خبرنامہ

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحا ق ڈار کی بجٹ تقریر کا مکمل متن

اسلام آباد (ملت آن لائن،اے پی پی) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحا ق ڈار نے جمعہ کو آئندہ مالی سال 2017-18 کیلئے وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ ان کی بجٹ تقریر کا متن درج ذیل ہے
جناب اسپیکر!
1۔ میں آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا مسلسل پانچواں بجٹ پیش کر رہا ہوں۔
جناب اسپیکر!
2۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب وزیراعظم اور وزیرخزانہ مسلسل پانچواں بجٹ پیش کر رہے ہیں۔ یہ چیز مضبوط جمہوریت کی عکاسی کرتی ہے جس پر پوری قوم فخر کر سکتی ہے۔ میں بڑی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھ ناچیز کو یہ موقع دیا۔
3۔ اگلے مالی سال کے بجٹ کی تفصیلات بتانے سے پہلے میں مختصر طور پر پچھلے چار سال میں طے کیے گئے فاصلے کا احوال بتانا چاہتا ہوں، اگر میں کہوں کہ جون 2013ء میں پاکستان اپنی مالی ادائیگیوں پر Defaultکرنے کے قریب تھا تو یہ ایک حقیقت تھی۔ ہمارے Forex Reservesدو ہفتے کی درآمدات کے برابر اور تاریخ کی کم ترین سطح پر تھے۔ بڑی ادائیگیاں واجب الادا تھیں اور کمرشل بینک تو کیا Multilateral Development Banksبھی پاکستان کے ساتھ کام کرنے سے گریزاں تھے۔ اس سال FBRکی ٹیکس وصولیوں میں اضافے کی شرح 3.38فیصد تھی جبکہ اخراجات بہت زیادہ تھے۔ نتیجے میںFiscal Deficitآٹھ فیصد سے تجاوز کر چکا تھا۔ توانائی کا بحران حد سے زیادہ تھا۔ شہروں میں 12سے 14گھنٹے اور دیہات میں 16سے 18گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی۔ نوشتہ دیوار اس بات سے بالکل واضح تھا کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی معیشت کو Macroeconomicاعتبار سے Unstableقرار دیا جا چکا تھا۔
4۔ آج پاکستان تیز تر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس سال ہماری جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح 5.3فیصد ہے جو کہ پچھلے دس سال میں ترقی کی بلند ترین شرح ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر مناسب سطح پر ہیں جو کہ چار ماہ کی درآمدات کے لئے کافی ہیں۔ گزشتہ چار سال کے دوران ٹیکس وصولوں میں 81فیصد اضافہ ہوا ہے جو اوسطاً 20فیصد سالانہ اضافہ ہے۔ 2013ء سے اب تک پرائیویٹ سیکٹر کو قرضے کی فراہمی میں پانچ گنا سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ Fiscal Deficitتقریباً 4.2فیصد ہو گا۔ اس سال مشینری کی درآمد میں 40فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ گیس کی فراہمی بہتر ہوئی ہے اور صنعت کے لئے لوڈشیڈنگ مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے جبکہ تجارتی اور گھریلو صارفین کے لئے لوڈشیڈنگ میں واضح کمی آئی ہے۔ انشاء اللہ آئندہ سال لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کا سال ہو گا۔
5۔ نوشتہ دیوار آج بھی واضح ہے۔ صرف پیغام تبدیل ہوا ہے ۔ آج House Coopers
Price Waterجیسے معتبر عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان 2030ء تک دنیا کی 20بڑی اقتصادی طاقتوں (G-20) میں شامل ہو جائے گا۔ پوری قوم اس متاثر کن تبدیلی کے کریڈٹ کی مستحق ہے اور میں اس Turnaroundپر اللہ تعالیٰ کا بے پناہ مشکور ہوں جس کی مدد کے بغیر 4سال کے قلیل عرصہ میں یہ ناممکن تھا۔
جناب اسپیکر!
6۔ میں اس معزز ایوان، وزیراعظم محمد نواز شریف اور پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ایک طویل عرصے کے بعد اس سال حکومت پاکستان نے پہلی بار صرف قومی ترقی کے لئے قرضے لئے ہیں۔ پہلے ہم نہ صرف ترقیاتی ضروریات بلکہ غیرترقیاتی اخراجات کے لئے بھی قرض لیتے تھے۔ یہ قرضے ہمیں معاشی تنزلی کی طرف لے جا رہے تھے جہاں ہمیں روزمرہ اخراجات پورے کرنے کے لئے ادھار لینا پڑتا تھا اور ان قرضوں پر منافع کی ادائیگی میں بجٹ کا خطیر حصہ خرچ کرنا پڑتا تھا۔ یہ تبدیلی اچھے مالیاتی انتظام، محاصل بڑھانے پر مستقل توجہ دینے اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرنے سے حاصل ہوئی ہے۔ یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں، کسی بھی حکومت یا ادارے کے لئے ترقیاتی مقاصد کے لئے قرض لینے میں کوئی عار نہیں کیونکہ اس کے سماجی اور معاشی فوائد اس پر دئیے جانے والے Mark-Upسے زیادہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اور ملک کے بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری سے تیز تر، پائیدار اور اجتماعی ترقی حاصل ہو گی۔ انشاء اللہ
7۔ میں ایوان کو اس بات سے بھی آگاہ کرنا چاہوں گا کہ مسلم لیگ (ن) کے جنرل الیکشن 2013ء کے منشور کے مطابق پاکستان نے ستمبر 2016ء تک اصلاحاتی پروگرام کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔ اس دوران ملک میں انتہائی اہم اور مشکل Structural Reformsکو عملی جامہ پہنایا گیا۔ اس پروگرام کی تکمیل سے بین الاقوامی برادری کا ہمارے معاشی ایجنڈے پر اعتماد مضبوط ہوا۔ حکومت نے ملک کو خودانحصاری کی راہ پر گامزن کر دیا ہے جس کا اعتراف عالمی برادری بھی کر رہی ہے اور جس کی عکاسی دنیا کی بڑی ریٹنگ Agenciesمثلاً Moody`s, S&P, Fitchکی جانب سے پاکستان کی ریٹنگ بہتر کرنے سے بھی ہوتی ہے۔
پچھلے 4برسوں کے مقابلے میں آج پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
جامع معاشی کارکردگی 2012-13ء بمقابلہ 2016-17ء
جناب اسپیکر!
8۔ اب میں اس معزز ایوان کے سامنے پاکستانی معیشت کی چار سالہ کارکردگی کا جائزہ پیش کرتا ہوں۔
(1) اس سال GDPمیں اضافہ کی شرح 5.28فیصد رہی جو کہ پچھلے دس برسوں کی بلند ترین شرح ہے۔ چار سال پہلے معاشی ترقی کی شرح 3.68فیصد تھی۔ رواں سال عالمی معیشت میں 3.5فیصد کی شرح سے اضافہ کی توقع ہے۔ اس تناسب کا تقابلی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی معاشی کارکردگی دنیا کے اکثر ممالک کی کارکردگی سے بہتر رہی ہے۔ معاشی ترقی کی بلند شرح کے سبب پاکستان میں ہر لحاظ سے بہتری آئی ہے۔ پہلی دفعہ پاکستان کی معیشت کا حجم 300ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔
(2) الحمد للہ ہمارا زرعی شعبہ ( Agriculture Sector)اب بہتری کی راہ پر گامزن ہے۔ حالیہ سال اس کی کارکردگی متاثر کن رہی ہے، گزشتہ سال زرعی پیداوار میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہوا تھا، اس کے مقابلے میں رواں برس ہونے والا 3.46فیصد کا اضافہ حوصلہ افزاء ہے۔ تمام بڑی فصلوں بشمول گندم، کپاس، گنا اور مکئی کی پیداوار میں واضح اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جمود کا شکار زرعی شعبے میں یہ بہتری ستمبر 2015ء میں وزیراعظم کے اعلان کردہ کسان پیکج اور اس ایوان کے منظور کردہ بجٹ 2016-17ء میں شامل غیر معمولی اقدامات کی بناء پر ہوئی ہے۔
