خبرنامہ

سپریم کورٹ: حسین حقانی کو وطن واپس لانے کیلئے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو امریکا میں رہائش پذیر پاکستان کے سابق سفیرحسین حقانی کو وطن واپس لانے کے لیے ضروری اقدامات اورانتظامات کرنے کی ہدایت کردی۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے از خود نوٹس کی سماعت کی جس میں ایف آئی اے کے وکیل ایڈووکیٹ بلال صوفی کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ باہمی قانونی معاونت (ایم ایل اے) کے سمجھوتے کے بغیر حسین حقانی کو وطن واپس لانے کی تمام ترکوششیں بے ثمر ثابت ہوں گی۔

ایف آئی اے کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں کوئی قانون موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے ایف آئی کے پاس امریکا سے مجرم کی حوالگی کا اختیار نہیں۔

خیال رہے کہ اعلیٰ عدالت نے میمو گیٹ اسکینڈل کے حسین حقانی کو وطن واپس لانےکے احکامات دیے تھے، جس کی تعمیل کے لیے رواں برس فروری میں ازخود نوٹس لیا گیا تھا اور حکومت کو عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔

گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ ایک شخص جو اعلیٰ عدالت میں پیش ہو چکا تھا اس کی جانب سے اس بات کا حلف نامہ جمع کرائے جانے پر کہ وہ طلبی کے نوٹس پر واپس آجائے گا، باہر جانے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن اب جب اسے طلب کیا گیا تو انہوں نے آنے سے انکار کردیا۔

اس حوالے سے ایڈووکیٹ بلال صوفی کا کہنا تھا کہ باہمی قانونی معاونت کی غیر موجودگی میں ایف آئی اے حسین حقانی کے خلاف کوئی ثبوت اکھٹا نہیں کرسکتی، جس پر چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کیا کہ گزشتہ کئی ماہ سے اس مقدمے کی سماعت جاری ہے اور ادارہ اب تک کوئی قانون تشکیل نہیں دے سکا۔

سماعت کے دوران وکیل نے بغیرکسی فیس کے قانون کی تشکیل میں معاونت کی پیشکش کی جس کےتحت ایف آئی کو خصوصی اختیارات حاصل ہوجائیں گے۔

واضح رہے کہ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا۔

یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو مسدود کرنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک پراسرار میمو بھیجا تھا۔

اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔

جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو لکھنے کا مقصد پاکستان کی سویلین حکومت کو امریکا کا دوست ظاہر کرنا تھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایٹمی پھیلاؤ روکنے کا کام صرف سویلین حکومت ہی کر سکتی ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے رواں برس 2 فروری کو امریکا میں مقیم سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے حوالے سے متنازع میمو گیٹ کیس کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کرتے ہوئے تین رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔

اس سے قبل سماعت میں چیف جسٹس نے میمو گیٹ اسکینڈل میں سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری خارجہ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کی طلبی کا حکم دیتے ہوئے حسین حقانی کو وطن واپس لانے کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے آگاہ کرنے کا کہا تھا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے تھے کہ حسین حقانی نے عدالت سے کیے گئے وعدے کی خلاف ورزی کی ہے۔