خبرنامہ

وزیراعظم محمد نوازشریف کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71 ویں اجلاس سے خطاب

سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر حل اور کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلانے کا وعدہ پورا کرے، مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت ہلاکتوں کی تحقیقات کے لئے آزادانہ انکوائری اور اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض افواج کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کی تحقیقات کرائی جائیں اور ان مظالم میں ملوث لوگوں کو سزا دی جائے، تمام کشمیری سیاسی قیدیوں کو فوری رہا، کرفیو کا خاتمہ، کشمیریوں کو پرامن احتجاج کے لئے آزادی، زخمیوں کے لئے فوری طبی امداد کی فراہمی اور بھارت کے کالے قوانین کو منسوخ کیا جائے، بھارت کو ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی پیشکش کرتے ہیں، ذمہ دار جوہری طاقت کی حیثیت سے کم از کم صلاحیت برقرار رکھیں گے، تمام عالمی معیارات کے مطابق نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کے اہل ہیں، افغانستان میں پیش رفت اس وقت یقینی ہو گی جب افغان فریقین خود اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ افغان جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، افغان امن عمل کی حمایت جاری رکھیں گے، بیرونی سرپرستی میں دہشت گردی اور پاکستان میں خلفشار پیدا کرنے کیلئے عدم استحکام کی دھمکیوں کی اجازت نہیں دینگے، ہمارے لاکھوں شہری اور ہزاروں سیکورٹی اہلکار دہشت گردی کے حملوں میں جاں بحق یا زخمی ہو چکے ہیں، آپریشن ضرب عضب، قانون کے نفاذ اور ٹارگٹڈ ملٹری آپریشنز کی ہماری جامع حکمت عملی کے شاندار نتائج برآمد ہوئے ہیں
وزیراعظم محمد نوازشریف کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71 ویں اجلاس سے خطاب
نیویارک ۔ 21 ستمبر (اے پی پی) وزیراعظم محمد نوازشریف نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل اور کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دینے کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت ہلاکتوں کی تحقیقات کے لئے آزادانہ انکوائری اور اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض افواج کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کی تحقیقات اور ان مظالم میں ملوث لوگوں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام کشمیری سیاسی قیدیوں کو فوری رہا، کرفیو کا خاتمہ، کشمیریوں کو پرامن احتجاج کے لئے آزادی، زخمیوں کے لئے فوری طبی امداد کی فراہمی اور بھارت کے کالے قوانین کو منسوخ کیا جائے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار بدھ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71 ویں اجلاس میں اپنے اہم خطاب میں کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں محاذ آرائی ہمارا مقدر نہیں ہونا چاہئے، پاکستان بھارت کے ساتھ امن چاہتا ہے۔ ہم نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھ کر بارہا بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی تاکہ تمام تصفیہ طلب مسائل کو حل کیا جاسکے تاہم بھارت نے بات چیت کے لئے ناقابل قبول پیشگی شرائط عائد کیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ مذاکرات صرف پاکستان کے لئے فائدہ مند نہیں بلکہ مذاکرات دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں۔ مذاکرات ہمارے اختلافات طے کرنے، بالخصوص جموں و کشمیر کے تنازعے کے حل اور تناؤ کے خطرے کو روکنے کے لئے ناگزیر ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن اور معمول کے تعلقات تنازعہ کشمیر کے حل کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ یہ ایک حقیقت پسندانہ سوچ ہے نہ کہ جانبدارانہ موقف۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت کے مطالبے کی مکمل طور پر حمایت کرتا ہے جس کا وعدہ ان سے سلامتی کونسل نے اپنی کئی قراردادوں میں کیا ہے۔ ناجائز بیرونی تسلط کے خلاف ان کی آزادی کی جدوجہد جائز ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے حق خودارادیت کے بارے میں اعلامیے کشمیری عوام کو اپنی آزادی کے لئے جدوجہد کا حق دیتے ہیں‘ ہر سال جنرل اسمبلی اتفاق رائے سے قرارداد پاس کرتی ہے جس میں تمام لوگوں کے لئے حق خودارادیت کا اعادہ کیا جاتا ہے اور متعلقہ ریاستوں پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنا قبضہ ختم کرکے ہر قسم کے مظالم بند کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور معمول کے تعلقات مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر ممکن نہیں، حالیہ واقعات نے اس بارے میں ہمارے خدشات پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی نئی نسل بھارت کے ناجائز تسلط کے خلاف خود اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور وہ بھارتی قبضے سے آزادی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہید ہونے والے نوجوان رہنما برہان وانی کشمیر کی نئی انتفادہ کی علامت بن کر ابھرے ہیں، مقبول اور پرامن جدوجہد آزادی کی قیادت نوجوان اور بزرگ‘ مرد اور خواتین کشمیری کر رہے ہیں اور وہ اپنے نصب العین کے ساتھ غیر متزلزل یقین کے ساتھ لیس ہیں اور ان کے دلوں میں آزادی کی تڑپ موجزن ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کشمیریوں کی موجودہ جدوجہد آزادی کو حسب معمول پانچ لاکھ سے زائد قابض بھارتی افواج نے اپنے وحشیانہ مظالم کے ذریعے دبانے کی کوشش کی ہے۔ ایک سو سے زائد کشمیریوں کو شہید جبکہ کمسن بچوں سمیت سیکڑوں افراد کو پیلٹ گنوں کے ذریعے نشانہ بنا کر انہیں بینائی سے محروم کردیا گیا، گزشتہ دو ماہ کے دوران 6ہزار سے زائد غیر مسلح شہریوں کو زخمی کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے یہ مظالم دستاویزی شکل میں موجود ہیں، میں جنرل اسمبلی کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان سیکرٹری جنرل کے ساتھ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں ہونے والی انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کے بارے میں تفصیلی معلومات اور ثبوتوں پر مبنی ڈوزیئر شیئر کرے گا۔ وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ یہ مظالم کشمیریوں کے جذبے کو نہیں دبا سکتے بلکہ اس کے نتیجے میں کشمیر سے بھارتی تسلط کے خاتمے کے لئے ان کا غصہ شدید اور عزم مزید مضبوط ہوگا۔ سری نگر سے سوپور تک مرد‘ خواتین اور بچے ہر روز باہر نکل کر کرفیو کی خلاف ورزی کرکے آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت کے مطالبے کی مکمل طور پر حمایت کرتا ہے جس کا وعدہ ان سے سلامتی کونسل نے اپنی کئی قراردادوں میں کیا ہے۔ ناجائز بیرونی تسلط کے خلاف ان کی آزادی کی جدوجہد جائز ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے حق خودارادیت کے بارے میں اعلامیے کشمیری عوام کو اپنی آزادی کے لئے جدوجہد کا حق دیتے ہیں‘ ہر سال جنرل اسمبلی اتفاق رائے سے قرارداد پاس کرتی ہے جس میں تمام لوگوں کے لئے حق خودارادیت کا اعادہ کیا جاتا ہے اور متعلقہ ریاستوں پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنا قبضہ ختم کرکے ہر قسم کے مظالم بند کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ قتل، زخمی اور بینائی سے محروم کئے جانے والے ان معصوم کشمیری بچوں، عورتوں اور مردوں کے والدین، بیویوں، بہنوں اور کشمیری عوام کی طرف سے اور پاکستانی قوم کی طرف سے ان ماورائے عدالت ہلاکتوں کی تحقیقات کے لئے آزادانہ انکوائری کا مطالبہ کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کا فیکٹ فائنڈنگ مشن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض افواج کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کی تحقیقات کرے تاکہ ان مظالم میں ملوث لوگوں کو سزا دی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام کشمیری سیاسی نظربندوں کی فوری رہائی، کرفیو کے خاتمے اور کشمیریوں کو پرامن احتجاج کے لئے آزادی، زخمیوں کے لئے فوری طبی امداد کی فراہمی، بھارت کے کالے قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ سلامتی کونسل نے اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزاد اور شفاف رائے شماری کے ذریعے جموں و کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت دینے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ کشمیری عوام نے اس وعدے پر عملدرآمد کے لئے 70 سال انتظار کیا‘ سلامتی کونسل کو اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کر کے اپنے وعدوں کا احترام کرنا چاہئے۔ اس جنرل اسمبلی کو یہ مطالبہ ضرور کرنا چاہئے کہ بھارت کئی مواقع پر اس کے رہنماؤں کی طرف سے کئے جانے والے ان وعدوں کی پاسداری کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کیلئے اقوام متحدہ کو جموں و کشمیر کو ڈی ملٹرائز کرنے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لئے بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام کے حقیقی نمائندوں کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ شروع کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں ہم اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی جانب سے پیشکش کا خیر مقدم کریں گے۔ ہم بھی کشمیر کے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کا طریقہ کار طے کرنے کے لئے سلامتی کونسل کے اراکین کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ شروع کریں گے۔ وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ بین الاقوامی برادری اپنی وجوہات کی بناء پر جنوبی ایشیا میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے خطرے کو نظر انداز کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے طور پر خطے میں سٹریٹجک استحکام قائم کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ ہم بھارت کے ساتھ نہ تو ہتھیاروں کی دوڑ چاہتے ہیں اور نہ ہی اس میں شامل ہیں تاہم ہم اپنے پڑوسی کی طرف سے بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کے ذخیرے کو بڑھانے کو نظر انداز نہیں کر سکتے اور ہم کم از کم ڈیٹرنس برقرار رکھنے کے لئے تمام تر ضروری اقدامات کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ ٹکراؤ سے اجتناب اور بے جا فوجی اخراجات سے گریز کیلئے پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی طور پر ہتھیاروں کے کنٹرول اور تخفیف اسلحہ کے اقدامات طے کرنے کیلئے زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ کسی بھی فورم پر یا کسی بھی شکل میں اور کسی بھی شرائط کے بغیر ضبط و تحمل اور ذمہ داری کے تمام اقدامات پر بات چیت کیلئے تیار ہیں، ہم جوہری تجربات پر پابندی کے دوطرفہ معاہدہ پر متفق ہونے کیلئے بات چیت کیلئے تیار ہیں، آج اس روسٹرم سے میں تمام دیرینہ تنازعات بالخصوص جموں و کشمیر کے تنازعہ کے پرامن حل کیلئے سنجیدہ اور پائیدار مذاکرات کیلئے بھارت کو اپنی پیشکش کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں۔ وزیراعظم نوازشریف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جوہری ہتھیار سے لیس ایک ذمہ دار ریاست کی حیثیت سے پاکستان تخفیف اسلحہ اور ایٹمی عدم پھیلاؤ کے چیلنجوں کے شفاف اور منصفانہ حل کے فروغ کیلئے کی جانے والی تمام بین الاقوامی کوششوں کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے جوہری مواد اور سہولیات کی حفاظت اور سلامتی کو مستحکم بنانے کیلئے جدید ترین اقدامات متعارف کرائے ہیں، ہم نے ایک جدید برآمدی کنٹرول نظام اختیار کیا ہے جو بین الاقوامی معیارات پر ہر لحاظ سے پورا اترتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان معروضی معیار کی بنیاد پر پرکھ اور کسی امتیاز کے بغیر نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کیلئے مکمل طور پر اہل ہے۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اقتصادی ترقی کی ہماری ترجیحی منزل داخلی امن و استحکام کا تقاضا کرتی ہے۔ میرا ملک دہشت گردی کا بنیادی شکار رہا ہے جس میں باہر سے کی جانے والی حمایت، سرپرستی اور سرمایہ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم بیرونی سرپرستی میں دہشت گردی اور پاکستان میں خلفشار پیدا کرنے کیلئے عدم استحکام کی دھمکیوں کی اجازت نہیں دینگے۔ ہمارے لاکھوں شہری اور ہزاروں سیکورٹی اہلکار دہشت گردی کے حملوں میں جاں بحق یا زخمی ہو چکے ہیں۔ اس سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے ہمارے عزم کو ازسرنو تقویت ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے نفاذ اور ٹارگٹڈ ملٹری آپریشنز کی ہماری جامع حکمت عملی کے شاندار نتائج برآمد ہوئے ہیں اور اس سے پاکستان دہشت گردی کیخلاف کامیابی سے نبردآزما ہوا ہے۔ آپر یشن ضرب عضب کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے دو لاکھ سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کے ساتھ یہ دنیا میں کسی بھی جگہ دہشت گردی کیخلاف سب سے بڑی، مضبوط اور کامیاب مہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے جامع نیشنل ایکشن پلان کو ہمارے عوام اور ہماری پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ ہماری سیکورٹی فورسز کی مکمل تائید اور حمایت حاصل ہے اور ان سب نے دہشت گردی کو شکست دینے کیلئے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اب ایک عالمی مظہر ہے جس پر ریاستی دہشت گردی سمیت ہر شکل میں جامع انداز میں توجہ دی جانی چاہئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو اس ضمن میں اپنی کاوشوں کو ہم آہنگ کرنا چاہئے۔ یہ کوششیں بعض ممالک کیخلاف ہدف بنا کر ماوراء علاقائی اطلاق کے ساتھ کسی قسم کے قوانین کی منظوری سے یکطرفہ نہیں بلکہ اجتماعی طور پر کی جانی چاہئیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے اس امر پر زور دیا کہ ہم دہشت گردی اور پرتشدد انتہا پسندی کیخلاف جنگ میں اس وقت تک سرخرو نہیں ہونگے جب تک کہ ہم اس کے بنیادی اسباب کو دور نہیں کرتے۔ یہ غربت اور جہالت، سیاسی و سماجی ناانصافی اور جبرواستبداد، غیر ملکی مداخلت اور تسلط اور لوگوں و اقوام کو جائز حقوق بالخصوص حق خودارادیت سے محرومی میں پوشیدہ ہیں۔ جب تک ان بنیادی اسباب پر توجہ نہیں دی جاتی پرتشدد انتہا پسندی اور دہشت گردی کے پیچیدہ بیانیے کا انسداد کرنا مشکل ہو گا۔ وزیراعظم نے علاقائی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں حالیہ جنگ کے 15 سالوں کے بعد بین الاقوامی برادری اتفاق کرتی ہے کہ اس ملک میں پائیدار امن کا واحد راستہ کابل میں حکومت اور افغان طالبان کے درمیان بات چیت کے ذریعے ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں عشروں پرانے تنازعہ اور مصائب کے خاتمے کیلئے نہایت قابل عمل راستہ تجویز کیا ہوا ہے۔ اس یقین کی بنیاد پر مذاکراتی عمل اور صدر اشرف غنی کی درخواستوں کے جواب میں ہم افغانستان میں مصالحت کے عمل میں سہولت دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ دھچکے لگے ہیں تاہم امن کی راہ کو چھوڑنے اور افغانستان میں استحکام کیلئے فوجی آپریشن جو گزشتہ 15 سال سے ناکام رہا ہے، پر انحصار کرنے کیلئے یہ کافی وجہ نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پیش رفت اس وقت یقینی ہو گی جب افغان فریقین خود اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ افغان جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور ملک میں مفاہمت اور امن کیلئے بامقصد بات چیت کے عمل کے ذریعے سرتوڑ کوشش کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں تنازعہ اور بدامنی کی ساڑھے تین دہائیوں سے زائد کے عرصے نے پاکستان پر سنگین سیکورٹی اور اقتصادی اثرات مرتب کئے ہیں۔ تقریباً 30 لاکھ افغان مہاجرین جن کیلئے ہم نے اپنے گھر بار اور دلوں کو کشادہ کیا، ابھی تک پاکستان میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان کی رضا کارانہ اور باعزت افغانستان واپسی دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا بین الاقوامی برادری کو اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں سرد جنگ کے خاتمے اور اس کے بعد کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج سرد جنگ کے خاتمے کی تین دہائیوں بعد ہماری کثیر القطبی دنیا زیادہ آزاد اور متحرک ہے لیکن پھر بھی منتشر اور پرآشوب، باہمی طور پر زیادہ منحصر لیکن زیادہ غیر مساوی، زیادہ خوشحال لیکن ابھی بھی غربت میں مبتلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں شاندار ترقی دکھائی دیتی ہے لیکن انسانی مصائب بھی غیر معمولی ہیں، دنیا اتار چڑھاؤ کے تاریخی نکتہ پر ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والا بین الاقوامی نظام دم توڑ رہا ہے لیکن نئے نظام کا ظہور ابھی ہونا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلہ زیادہ دوبدو ہو رہا ہے، یہ پورے ایشیا کے امن کیلئے سنگین خطرات کا حامل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک نئی سرد جنگ کے یورپ کو لپیٹ میں لینے کا خطرہ ہے۔ ’’عظیم تر یونین‘‘ کے حوالے سے تحریک پیچھے کی طرف مڑ چکی ہے۔ بالخصوص مشرق وسطیٰ کے خلفشار سے پیدا ہونے والی درد ناک لہر کیخلاف رکاوٹیں اور دیواریں اونچی ہو رہی ہیں۔ کئی ممالک میں عدم برداشت نے نفرت انگیز رویئے اور اسلام فوبیا کے عفریت کا احیاء کیا ہے۔ خطے کی صورتحال بالخصوص مشرق وسطیٰ کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں خلفشار شدت اختیار کررہا ہے لہٰذا داعش کو شکست دینے کیلئے بین الاقوامی کوششوں کی فوری ضرورت ہے۔ اس کیلئے علاقائی اور بیرونی طاقتوں کے مختلف النوع مقاصد اور ترجیحات کو ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ناانصافی کے غلبے میں امن کو استوار نہیں کیا جا سکتا۔ فلسطین کا دیرینہ المیہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے پرعزم اقدام کا تقاضا کرتا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے عالمی معاشی صورتحال اور موجودہ حکومت کے معیشت کے شعبے میں موثر اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مضبوط نمو کی دہائیوں کے بعد عالمی معیشت بلند سطح پر ٹھہراؤ کی کیفیت میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کے بین الاقوامی اقتصادی ماحول کے باوجود موجودہ حکومت نے 3 سال کے عرصے میں ملک کو مضبوط نمو کی طرف حرکت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے 2030ء ترقیاتی ایجنڈے کو اپنی سماجی اور اقتصادی حکمت عملی میں مکمل طور پر ہم آہنگ کیا ہے۔ یہ ہمارا یقین ہے کہ عوام ہماری قوم کا حقیقی اثاثہ ہیں اور یہ انسانی ترقی ہی ہے جو ہمارے مستقبل کے مقدر کا تعین کرے گی۔ عالمی امن، استحکام اور ترقی میں اقوام متحدہ کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہماری پرآشوب اور ایک دوسرے پر انحصار کرنے والی دنیا میں اقوام متحدہ عالمی امن، استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنانے اور امن کو بحال کرنے کیلئے ایک ناگزیر ادارہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے اصول بین الاقوامی قانون کے حوالے سے اہم ستون، رکن ممالک کے طرز عمل کیلئے رہنما اصول اور تمام اقوام اور عوام کے جائز حقوق کے ضامن ہیں۔ امن، خوشحالی اور آزادی کے فروغ کیلئے اقوام متحدہ کو مرکز و محور کی حیثیت سے اپنی ساکھ کو بحال کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کیلئے اسے زیادہ نمائندہ، شفاف اور جوابدہ بننا چاہئے۔ سلامتی کونسل کی جامع اور جمہوری اصلاحات جس کی پاکستان حمایت کرتا ہے، سے اس کی مطابقت اور نمائندگی میں اضافہ ہونا چاہئے۔ استحقاق کے نئے مراکز کی تشکیل اس کے برعکس کارفرما ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی اقوام متحدہ سے غیر متزلزل وابستگی مسلمہ ہے، ہم نے اقوام متحدہ کے امن مشنز میں ہر اول دستے کے طور پر مسلسل اپنا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی سلامتی کے تقاضوں کے باوجود ہم اقوام متحدہ کیلئے دستے فراہم کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں شامل رہیں گے اور اقوام متحدہ کی کثیر الجہتی امن سرگرمیوں میں کامیابی کا اپنا ریکارڈ برقرار رکھیں گے۔ اپنے خطاب کے اختتام پر وزیراعظم نے اس امر پر زور دیا کہ تنازعات کے خاتمے، امن کے فروغ، دہشت گردی کے خلاف جنگ، جمہوریت کے استحکام، انسانی حقوق کے فروغ، عالمی ترقی میں اضافے اور ماحولیاتی انحطاط کے چیلنجوں پر قابو پانے کیلئے پاکستان ایک اہم حصہ دار ہے۔ ہم صرف اقوام متحدہ کے ذریعے اور اس چارٹر کے اصولوں پر سختی سے کاربند رہ کر ہی ان اہداف کو حاصل کر سکتے ہیں اور ایک نیا اور پرامن عالمی نظام تخلیق کر سکتے ہیں۔