(3) Industrial Sectorمیں 5.02فیصد اضافہ ہوا ہے اور کاروبار میں روزگار کے نئے مواقع میسر آ رہے ہیں۔
(4) Services Sectorمیں 5.98فیصد ترقی ہوئی ہے جس میں Transport and Communication, Retail, Bankingاور Housingوغیرہ کے شعبہ جات شامل ہیں۔
(5) پچھلے چار سالوں میں فی کس آمدنی ( Per Capita Income)، 1334ڈالر سے بڑھ کر 1,629ڈالر ہوئی ہے یعنی 22فیصد کااضافہ ہوا۔
(6) 2008-13کے دوران افراط زر (Inflation) اوسطاً 12فیصد سالانہ رہی جبکہ رواں سال یہ شرح 4.3فیصد متوقع ہے۔
(7) Fiscal Deficit: حکومت نے معیشت کے استحکام کے لئے Fiscal Disciplineپر سختی سے عمل کیا جس کے نتیجے میں خسارہ مالی سال 2012-13ء میں 8.2فیصد سے کم ہو کر رواں سال میں 4.2فیصد رہ گیا ہے۔ ہم نے یہ کامیابی محصولات کی وصولی میں اضافہ سے کی جس کی بنیاد انتظامی امور میں بہتری ، Broadening of Tax baseاور کئی دہائیوں سے جاری رعایتی SROsکے خاتمے پر تھی۔ اس کے علاوہ حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات میں بھی کمی کی گئی۔
(8) FBRکے محاصل:مالی سال 2012-13میں FBRنے 1,946ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا تھا جبکہ اس سال ٹیکس کا ٹارگٹ 3,521ارب روپے ہے اس طرح گزشتہ چار سالوں میں 81فیصد اضافہ ہوا جو کہ اوسطاً 20فیصد سالانہ ہے۔ Tax to GDPکا تناسب جو کہ مالی سال 2012-13ء میں 10.1فیصد تھا، رواں سال 13.2فیصد متوقع ہے۔
(9): اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ جون 2013ء کے 9.5فیصد کے مقابلے میں پچھلے 45سال کی کم ترین شرح 5.75فیصد پر ہے۔ اسی طرح ایکسپورٹ ری فنانس کی سہولت (ERF) کا ریٹ 2013ء کے 9.5فیصد کے مقابلے میں جولائی 2016سے 3فیصد کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح Financing Facility Long Termکا ریٹ بھی جو کہ جون 2013ء میں 11.4فیصد تھا کم کر کے مجموعی صنعت کے لئے 6فیصد اور ٹیکسٹائل شعبے کے لئے 5فیصد کیا جا چکا ہے۔ جس کے نتیجے میں نجی شعبے کو قرض کی فراہمی میں تیزی آئی ہے۔
(10) پالیسی ریٹ کم ہونے کی وجہ سے مئی 2017ء تک نجی شعبے کے قرضے کا حجم 507ارب روپے ہے جبکہ 2012-13ء میں یہ قرضے صرف 93ارب روپے تھے اس کے نتیجے میں ملک میں کاروبار کو فروغ ملا ہے۔
(11) چار سال قبل زرعی قرض کا حجم 336روپے تھا جو مالی سال 2016ء کے اختتام پر 600ارب روپے پر پہنچا اور رواں مالی سال کے لئے 700ارب روپے کا ہدف ہے۔
(12) اس سال جولائی سے اپریل کے دوران درآمدات 37.8ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی ہیں جن میں گزشتہ سال کی اس مدت کے مقابلے میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ درآمدات میں یہ غیرمعمولی اضافہ مشینری کی درآمد میں تقریباً 40فیصد سے زائد اضافے، صنعتی خام مال، پٹرولیم مصنوعات کی بین الاقوامی قیمت میں اضافہ اور اس کے علاوہ توانائی اور انفراسٹرکچر سے متعلقCPEC منصوبوں میں ہونے والی سرمایہ کاری کے نتیجہ میں ہوا۔ مستقبل قریب میں یہ سب پاکستانی معیشت کی بہتری کا عندیہ ہے۔
(13) رواں مالی سال کے پہلے دس مہینوں کے دوران برآمدات میں گذشتہ سال کے 7.8 فیصد کے مقابلے میں مجموعی طور پر1.28 فیصد کی معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ بہتری حکومت کی طرف سے جنوری2017ء میں Exports کو بروقت180 ارب روپے کا جامع پیکج دینے اور ان کی اپنی کاوشوں کے نتیجہ میں ممکن ہوئی ہے۔
(14) :Foreign Exchange Reservesجون2013ء میں اسٹیٹ بنک کے پاس Foreign Exchange Reserves6.3ارب ڈالرز تھے۔ آج بڑے تجارتی خسارے کے باوجود اسٹیٹ بنک کے پاس 16 ارب ڈالرز سے زیادہ کے Reserves ہیں جو کہ کمرشل بینکوں کے Reserves شامل کرنے کے بعد21 ارب ڈالرز کے قریب ہیں۔
(15) Exchange Rate 30:جون 2013ء کا ڈالر کا انٹر بینک ریٹ99.66 روپے تھا۔ یہ ریٹ چند ماہ میں بڑھ کر111 روپے کے قریب پہنچ گیا تاہم اچھے معاشی انتظام اورForex Reservesکے ذخائرمیں اضافے کے بعد واپس99 وپے پر آگیا۔ لیکن اگست سے دسمبر2014ء میں سیاسی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے یہ ریٹ دوبارہ104.80 روپے کے قریب چلا گیا اور اس وقت سے ابھی تک یہ ریٹ اسی سطح پرمستحکم ہے۔
(16) گذشتہ چار برسوں کے دوران بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانوں نے بیش بہا ترسیلات زر بھیجی ہیں جو کہ13.9 ارب ڈالر سے بڑھ کر19.9 ارب ڈالرز پر پہنچ گئیں۔ یہ 40فیصد اضافہ حکومت کے Pakistan Remittance Initiative سکیم کی بحالی اورماضی کے بقایا جات کی ادائیگی کے ذریعہ ممکن ہوا۔ موجودہ مالی سال کے پہلے10ماہ میں 15.6 ارب ڈالر کی ترسیلات پاکستان بھیجی گئیں خلیجی ممالک کی مشکل سیاسی و اقتصادی صورتحال کے باوجود رمضان اورعید کی وجہ سے آخری دو ماہ میں ترسیلات زر میں اضافہ متوقع ہے۔ میں بیرون ملک مقیم محنت کرنے والے پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنے عزیزواقارب کو پاکستان میں رقم بھیجنے کیلئے بینکنگ ذرائع سے اپنی رقوم بھیج کر پاکستان کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالا۔
(17) Pakistan Stock Exchange 10:سال سے زیادہ عرصہ سے زیر التواء مسائل کے حل کے بعد تینStock Exchanges کا انضمام جنوری 2016ء میں مکمل کرلیا گیا تب سے Pakistan Stock Exchange بہتری کی طرف گامزن ہے اورMorgan Stanley Capital Index (MSCI) International کے مطابق Frontier مارکیٹ سے ترقی کرکے یکم جون2017ء کوEmerging مارکیٹ بن جائے گی۔Bloomberg نے 2016ء میں اسے ایشیا میں بہترین اورپوری دنیا میں پانچویں بہترین مارکیٹ قراردیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ انڈیکس 11مئی 2013ء کے 19,916 پوائنٹس کے مقابلے میں آج52,000 پوائنٹس سے بڑھ چکا ہے۔ اس عرصہ کے دورانMarket Capitalization 51 ارب ڈالر سے بڑھ کر97 ارب ڈالر ہوگئی ہے جو کہ90 فیصد اضافہ ہے۔
(18) نئی کمپنیوں کی Registration : اس سال مارچ تک5,855 نئی کمپنیاں رجسٹر ہوئی ہیں جبکہ 4 سال پہلے پورے مالی سال میں صرف3,960 کمپنیاں رجسٹر کی گئی تھیں۔
(19) معاشی قوانین کا نفاذ :کسی بھی معیشت کو اس کی حقیقی شرح نمو حاصل کرنے کیلئے مناسب قانونی اور ریگولیٹری فضا کا مہیا ہونا لازمی ہے۔ ایک موثر قانونی ڈھانچے کی عدم موجودگی سےgovernance اورservice delivery میں آنے والی رکاوٹوں کا احساس کرتے ہوئے ہم نے اپنے دور حکومت میں24 قوانین بنائے یا تبدیل کئے ہیں جن میں مندرجہ ذیل قوانین شامل ہیں:

