ملک میں حقائق کو سامنے لایا جائے گا‘ملک کو آئین اور قانون کے تحت چلانا ہوگا۔ ادھرمسلم لیگ (ن) نے گلگت بلتستان کے سابق جج کا معاملہ سینیٹ میں اٹھا دیا جبکہ قومی اسمبلی میں بھی اس معاملے پر گرما گرمی ہوئی اور حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے پر الزام ترشیاں کیں‘ اپوزیشن جماعتوں نے گلگت بلتستان کے سابق جج کے انکشافات پر ایوان بالا سے علامتی واک آؤٹ کیا ۔تفصیلات کے مطابق پیر کے روز سینیٹ اجلاس کے د وران نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ چیف جج گلگت بلتستان کا بیان آیا ہے کہ کس طرح نواز شریف اور اس کی بیٹی مریم نوازکے مقدمات کو التوا میں ڈالنے کیلئے دبا ئو ڈالا گیا‘ہم اس پر کمیشن کا مطالبہ کرتے ہیں‘ سیاستدانوں کے خلاف کب تک یہ کھلواڑ ہوتے رہیں گے‘تین دفعہ کے منتخب وزیر اعظم کو انتخابات سے باہر رکھنے کیلئے ایک دفعہ پھر ان بیساکھیوں کا سہارا لیا گیا‘آخرکب تک اس طرح کے فیصلے لا کر سیاست کو کنٹرول کیا جائے گا اور عوام کے حق رائے دہی پر ڈاکہ ڈالا جائے گا۔ اس موقع پر سینیٹر اعجاز چوہدری نے کہاکہ جرائم پیشہ افراد اور سیاستدانوں میں فرق ہوتا ہے‘عدالت نے پہلی مرتبہ انہیں جھوٹا اور بددیانت قرار دیا جبکہ دوسری دفعہ قید کی سزا دی تھی‘ اس کے بعد وہ لیڈر قوم کو دھوکہ دیکر ملک سے باہر چلے گئے یہ کس طرح کے سیاستدان ہیں‘ان لیڈرز کے اکاؤنٹس سے جو رقم ملی ہے ان کا جواب بھی نہیں دے رہے‘ اتنے جھوٹے مکار اور بددیانت لوگوں کو اپنا لیڈر قرار دینے والوں کو شرم آنی چاہیے‘اس موقع پر قائد ایوان ڈاکٹروسیم شہزاد نے کہاکہ اپوزیشن اپنی بات کرکے ایوان سے بھاگ جاتی ہے‘حیرت ہوتی ہے جب ہم ان کے منہ سے عدلیہ کی بالا دستی کی بات سنتے ہیں‘ اپوزیشن کو چمک والی اور بریف کیس والی عدلیہ یاد ہے ‘اپوزیشن کو جسٹس قیوم یاد ہیں ان کے ساتھ اپوزیشن رہنماء کی باتیں تاریخ کا حصہ ہیں ‘جب چمک کام نہ کرے تو یہ سپریم کورٹ پر حملہ کردیتے ہیں۔دوسری جانب ایوان زیریں میں مسلم لیگ (ن ) کے رکن خواجہ محمد آصف نے وقفہ سوالات سے قبل نکتہ اعتراض پر سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان کے بیان حلفی کا معاملہ اٹھا دیا ۔ خواجہ آصف نے کہاکہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج نے جو معاملہ اٹھایا ہے کہ مریم نواز اور نوازشریف کی ضمانتوں کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے رکوایا، یہ ساری بات 2018 کے انتخابات پر سوالیہ نشان ہے،ان کو ایسے جرائم میں سزائیں سنائی گئیں جو ہوہے ہی نہیں تھے۔ یہ سلسلہ کب تک جاری رہیگا۔اگر آئینی اداروں میں دراڑیں آجائیں گی تو بہت نقصان ہوگا۔صرف سیاستدان اقتدار کے لئے ایک دوسرے کو ذبح کرتے ہیں باقی تحفظ دیتے ہیں،چوردروازوں سے اقتدار میں آنا بند کریں۔ جے یو آئی کے مولانا اسعد محمود نے کہا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں کہ ججز کا ضمیر جاگ رہا ہے‘حکومت ایسے بات کررہی ہے جیسے یہ واقعی عوام کے مینڈیٹ سے آئی ہو،مجھے سمجھ نہیں آتی کہ انیس نومبر سے پہلے پہلے مشترکہ اجلاس سے قانون سازی کیوں کرنا ضروری ہے‘ہم تو حکمران پارٹی کو سیاستدان مانتے ہی نہیں ، مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ خواجہ آصف نے عدالت میں زیر سماعت مقدمہ پر بات کرکے آئین کی خلاف ورزی کی ہے‘عدلیہ کے بارے میں جوجو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ حذف کئے جائیں۔