خبرنامہ

حکومت اپوزیشن کا آج امتحان، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے قانون سازی، حکومت کو صرف 2 ووٹوں کی برتری، فریقین کا جوڑ توڑ

حکومت اپوزیشن کا آج امتحان، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے قانون سازی، حکومت کو صرف 2 ووٹوں کی برتری، فریقین کا جوڑ توڑ

حکومت اور اپوزیشن کا آج امتحان ‘صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس آج (بدھ کو ) دن 12 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں طلب کیا ہےجس میں انتخابی اصلاحات ‘کلبھوشن یادیو ‘ عالمی عدالت انصاف سمیت دیگر بلز قانون سازی کیلئے پیش کئے جائیں گے ۔

اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن نے جوڑتوڑ شروع کردیاہے ‘ مشترکہ ایوان میں حکومت کو صرف دو ووٹوں کی برتری حاصل ہے ‘ 440کے مشترکہ ایوان میں حکمران اتحاد کے پاس 221جبکہ اپوزیشن کو 219ارکان کی حمایت حاصل ہے‘

وزیراعظم عمران خان نے اپنے اوراتحادی ارکان سے ملاقاتیں کی ہیں جس میں ممبرزکو ترقیاتی فنڈزدینے پر تبادلہ خیال کیاگیا‘حکومت نے ایم کیوایم پاکستان کے تحفظات بھی دور کردیئے جس کے بعدایم کیو ایم نےپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے ‘

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ انتخابی اصلاحات پی ٹی آئی اور عمران خان کا ذاتی نہیں، قومی ایجنڈا ہے‘الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق بل پارلیمنٹ سے منظور ہوجائے گاجبکہ وفاقی وزیر اعظم سواتی نے دعویٰ کیا ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کو شکست ہوگی۔ ادھر متحدہ اپوزیشن نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے ملاقات کے دوران مشترکہ اجلاس بلانے پر تحفظات کا اظہارکیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق انتخابی اصلاحات اوربیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے پربلوں کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس آج ہوگا،تمام اتحادیوں نے حکومت کی حمایت کرنے کی حامی بھر لی‘اپوزیشن نے قوانین پاس ہونے کی صورت میں عدالت عظمیٰ جانے کے لیے ہوم ورک شروع کر دیا ہے‘عمران خان نے اتحادیوں سے ایک بار پھر ملاقاتیں کر کے انکے تحفظات دور کر دیئے ہیں

جی ڈی اے ‘مسلم لیگ ق ‘ایم کیوایم اور بلوچستان عوامی پارٹی نے قانون سازی کے لیے حمایت کرنے کی حامی بھر لی ہے‘تحریک انصاف نے فیصلہ کیا ہے کہ مشترکہ اجلاس سے قبل وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس ہوگا جس میں تمام ارکان اسمبلی اور سینٹرز شرکت کریں گے ‘

دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھی اہم ٹاسک مل گیا ہے کہ وہ پنجاب کے تمام ارکان اسمبلی سے ملاقات کر کے انکے حلقوں سے متعلق تحفظات دور کریں گے اوراس حوالہ سے پنجا ب ہائوس میں گہما گہمی شروع ہو چکی ہے ۔

دوسری جانب ق لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا کا کہناہے کہ مشترکہ سیشن میں شرکت کیلئے کوئی ہدایت نہیں ملی‘ فواد چودھری اور شیخ رشید کی بات پر کیسے یقین کر لیں؟ حکومت نے کسی بھی وعدے پر عمل نہیں کیا، آئندہ کےلائحہ عمل کا حتمی فیصلہ پرویز الٰہی کریں گے۔

ادھر قومی اسمبلی کے اسپیکر اسدقیصر سے متحدہ اپوزیشن کے وفد نے ملاقات کی‘ وفد میں رانا ثنااللہ، خورشید شاہ اور شیری رحمان اور سمیت دیگر شامل تھے۔

اپوزیشن ارکان نے موقف اختیار کیا کہ آپ نے اپوزیشن کو ای وی ایم اور دیگر متنازع قانون سازی پرمذاکرات کی دعوت دی، اپوزیشن نے آپ کے خط پر مشاورت پر رضامندی ظاہر کی لیکن اب حکومت مشترکہ اجلاس بلا رہی ہے۔اس پر اسد قیصر کا کہنا تھاکہ میں وزرا کو بلاکر ابھی بات کرتا ہوں، اتفاق رائے سے قانون سازی ہوتی تو بہتر تھا۔

دریں اثناءمیڈیا سے گفتگو میں اعظم سواتی نے کہاہے کہ مشترکہ اجلاس میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ اصلاحات کا مقصد الیکشن کمیشن کو خودمختار بنانا ہے، الیکشن کمیشن کا کردار امپائر کا ہے۔انہوں نے دعویٰ سے کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کو شکست ہوگی۔

قانون سازی کے لیے الیکشن کمیشن کی منظوری ضروری نہیں۔وفاقی وزیرانفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے کہا کہ ہم قانون سازی میں حکومت کے ساتھ ہوں گے جبکہ پی ٹی آئی اور حکومتی اتحادی مردم شماری اور حیدر آبادمیں یونیورسٹی کے قیام کے حوالے سے ہمارے مطالبے کی حمایت کریں گے، ای وی ایم کے بل سمیت دیگر پر ایم کیو ایم حکومت کی حمایت کرے گی۔

دریں اثناءمنگل کو الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتےہوئے فواد چوہدری کا کہناتھاکہ انتخابی اصلاحات پی ٹی آئی اور عمران خان کا ذاتی نہیں، قومی ایجنڈا ہے، ہر الیکشن میں ہم اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں، جب اصلاحات کی طرف جاتے ہیں تو اپوزیشن شور مچانا شروع کر دیتی ہے، پارلیمان کا مشترکہ اجلاس آج طلب کرلیا گیا ہے، ہم یہ بل پارلیمان سے منظور کروا رہے ہیں‘اپوزیشن آج کے اجلاس میں ہمارے ساتھ بیٹھے، ان اصلاحات پر کھلے دل سے غور کرے، اپوزیشن کو جو ترامیم چاہئیں وہ لے آئے، اس پر بحث کرلیتے ہیں۔

تمام اتحادیوں نے وزیراعظم کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے، ہم کھلے دل کے ساتھ آگے بڑھنے کو تیار ہیں۔ انتخابات‘جوڈیشری‘میڈیا اور سیاسی نظام میں اصلاحات لازمی ہونی چاہئیں، ہم ان پر مل جل کر آگے بڑھنے کو تیار ہیں