Benami Transactions Prohibition Act, *
Special EconomicZones Amendment Act, *
Deposit Protection Corporation Act, *
Corporate Bureau Act, *
Corporate Restructuring Companies Act, *
National Energy Efficiency and Conservation Act *
Anti Money Laundering Act, *
Gas Theft Control and Recovery Ordinance *
اور
Limited Liability Partnership Act *
علاوہ ازیں ایک ترقی پذیر معیشت کیلئے درکار قانونی ڈھانچہ مزید بہتر بنانے کیلئے 10 قوانین پربھی کام کیاجارہاہے۔
(20)کمپنیزلاء (Companies Law)
اس ہفتے پارلیمنٹ نےCompanies Law2017پاس کیا ہے جس پر میں دونوں ایوانوں کاشکریہ ادا کرتا ہوں اورمبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس قانون نے 33 سالہ پرانے Ordinance1984 CompaniesکوReplace کیا ہے۔یہ بڑی اصلاحات میں سے ایک ہے جو تمام کمپنی قوانین کو یکجا کر کے پاکستان میں Corporatizationکو عالمی معیار کے عین مطابق ڈھالنے میں مدد دے گا۔ یہ قانون کاروبار شروع کرنے، کاروباری مراحل میں آسانی پیدا کرنے اور سرمایہ کاری محفوظ بنانے میں مددگار ہو گا۔ یہ چھوٹے حصہ داروں اور قرض مہیا کرنے والوں کے معاملات کے تحفظ کی ضمانت مہیا کرے گا۔ چھوٹی کمپنیوں کی Regulatory Complianceمیں آسانی پیدا کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ زراعت کے فروغ کی نئی کمپنیوں کے اندراج میں آسانی ہو گی۔ نئے قانوون کے مطابق خواتین کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے خواتین کوListed Companiesکے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں نمائندگی دی جائے گی۔
21۔ Ease of Doing Business
ملک میں کمپنیوں کے لئے کاروباری آسانیاں پیدا کرنے کے لئے اصلاحات کی جا رہی ہیں جس کے نتیجے میں عالمی بینک کی کاروباری آسانی کی درجہ بندی میں پاکستان کی Rankingمیں چار درجے بہتری آئی ہے۔ ورلڈ بینک کی 2016ء میں شائع ہونے والی رپورٹ جو کہ 2015ء کی کارکردگی پر مبنی ہے۔ میں 148 Business Index سے بہتر ہو کر 144پر آگیا ہے۔ پوری دنیا میں نمایاں اصلاحات کی بدولت اکتوبر2017ء میں کاروباری آسانی کی شائع ہونے والی رپورٹ میں پاکستان کی درجہ بندی میں مزید بہتری متوقع ہے۔
22۔ Documentation of Economyکی حوصلہ افزائی کے لئے پہلی بار 40,000روپے مالیت کے رجسٹرڈ بانڈ کا اجراء کیا گیا ہے۔ مالی سال 2017-18 ء میں مختلف مالیت کے دیگر رجسٹرڈ بانڈ بھی متعارف کرائے جائیں گے۔
جناب اسپیکر!
9۔ یہ کامیابیاں گزشتہ چار سالوں کے دوران حکومت کے بروقت لیکن مشکل فیصلوں کا نتیجہ ہیں۔ ہم اصلاحات کا سفر جاری رکھنے کے لئے پرعزم ہیں۔ اب میں رواں سال کے دوران حکومت کی طرف سے کی گئی کچھ اصلاحات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
(a) حال ہی میں ہم نے Open Government Partnershipکے Letter of Intentپر دستخط کیے ہیں۔ 70,OGPسے زائد ممالک (بشمول ترقی یافتہ ممالک) کی عالمی شراکت داری کا معاہدہ ہے۔ کوئی بھی ملک جو اس کی رکنیت کا ارادہ رکھتا ہو ایک خاص معیار پر پورا اترنے کے بعد On Invitationرکنیت حاصل کر سکتا ہے اور ہمیں اس معیار کی 16میں سے 15شرائط پر پورا اترنے پر 7دسمبر 2016ء کو OGPمیں شمولیت کے لئے مدعو کیا گیا جو کہ ہماری حکومت کی شفافیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
(b) Multilateral of OECDکنونشن: پچھلی بجٹ تقریب کے دوران میں نے کہا تھا کہ ہم OECDکےMultilateral Convention on Mutual Administrative Assistance in Tax Mattersپر دستخط کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ یہ اقدام ٹیکس چوری کے خلاف ہمارے عزم پر مبنی تھا۔ جنوری 2014ء میں وفاقی کابینہ سے اس Conventionمیں شمولیت کی منظوری کے بعد ہم نے اس سفر کا آغاز کیا۔ اس کنونشن کی Coordinating Bodyنے پاکستانی قوانین کا جائزہ لیا۔ ان کی سفارشات کی روشنی میں ہم نے Finance Bills 2015اور 2016ء کے ذریعے اس پارلیمنٹ نے انکم ٹیکس قوانین میں تبدیلیاں کیں جس کے بعد پاکستان کو جولائی 2016ء میں اسConventionمیں شامل ہونے کی دعوت موصولی ہوئی اور 14ستمبر 2016ء کو پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے میں نے اس کنونشن میں پاکستان کی شمولیت کی دستاویز پر دستخط کیے جس کے نتیجے میں آنے والے سالوں میں ہم ٹیکس کے معاملات میں بین الاقوامی سطح پر کافی زیادہ تفصیلات حاصل کرنے کے قابل ہوں گے۔ اس سے ہماری ٹیکس Governanceمیں بہتری آئے گی اور ٹیکس چوری کا موثر سدباب ہو سکے گا۔
(c) Avoidance of Double Taxation Agreement: ہم نے سوئٹزر لینڈ کے ساتھ Double Taxationسے بچاؤ کا نظرثانی شدہ معاہدہ بھی کیا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے ساتھ پچھلا معاہدہ 2005ء میں کیا گیا تھا جس پر 2008ء میں عملدرآمد شرروع ہوا۔ تاہم یہ معاہدہ تبادلہ معلومات کے عالمی معیار کے مطابق نہ تھا لہٰذا اگست 2013ء میں حکومت نے اس معاہدے پر نظرثانی کے بعد معلومات کے تبادلہ کے آرٹیکل میں مطلوبہ تبدیلیاں تجویز کیں۔ پاکستان اور سوئٹزر لینڈ کے باہمی مذاکرات کے بعد یہ معاہدہ 21مارچ 2017ء کو طے پا گیا ہے۔ یہ ترمیم شدہ معاہدہ Ratificationکے مرحلے میں ہے جس کے بعد یہ قابل عمل ہو جائے گا۔ اس معاہدے کے تحت ٹیکس مقاصد کے لئے مالی کھاتوں اور بنکنگ کی معلومات دریافت کرنے پر میسر ہوں گی۔ میں یہاں اس بات کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا کہ معاہدے کی شرائط کے طے ہونے میں توقع سے زیادہ تاخیر اس وجہ سے ہوئی کہ سوئس حکومت بدلے میں غیرمعمولی رعایتوں کی خواہشمند تھی۔ الحمد للہ ہم بغیر کوئی رعایت دئیے معاہدے میں ان تبدیلیوں کو شامل کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
10۔ ان اقدامات کی بدولت نہ صرف پوری دنیا میں پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہووا بلکہ اقوام عالم کو پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان ہر سطح پر Good Governance, Transparencyاور احتساب میں یقین رکھتا ہے۔
جناب اسپیکر!
11۔ بنیادی معاشی کارکردگی کے جن اعدادوشمار کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے ان سے یہ بات واضح ہو جاتا ہے کہ پچھلے چار سال میں Macroeconomic Stabilityحاصل کرنے کے بعد ہماری حکومت کا Focusوزیراعظم نواز شریف کی Visionکے مطابق Inclusive and Sustainable Growth Higherہے۔
جناب اسپیکر!
12۔ پچھلے چار سال کے دوران کی جانے والی Structural Reformsمیں سے میں نے چند کا ذکر کیا ہے۔ اگلے مالی سال میں اب تک کے جو Economic Gainsہیں ان کو consolidateکرنا اور ان پر مزید Buildکرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ میں اب اس سلسلہ میں اگلے سال کے چند اہم اہداف کا ذکر کروں گا۔

13۔ مالی سال 2017-18ء کے معاشی اہداف
a): GDPکی شرح میں 6فیصد اضافہ
b): Investment to GDP Ratio، 17فیصد
c): 1,001ارب روپے کے وفاقی ترقیاتی اخراجات
d): 6فیصد سے کم افراط زر (Inflation)
e): بجٹ خسارہ GDPکا 4.1فیصد۔
f): Tax to GDP، 13.7فیصد
g): زرمبادلہ کے ذخائر چار ماہ کی درآمدات کے برابر
h): Net public Debt to GDPکو 60فیصد تک رکھنا۔
i): Social Safetyکے اقدامات کو جاری رکھنا۔
اہداف کے حصول کے لئے کئے جانے والے اقدامات
بجٹ حکمت عملی کے اہم خدوخال
جناب اسپیکر!
14۔ جن اہداف کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے ان کے حصول کے لئے ہم نے ایک Strategy Budgetتشکیل دی ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
(1) FBRکے محاصل میں 14فیصد جب کہ وفاقی اخراجات میں 11فیصد تک اضافہ۔
(2) وفاقی حکومت کی غیرمحصولاتی وصولیاں7فیصد بڑھانا۔
(3) Current Expenditureکو قابو میں رکھتے ہوئے ہم ترقیاتی بجٹ میں مزید اضافہ کرنے کے قابل ہوں گے۔ اگلے مالی سال کے لئے وفاقی ترقیاتی پروگرام 1.001ارب روپے تجویز کیا گیا ہے۔ یہ رقم موجودہ مالی سال کے نظر ثانی شدہ715ارب روپے کے تخمینے سے 40فیصد زیادہ ہے اور اگر اس میں صوبائی تخمینہ شامل کریں تو 2017-18کا ترقیاتی بجٹ 2,100ارب روپے سے تجاوز کرے گا۔
(4) اس کے ساتھ ساتھ Current Expenditureمیں اضافہ افراط زر کی شرح سے کم رکھا جائے گا۔
(5) زراعت، مالی شعبے، برآمدات، ٹیکسٹائل، سماجی شعبے اور روزگار کیلئے نئے اقدامات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد معاشی سرگرمیوں میں مزید اضافہ کرنا، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنا اور عوام کی آمدن میں بہتری لانا ہے۔ ان اقدامات کی تفصیل میں تھوڑی دیر میں پیش کروں گا۔
(6) زراعت، SME، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ جات کو مزید فروغ دینے کیلئے ٹیکس مراعات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔
(7) وزیراعظم نواز شریف کی قیادت اور کیبنٹ کمیٹی برائے توانائی کے ذریعے ان کی ذاتی نگرانی میں 2018ء کے موسم گرما میں موجودہ 5 سالہ مدت کے اختتام تک تقریباً 10,000 میگا واٹ اضافی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی۔ انشاء اللہ اس سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ممکن ہوگا۔
(8) ائر پورٹ، ہسپتال اور پانی صاف کرنے کے پلانٹ سمیت گوادر کی ترقی کیلئے سرمایہ کاری کی جائے گی۔
(9) تقریباً 55 لاکھ ایسے خاندان جن کے پاس ذریعہ معاش نہیں ہے ان کیلئے سالانہ 19.338 روپے فی خاندان بذریعہ خاتون خانہ مالی معاونت جاری رکھی جائے گی۔ اس مقصد کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے 121 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جو کہ 2013ء کے 40 ارب روپے کے مقابلے میں 300 فیصد ہے۔ 2013ء میں مستفید ہونے والے خاندانوں کی تعداد 37 لاکھ تھی جو کہ اب 55 لاکھ ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ پرائمری سکولوں کے 13 لاکھ بچوں کو مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔
(10) حکومت 300 یونٹ ماہانہ بجلی استعمال کرنے والے کم آمدن صارفین کے بجلی کے بلوں کی ادائیگی سبسڈی کی صورت میں جاری رکھے گی۔ بلوچستان کے کسانوں کیلئے زرعی ٹیوب ویلوں کے بجلی کے استعمال پر وفاقی حکومت سبسڈی جاری رکھے گی جبکہ پورے ملک میں زرعی ٹیوب ویل کے لئے 5.35 روپے فی یونٹ OFF Peak ریٹ آئندہ مالی سال میں بھی جاری رہے گا۔ اس مقصد کیلئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 118 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
(11) وزیراعظم کی مندرجہ ذیل یوتھ سکیمز جاری رہیں گی جن کیلئے اس مالی سال میں 20 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔
بزنس لون سکیم
انٹرسٹ فری لون سکیم
ٹریننگ سکیم
سکل ڈویلپمنٹ پروگرام
Fee Re-imbursement
لیپ ٹاپ پروگرام

خصوصی اقدامات 2017-18

جناب سپیکر!
15۔ وزیراعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں ہم ملک کے عوام کی خدمت کیلئے پرعزم ہیں۔ یہ قوم ایک اچھے اور روشن مستقبل کی مستحق ہے۔ اس سلسلے میں اس بجٹ میں اب میں خصوصی تجاویز پیش کر رہا ہوں۔
فلاحی سکیمیں
16۔ غربت سے باہر آنے کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کاروبار شروع کرنے کیلئے خصوصی گرانٹ: Food-Energy Intake Methodology کے تحت 2002ء میں غربت کا سروے کیا گیا تھا جس کے مطابق پاکستان کی 34.7 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی جو کہ کم ہو کر 2014ء میں 9.3 فیصد ہو گئی۔ تاہم پاکستان نے ورلڈ بنک کی Cost of Basic Needs (CBN) کے فارمولے پر بھی غربت ناپنے کے نئے طریقہ کار کو اپنایا ہے۔ اس طریقہ کار کے مطابق 2002ء میں غربت کی شرح 64 فیصد سے زیادہ تھی جو کہ 2014ء میں کم ہو کر 29.5 فیصد رہ گئی۔ جہاں حکومت معاشرے کے کم آمدن طبقات کو معاشرتی تحفظ فراہم کر رہی ہے وہیں بے نظیر سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والوں کے نئے ہنر سیکھنے اور اپنا کاروبار شروع کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کر رہی ہے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔ اس سلسلے میں حکومت ایک نئی سکیم متعارف کروا رہی ہے۔ آئندہ سال بی آئی ایس پی سے مستفید ہونے والے ایسے خاندانوں کو تربیت اور 50 ہزارروپے کی مالی معاونت فراہم کی جائے گی جو اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح وہ اس پروگرام سے Graduate کر جائیں گے۔ ابتدائی طور پر 250,000 خاندانوں کو یہ گرانٹ دیئے جانے کی تجویز ہے۔

دور دراز علاقوں کو بجلی کی فراہمی
17۔ بجلی کے ترسیلی نظام سے دوری پر بسنے والے چھوٹے شہروں کے مکینوں کوبجلی کی فراہمی کیلئے حکومت ورلڈ بنک کے تعاون سے شمسی توانائی سے چلنے والے Off-Grid نظام متعارف کروائے گی۔ اس اقدام میں بلوچستان پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔

زرعی شعبہ (Agriculture Sector)
18۔ زراعت ہمارے ملک کے لوگوں اور معیشت کیلئے انتہائی اہم ہے۔ دیہی معیشت میں زراعت کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے 2015ء میں 341 ارب ر وپے پر منبی ایک جامع کسان پیکج کا اعلان کیا جس کے تحت چاول اور کپاس پیدا کرنے والے کسانوں کیلئے بلاواسطہ امداد، زرعی مشینری کی درآمد پر ٹیکس میں 45 فیصد سے 9 فیصد تک کمی، Cool Chain Machinery پر سیلز ٹیکس میں 17 فیصد سے 7 فیصد تک کمی، زرعی اجناس کے تاجروں کیلئے 3 سال تک ٹیکس میں چھوٹ، شمسی ٹیوب ویل استعمال کرنے والے کسانوں کیلئے بلاسود قرضوں کی فراہمی، جراثیم کش ادویات اوربیج پر سیلز ٹیکس میں کمی، زرعی قرضوں پر سود میں کمی، فصلوں کا کم لاگت بیمہ اور زرعی قرضوں کے حجم میں اضافے جیسے اقدامات شامل تھے۔
19۔ زرعی شعبے میں مزید بہتری کیلئے حکومت نے2016-17 کے بجٹ کے ذریعے کئی نئے Supportive اقدامات لئے جن میں Crop Loan Insurance Scheme، لائیو سٹاک انشورنس سکیم، ڈیری مصنوعات، لائیو سٹاک اور پولٹری پر کسٹم ڈیوٹی میں رعایت، جراثیم کش ادویات پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ، Cool Chain Machinery پر کسٹم ڈیوٹی کا خاتمہ اور کھاد کی قیمت میں کمی قابل ذکر ہیں۔ نتیجتاً یوریا کھاد 1800 روپے فی بوری سے کم ہو کر 1400 روپے اور ڈی اے پی 4200 سے کم ہو کر 2500 روپے ہو گئی۔ کھاد کی قیمتوں میں یہ کمی ٹیکسوں میں چھوٹ اور کیش سبسڈی کے ذریعے ممکن ہوئی۔ ان اقدامات کے بہتر نتائج کا اندازہ کھاد کی کھپت اور زرعی پیداوار میں اضافے سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے پچھلے سال جمود کا شکار رہنے والے زرعی شعبے میں موجودہ سال 2016-17 کے دوران 3.46 فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی۔ یہ تمام سکیمیں اور اقدامات آئندہ مالی سال 2017-18 میں بھی جاری رہیں گے۔
20۔ آئندہ بجٹ میں کچھ نئے اقدامات بھی تجویز کئے جا رہے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
(a۔ زرعی قرضوں کیلئے مارک اپ میں کمی
اس وقت قرضوں پر مارک اپ 14 فیصد سے 15 فیصد تک ہے مجھے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ یکم جولائی 2017ء سے زرعی ترقیاتی بنک اور نیشنل بنک آف پاکستان نئی سکیم کے تحت 12.5 ایکڑ اراضی رکھنے والے کسانوں کو 9.9 فیصد سالانہ کی کم شرح پر زرعی قرضے دیں گے۔ سکیم کی دیگر خصوصیات کچھ یوں ہیں۔
(i) 50,000 روپے فی کسان قرضہ فراہم کیا جائے گا۔
(ii) 20 لاکھ قرضے زرعی ترقیاتی بنک، نیشنل بنک اور دیگر بنک مہیا کریں گے۔
(iii) سٹیٹ بنک آف پاکستان اس نئی سکیم پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گا۔

(b) زرعی قرضوں کے ہدف میں اضافہ
پیداواری لاگت کے استعمال میں چھوٹے کسانوں کو زرعی قرضوں کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ کسانوں کی سہولت کیلئے مالی سال 2017-18 میں زرعی قرضوں کا حجم پچھلے سال کے 700 ارب روپے سے بڑھا کر 1,001 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ جو کہ قرضوں کے حجم میں 43 فیصد اضافہ ہے۔ میں معزز اراکین پارلیمان کی اس بات پر توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ زرعی قرضوں کا حجم وفاقی ترقیاتی بجٹ 2017-18 جو کہ 1001 بلین روپے ہے، یہ اس کے برابر ہے۔
(c) کھاد کی قیمتوں میں استحکام
(i) کسانوں کی مزید آسانی کیلئے حکومت نے NFML کے پاس دستیاب درآمد شدہ یوریا کو 1000 روپے فی بوری کی رعایتی قیمت پر فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
(ii) ڈی اے پی پر دی جانے والی سبسڈی کی فراہمی میں آسانی کی خاطر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ڈی اے پی پر فکسڈ سیلز ٹیکس لاگو کیا جائے گا۔ جس کے نتیجے میں 400 GST روپے سے کم کر کے 100 روپیہ فی بوری کیا جا رہا ہے۔ اس مد میں کل رعایت کا تخمینہ 13.8 ارب روپے بنتا ہے۔
(iii) مالی سال 2017-18 میں ٹیکس میں کمی اور سبسڈی کے ذریعے یوریا کی زیادہ سے زیادہ فی بوری قیمت 1400 روپے پر برقرار رکھی جائے گی۔ اس مد میں کل رعایت کا تخمینہ 11.6 ارب روپے بنتا ہے۔
(iv) ٹیکسوں میں ردوبدل کے ذریعے NP، NPK، SSP اور CAN کی قیمتیں بھی اپنی موجودہ سطح پر برقرار رکھی جائیں گی۔
(d) قرضوں کے حصول کیلئے ملکیتی زمین کے ریکارڈ کا استعمال
کسانوں کیلئے قرضوں کے حصول میں آسانی پیدا کرنے کیلئے سٹیٹ بنک ایسے اقدامات کر رہا ہے جن کے ذریعے بینکنگ سسٹم کو لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم سے ہم آہنگ کیا جائے گا تاکہ جائیداد گروی رکھنے کی سہولیات مہیا کی جا سکیں۔ خود کارریکارڈز کے ذریعے کسانوں کو بنکوں سے قرض لینے میں سہولت ہوگی۔
(e) Plant Breeders Rights Registry کا قیام زیر عمل ہے جس سے کسانوں کو اعلی معیار کا نیا بیج دستیاب ہوگا۔ اس کا مقصد ملک میں فصلوں کی پیداوار بڑھانا ہے۔
(f) زرعی ٹیوب ویلوں کے استعمال کیلئے سستی بجلی
حکومت Off Peak Hours میں زرعی ٹیوب ویلوں کو 5.35 روپے فی یونٹ کی قیمت پر سستی بجلی کی فراہمی جاری رکھے گی۔ اس سہولت پر مالی سال 2017-18 میں 27 ارب روپے خرچ ہوں گے۔
(g) ٖProduction Index Unit کی قدر 4,000 سے بڑھا کر 5,000 روپے کی جا رہی ہے ۔ اس سے کسانوں کو بنکوں سے زیادہ سے زیادہ قرض لینے میں مدد ملے گی۔
(h) زرعی شعبے کے ٹیکسوں پر امدادی اقدامات
(i) Combined Harvester
ملک میں Combined Harvester کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ تاہم اس وقت 20 سے 30 سال پرانے Harvester درآمد کئے جا رہے ہیں جو کہ انتہائی خستہ حال ہیں جس کی وجہ سے کٹائی میں 10 فیصد تک نقصان ہو جاتا ہے۔اس نقصان کو کم کرنے کیلئے نئی زرعی مشینری کی درآمد کی حوصلہ افزائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں Combined Harvester کی نئی اور پانچ سال تک استعمال شدہ مشینری پر کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔
(ii) درآمد شدہ سورج مکھی اور کینولہ کے Hybird بیج پر جی ایس ٹی کو ختم کیا جا رہا ہے۔
(iii) پولٹری کیلئے درآمد کی جانے والی مشینری پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد سے کم کر کے 7 فیصد کیا جا رہا ہے۔
(iv) 3 سے 36 ہارس پاور زرعی ڈیزل انجن برائے ٹیوب ویلز جن پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد ہے اس سیلز ٹیکس کوختم کیا جا رہا ہے۔
برآمدات اورٹیکسٹائل سیکٹر

جناب سپیکر!

21۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ پاکستانی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور روزگار، خام مال کی کھپت، برآمدات اور مجموعی قومی پیداوار میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے سال 2013ء سے اس شعبے کیلئے خصوصی پیکجز فراہم کئے ہیں۔ یہاں میں ان میں سے چند اقدامات کی یاددہانی کرانا چاہوں گا۔
(1) Long Term Financing Facility پر شرح سود کو 11.4 فیصد سے 5 فیصد تک کم کیا گیا ہے۔
(2) ٹیکسٹائل مشینری کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دی گئی ہے۔
(3) شعبہ ٹیکسٹائل کیلئے بلاتعطل بجلی اور گیس کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔
(4) ٹیکسٹائل سیکٹر کیلئے Technology Upgradation Fund سکیم 2016-19 متعارف کروائی گئی ہے۔
(5) جنوری 2017ء میں PM’s Package Of Incentives For Exporters کا اعلان کیا گیا جس میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو مرکزی حیثیت دی گئی۔
(6) حکومت نے گزشتہ سال پانچ بڑے Export Oriented Sectors بشمول ٹیکسٹائل، چمڑہ، کھیلوں کا سامان، آلات جراحی اور قالین بافی کو Zero Rated Sales Tax Regime میں شامل کیا تھا۔ یہ سہولت آئندہ سال بھی جاری رہے گی۔
(7) اسی طرح ٹیکسٹائل مشینری کی ڈیوٹی فری درآمد بگی جاری رکھی جائے گی۔
22۔ مالی سال 2016-17 کے دوران متعارف کرائے گئے اقدامات آئندہ سال بھی جاری رکھے جائیں گے۔ اپنی سابقہ روایت کو قائم رکھتے ہوئے شعبہ ٹیکسٹائل کے فروغ کے لیے بجٹ 2016-17 میں مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں:
(1) تمام Stakeholders سے مشاورت کے بعد کپاس کی قیمت میں استحکام کے لیے Cotton Hedge Trading کا آغاز کیا جائے گا۔
(2) سرکاری اور پرائیویٹ Stakeholders سے مشاورت کے بعد حکومت ٹیکسٹائل کے لیے Brand Development Fund کا آغاز کرے گی۔
(3) ایک ہزار سلائی مراکز کے قیام کی منظوری کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ اس اسکیم پر مالی سال 2017-18 میں عملدرآمد شروع کردیا جائے گا اور یہ اسکیم 3 سالوں میں مکمل ہوگی۔
(4) Textile Ministry پہلی مرتبہ ٹیکسٹائل کے شعبہ کے لیے Business to Business اور Business to Consumer کے لیے آن لائن ٹیکسٹائل Trade Portal کا آغاز کرے گی۔ اس عمل سے پاکستان کی ٹیکسٹائل Value Chain عالمی Marketing Practices سے ہم آہنگ ہوجائے گی۔
23۔ عالمی تجارت میں مندی اور اجناس کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے پاکستان کو برآمدات میں مشکلات پیش آئی ہیں۔ برآمدات میں اضافے کے لیے حکومت نے کئی اقدامات کئے ہیں جو اگلے سال بھی جاری رہیں ھے مثلاً:
(1) Expert Refinance Facility پر Mark-up میں کمی کی گئی ہے جوکہ جون 2013 کے 9.5 فیصد کے مقابلے میں کم ہوکر جولائی 2016 ء میں 3 فیصد رہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ Longterm Financing Facility پر Mark-up جون 2013ء کے 11.4 فیصد کے مقابلے میں 2015ء میں 5 سے 6 فیصد رہ گئی ہے۔ ان اقدامات کی بدولت Exporters کے لیے پیداواری لاگت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
24۔ اس کے علاوہ نئے اقدامات مندرجہ ذیل ہیں:
(1) خام کھالوں پر کسٹم ڈیوٹی کم کرکے صفر فیصد کی جا رہی ہے۔
(2) اعلی درجے کی چمڑے کی مصنوعات بنانے کے لیے استعمال ہونے والی Stamping Foil پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔
(3) منڈیوں سے دوری کے باعث چاول برآمد کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ چاول کی برآمد میں سہولت کے لیے پاکستان سے باہر چاولوں کی Warehousing کی اجازت دینے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ وزارت تجارت‘ سٹیٹ بنک اور Rice Export Association مل کر اس اسکیم کی تفصیلات تیار کریں گے۔

ہاؤسنگ کا شعبہ
25۔ Risk Sharing Guarantee Scheme: ملک میں اس وقت 10 لاکھ سے زیادہ مکانات کی کمی ہے۔ ہر سال مکانوں کی طلب میں مزید 3 لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ طویل مدتی قرضوں کی دستیابی اس سلسلے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ بنک لمبی مدت کے قرضے دینے سے گھبراتے ہیں۔ گھر بنانے میں حائل اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے Risk Sharing Guarantee Scheme کا آغاز کیا جائے گا۔ اس سکیم کے تحت گھر بنانے کے لیے 10 لاکھ روپے تک کی فنانسنگ پر حکومت بینکوں اور DFIs کو 40 فیصد تک کی Credit Guarantee دے گی۔ اس مقصد کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس سہولت کو Microfinance Banks کے ذریعے مہیا کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
Infrastructure Finance
26۔ حکومت نے انفرااسٹرکچر کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔ سرکاری شعبہ میں انفراسٹرکچر کی مالی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت مختلف قواعد اور پالیسی تبدیلیوں کے ذریعے نجی شعبے کی انفرااسٹرکچر کے لیے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی بھی کر رہی ہے۔ ان اقدامات میں Public Private partnership Framework‘ انفرااسٹرکچر فنانس کے لیے نئی Regulations اور نئے اداروں کا قیام شامل ہیں جن کی تفصل درج ذیل ہے:
(a) Pakistan Development Fund (PDF) کو بہت جلد فعال کردیا جائے گا۔ یہ فنڈ انفراسٹرکچر کے Financially Viable سرکاری اور Public Private Partnership منصوبہ جات کے لیے طویل مدتی قرضے فراہم کرے گا۔ بین الاقوامی Development Partners نے بھی اس فنڈ کے ذریعے معاونت میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
(b) Pakistan Infrastructure Bank نجی شعبہ کے قابل عمل منصوبوں کو انفرااسٹرکچر کی مد میں قرض فراہم کرنے کے لیے پاکستان انفرااسٹرکچر بنک بھی قائم کیا جائے گا۔ اس Bank میں 20 فیصد حصہ IFC کا ہوگا جبکہ حکومت پاکستان ترقیاتی فنڈ کے ذریعے 20 فیصد کی شراکت کرے گی۔ بقایا حصص نجی اداروں کے ہوں گے۔ یہ بنک Project Financing کے جدید طریقہ کار کو متعارف کرانے میں مددگار ثابت ہوگا جیساکہ Domestic Infrastructure Bond Market کا قیام اور Contingent Financing Products کی تشکیل جس میں Credit default Swaps, Credit Guarantee, Foreign currency liquidty facility اور Refinancing options شامل ہیں۔
(c) Public Private Partnership
PPP Authority Act پارلیمان سے منظوری کے بعد نافذ کردیا گیا ہے۔ یہ ایکٹ ملک میں Public Private Partnership کی فنانسنگ کے لیے ریگولیٹری فریم ورک مہیا کرتا ہے۔ اس سے حکومت نجی شعبہ کی شراکت کے ساتھ بڑے منصوبوں کی تکمیل کروا سکے گی۔

مالیاتی شعبہ
27۔ حالیہ سالوں میں ہمارے Financial سیکٹر نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ Financial Sector میں مزید بہتری کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
(a) Finacial Inclusion
زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مالی سہولیات کی دستیابی کے لیے حکومت National Financial Inclusion Strategy پر عمل کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں آئندہ سال مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کیے جا رہے ہیں۔
(i) Microfiance Institutions کے ذریعے کم آمدنی والے طبقوں کو قرض کی فراہمی کے لیے اسٹیٹ بنک میں 8 ارب روپے سے فنڈ قائم کیا جائے گا۔
(ii) موبائل بنکنگe-gateway systems کے ذریعے ادائیگیوں کو آسان بنانے کے لیے حکومت نے 2 ارب روپے کی لاگت سے اسٹیٹ بنک میں جدید e-gateway systems قائم کرنے کافیصلہ کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت متعلقہ اداروں کو فنی تربیت بھی فراہم کی جائے گی۔
(iii) Branchless Banking سے رقوم نکلوانے پر Withholding ٹیکس پر چھوٹ دی جائے گی۔
(iv) Pakistan Microfinance Investment Company:2016ء میں حکومت نے KFW اور DFID کے ساتھ مل کر Pakistan Microfinance Investment Company کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد مائیکرو فنانس اداروں کو اضافی سرمایہ فراہم کرنا ہے۔ امید ہے کہ اس سے چھوٹے قرضوں کی تعداد دوگنی ہوجائے گی۔
(b) Disaster Risk Managment Fund
عوام کو قدرتی آفات سے نمٹنے اور اس حوالے سے تیار رہنے میں مدد دینے کے لیے یہ فنڈ قائم کیا گیا۔ اس سلسلے میں 12.58 ارب روپے سے ایک Endowment Fund قائم کردیا گیا ہے۔
چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (SMEs)
28۔ SMEs کسی بھی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں چھوٹے کاروبار کی ترقی میں کافی رکاوٹیں حائل رہی ہیں۔ اگر کوئی ترقی ہوئی ہے تو وہ غیر رسمی شعبے میں ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل نئے اقدامات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔
(a) SMEs کے لیے قرض کی فراہمی
SMEs کے شعبے میں سب سے بڑا مسئلہ قرض کی دستیابی ہے۔ عام طور پر بنک SMEs کو قرض دینے سے کتراتے ہیں کیونکہ اس میں ہائی رسک ہوتا ہے۔ Banks کو SMEs کے لیے قرض دینے میں سہولت پیدا کرنے کی خاطر حکومت نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان میں 3.5 ارب روپے سے SME کے لیے ایک Risk Mitigation Facility متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے تحت اسلامی اور روایتی طریقے سے قرض دیئے جائیں گے۔
(b) Innovation Challenges Fund
مارکیٹ کی بدلتی ہوئی ضروریات سے مطابقت کے لیے لازمی ہے کہ چھوٹے کاروبار جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کریں۔ Supply Chains اور چھوٹی صنعتوں کی ٹیکنالوجی میں مسلسل جدت اور بہتری ان کے منافع بخش رہنے کے لیے ضروری ہیں۔ ان ضروریات کے پیش نظر حکومت SMEs کے لیے500 ملین روپے Innovation Challenges Fund کے قیام کا اعلان کر رہی ہے۔ اس فنڈ کا انتظام پاکستان کی اہم ٹیکنالوجی یونیورسٹیوں کے تعاون سے پیشہ ورانہ طرز پر کیا جائے گا۔
(c) منقولہ جائیداد کے لیے Secured Transactions Registry
SMEs اور زراعت کے لیے قرض کی فراہمی کی خاطر حکومت نے پارلیمان سے Financial Institutions Secure Transactions Act 2016 منظور کروایا ہے۔ اس قانون کے تحت Electronic Registry قائم کی جائے گی۔ جس کے ذریعے SME اور زراعت کے شعبے میں چھوٹے borrowers اپنی منقولہ جائیداد کے عوض قرض حاصل کر سکیں گے۔ وفاقی حکومت آئندہ مالی سال کے دوران اس رجسٹری کا قیام عمل میں لائے گی۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی
29۔ زرعی اور صنعتی انقلاب کے بعد دنیا اب Informationکے انقلاب سے گزر رہی ہے۔ تقریباً ہر شعبے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے خواہ وہ شعبہ مواصلات‘ بنکنگ‘ تجارت‘ تعلیم‘ تفریح‘ e-commerce‘ حکومت یا انتظامیہ کا ہو۔ جس طرح مشینوں نے انسان کی کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ اور آسانی پیدا کی ہے اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی انسان کی ذہنی قابلیت میں اضافہ کا باعث بھی بن رہی ہے۔ مستقبل میں ممالک کے درمیان صنعتی اور غیر صنعتی کی بجائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بنیاد پر فرق دیکھا جائے گا۔ حکومت پاکستان اس صورت حال سے باخبر ہے اور اس ضمن میں ماضی کے دوران کئی اقدامات کے گئے جوکہ آئندہ بھی جاری رکھے جائیں گے۔ اس شعبہ کے لیے نئے اقدامات مندرجہ ذیل ہیں۔
(a) جنوبی کوریا کے تعاون سے 6 ارب روپے کی لاگت سے اسلام آباد میں IT Software Park قائم کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں مالی انتظامات مکمل کے لیے گئے ہیں اور تعمیراتی کام بہت جلد شروع کردیا جائے گا۔
(b) نئی قائم ہونے والی IT Companies کو پہلے 3 سال انکم ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی۔
(c)اسلام آباد اور دیگر وفاقی علاقہ جات سے IT Services کی برآمد پر سیلز ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا۔
(d) آئی ٹی کمپنیوں/ ہاؤسز کو اس شرط پر پاکستان میں Foreign Exchange Accounts کھولنے کی اجازت دی جائے گی کہ اپنی آمدن کو بذریعہ ترسیلات ان کھاتوں میں جمع کرواسیں گے۔ یہ اکاؤنٹ بیرون ملک کاروباری ادائیگیوں کے لیے استعمال ہوں گے۔
(e) IT Connectivity میں موبائل فونز ایک اہم جزو ہیں۔ عام آدمی کی سہولت کے لیے موبائل کال پر ودہولڈنگ ٹیکس کو 14 فیصد سے کم کرکے 12.5 فیصد اور ایکسائز ڈیوٹی کو 18.5 فیصد سے کم کرکے 17 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ صوبائی حکومتیں بھی اسی شرح سے موبائل کالز پر سیلز ٹیکس میں کمی کریں گی۔
(f) جدید/ سمارٹ فونز کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے کسٹم ڈیوٹی کو 1000 روپے سے کم کرکے 650 روپے کیا جائے گا۔
(g) موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کے سامان کی درآمد پر ڈیوٹی کم کی جا رہی ہے۔
ترقیاتی پروگرام PSDP

جناب اسپیکر
30۔ اس سال کا ترقیاتی پروگرام وزیراعظم کے وژن کے مطابق ہے جوکہ
* Higher, Sustainable and Inclusive Growth کا حصول
* Human Resource Development
* انفرااسٹرکچر کی بہتری
* Food Security
* Water and Energy Security
پر مشتمل ہے۔ وفاقی حکومت کے ترقیاتی اخراجات اب مالی سال 2012-13ء کے 324ارب روپے کے مقابلے میں 3 گنا بڑھ چکے ہیں۔ وفاقی حکومت کا ترقیاتی پروگرام 1001 ارب روپے تک بڑھانے کی تجویز ہے جوکہ پچھلے مالی سال کے نظرثانی شدہ تخمینہ جات کے 715 ارب روپے کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی اور صوبائی ترقیاتی پروگرام کا مجموعی حم پچھلے سال کے 1539 ارب روپے (715 ارب روپے وفاقی اور 824 ارب روپے صوبائی) سے بڑھا کر 2113 ارب روپے کیا جا رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ حکومتی شعبے نے اپنے ترقیاتی اخراجات میں 37 فیصد اضافہ کیا ہے۔ اس سے معیشت میں لاکھوں لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ترقیاتی اخراجات میں اضافے سے نجی شعبے میں بھی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا۔
31۔ ماضی میں توانائی اور Infrastructure کے شعبوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ ہماری حکومت نے اس روایت کو یکسر بدل دیا ہے۔ آج وفاقی ترقیاتی بجٹ کا بیشتر حصہ انفراسٹرکچر اور توانائی کیلئے مختص کیا جاتا ہے۔ یہ ہماری معاشی پالیسی میں بڑی تبدیلی ہے اور یہ تبدیلی ہمارے مستقبل کی معاشی ترقی کے اہداف کی بنیاد ہے۔ انفرا سٹرکچر کیلئے کل PSDP کا 67 فیصد مختص کیا گیا ہے۔ اولین ترجیح ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبہ کو دی گئی ہے جس کیلئے 411 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس میں قومی شاہراہوں کیلئے 320 ارب روپے، ریلوے کیلئے 43 ارب روپے اور دیگر منصوبوں اور Aviation کی اسکیموں کیلئے 44 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
32۔ 19 سال کے وقفے کے بعد مردم شماری کا عمل جاری ہے۔ لیکن عمر کے لحاظ سے آبادی کے تناسب میں کوئی بڑی تبدیلی متوقع نہیں۔ ہماری آبادی کا بیشتر حصہ 20 سال سے کم عمر نوجوانوں پر ہی مشتمل رہے گا۔ اس لئے ہمارے ترقیاتی پروگرام کی توجہ انسانی اور سماجی سرمائے کی ترقی، تعلیم، صحت، خواتین کو بااختیار بنانے، غربت کے خاتمے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور عدم مساوات ختم کرنے پر مرکوز ہے۔

جناب اسپیکر۔

33۔ اب میں وفاقی حکومت کے ترقیاتی بجٹ کے چند اہم Programmes پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔

توانائی

34۔ توانائی کی کمی تیز تر ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ حکومت لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے انتھک کام کر رہی ہے۔ 2018ء تک انشاء اللہ 10000 میگاواٹ اضافی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے گی۔ اس کے علاوہ 2018ء کے بعد مکمل ہونے والے 15,000میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کا financial close ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں حکومت توانائی کے شعبے کی ترقی کیلئے 401 ارب روپے تجویز کر رہی ہے۔ اس میں واپڈا کی 317 ارب روپے کی سرمایہ کاری شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایک نیا پروگرام energy for all متعارف کروایا جا رہا ہے جس کیلئے ابتدائی طو ر پر 12.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جن بنیادی منصوبوں میں حکومت سرمایہ کاری کرے گی وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

(1) LNG سے بجلی بنانے کے دو منصوبوں بلوکی اور حویلی بہادر شاہ کیلئے 76.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ دونوں منصوبوں سے 2,400 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔ دونوں منصوبوں کی مکمل تکمیل 2017-18 میں ہو گی۔
(2) داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کیلئے 54 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں اس منصوبے کے تحت 2,160 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔
(3) دیامیر بھاشا ڈیم (Lot-1) کی تعمیر کیلئے 21 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس ڈیم سے 4,500 میگا واٹ بجلی کی پیداوار متوقع ہے۔
(4) نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کیلئے 19.6 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
اس پروجیکٹ سے 969 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔ اس منصوبے کی تکمیل بھی 2017-18 میں ہو گی۔
(5) تربیلا ہائیڈرو پاور کی چوتھی توسیع کیلئے 16.4 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جس سے 1,410 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔
(6) جامشورو میں 1,200 میگا واٹ پیداواری صلاحیت کے حامل کول پاور منصوبے کیلئے 16.2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
(7) اس کے علاوہ کراچی میں 2,200 میگا واٹ پیداواری صلاحیت کے حامل 2 ایٹمی توانائی منصوبوں اور 600 میگا واٹ کے چشمہ سول ایٹمی پاور پلانٹ پر کام جاری رہے گا۔

35۔ بجلی کی پیداوار اور مانگ میں فرق ہمارے چیلنج کا صرف ایک پہلو ہے۔ ماضی میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم میں کوئی اہم سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ نتیجتاً اگر ہم بجلی کی پیداوار کو بڑھا بھی لیں تو صارفین تک بجلی پہنچانے کے قابل نہیں ہوں گے۔ اس سال سے ہم صورتحال کی بہتری کیلئے ہنگامی اقدامات کر رہے ہیں۔ مٹیاری لاہور ٹرانسمیشن لائن تعمیر کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ گرڈ سٹیشنوں اور ترسیلی نظام میں بھرپور سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔

پانی

36۔ اگر پانی کے شعبے میں سرمایہ کاری نہ کی گئی تو پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسلئے حکومت ترجیحی بنیادوں پر ڈیم بنانے اور نہروں اور water courses کو تعمیراور بہتر کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔ اوپر بیان کئے گئے بڑے منصوبوں کے علاوہ پانی کے شعبے میں حکومت 38 ارب روپے مختص کر رہی ہے۔ اس مقرر کردہ بجٹ میں زیادہ تر حصہ RBOD-I ، RBOD-II اور کچھی کینال پر خرچ ہو گا۔ مشترکہ طور پر ان تینوں منصوبوں پر 17.7 ارب روپے لاگت آئے گی۔ ان کے علاوہ صوبوں میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے بلوچستان، خیبرپختونخوا، پنجاب اور سندھ میں پانے کے کئی منصوبے جاری رہیں گے۔

قومی شاہراہیں

37۔ پاکستان اپنے محل وقوع کی وجہ سے پورے خطے کو آپس میں ملانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس قدرتی طور پر حاصل حیثیت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور اسے معاشی ترقی میں بدلنے کیلئے پچھلے چار سال میں ہماری حکومت کی توجہ مواصلاتی نظام میں سرمایہ کاری پر رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے پچھلے سال کے 188 ارب روپے کے مقابلے میں اس سال 320 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ چار سال پہلے یہ سرمایہ کاری صرف 51 ارب روپے تک محدود تھی۔ اس شعبہ کے بڑے منصوبہ جات مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) لاہور۔ عبدالحکیم سیکشن میں 230 کلومیٹر لمبی شاہراہ کیلئے 48 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
(2) ملتان سے سکھر 387 کلومیٹر لمبی شاہراہ کیلئے 35 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
(3) سکھر حیدرآباد سیکشن کیلئے 2.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ یہ منصوبہ نجی شعبے کی شراکت سے زیر تعمیر ہے۔
(4)کراچی حیدرآباد موٹروے پر تیزی سے کام جاری ہے اور اس کے ایک حصے کا افتتاح کر دیا گیا ہے۔
(5)ہکلہ سے یارک ڈیرہ اسماعیل خان موٹروے کیلئے 38 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
(6) فیصل آباد سے خانیوال ایکسپریس وے جس کی لمبائی 184 کلومیٹر ہے، کیلئے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
(7) برہان حویلیاں ایکسپریس وے کیلئے 3 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
(8) تھاکوٹ سے حویلیاں کیلئے 26 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
(9) ڈیرہ اسماعیل خان مغل کوٹ اور ژوب شاہراہ کی بحالی کیلئے 2.7 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
(10) بلوچستان میں خضدار اور پنجگور کے علاقے میں ہوشاب بسیمہ سوراب شاہراہ اور گوادر تربت ہوشاب سیکشن کیلئے 2.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

ریلویز (Railways)

38۔ ریلوے مسافروں اور سامان کی سستی، تیز رفتار اور آرام دہ ترسیل کا ذریعہ ہے۔ لہذا اس کی ترقی ہماری حکومت کی اہم ترجیح ہے۔ گزشتہ 4 سالوں کے دوران ریلوے میں متاثر کن تبدیلی لائی جا چکی ہے۔ ہرسال آمدنی بڑھ رہی ہے، مسافروں اور سامان کی نقل و حمل کیلئے نت نئی خدمات کا اجراء کیا جا رہا ہے اور نئے انجن اور بوگیاں شامل کی جا رہی ہیں۔ حکومت اس قومی اثاثے کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے پر عزم ہے۔ اگلے مالی سال میں 42.9 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ اگلے سال کے بجٹ میں مندرجہ ذیل منصوبے ہماری ترجیحات میں شامل ہوں گے۔
(1) 75 نئے انجنوں کی خریداری کیلئے 15.8 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
(2) 830 بوگیوں کی تیاری اور 250 مسافر کوچز کیلئے 4.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
(3) پشاور تا کراچی ریلوے لائین جو تکنیکی طور پر ML-1 کے نام سے مشہور ہے پاکستان کے انفراسٹرکچر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی بہتری اور اپ گریڈیشن کیلئے چین کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے گئے ہیں۔ یہ ایک عظیم منصوبہ ہے جو کہ پاکستان میں ریلویز کو جدید خطوط پر استوار کرے گا۔
(4) ML-1 line کی بحالی اور up gradation کے ابتدائی ڈیزائن کیلئے اگلے مالی سال میں 4.2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

Human Development

39۔ وژن 2025ء میں Human Developement کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔حکومت اس میں سرمایہ کاری کو جاری رکھے گی۔ اس کیلئے ہائرایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں پچھلے سال کے 21.5 ارب روپے کے مقابلے میں 35.7 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ترقیاتی پروگرام کے علاوہ HEC کو جاری اخراجات کی مد میں 60.2 ارب روپے دیئے جائیں گے۔ صحت کے شعبے میں وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کا بجٹ 25 ارب سے بڑھا کر 49 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ جاری سال کے مقابلے میں سرمایہ کاری کو دوگنا کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے اعلان کے مطابق 80 ارب روپے کی لاگت سے ہسپتالوں کیلئے ایک نیا پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ پہلے سال میں اس مد میں 8 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کے نیشنل ہیلتھ پروگرام کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو رہا ہے جس کیلئے 10 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں شعبہ صحت کے متعدد پروگراموں بشمول EPI، فیملی پلانننگ، Primary Health Care اور Population welfare پروگرامز میں سرمایہ کاری کا حجم پچھلے سال کے مقابلے میں بڑھایا جا رہا ہے۔

40۔ دو تہائی بیماریاں پینے کے خراب پانی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ پینے کا صاف پانی صحت عامہ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ضمن میں ایک سپیشل پروگرام Clean Drinking Water شروع ہو رہا ہے جس کیلئے اگلے سال میں 12.5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ مزید برآں، وزیر اعظم کے SDG پروگرام پروگرام کیلئے 30 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جو Social Indicators میں بہتری لانے میں معاون ثابت ہوں گے۔

گوادر کی ترقی

41۔ گوادر کی ترقی کو پاک چین اقتصادی راہداری میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سڑکوں کا جال بچھانے اور ایئر پورٹ کی کشادگی اور جدت اور پورے علاقے کی ترقی کیلئے ایک جامع منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں 2017-18ء میں 31 منصوبے شامل کئے گئے ہیں۔ ان میں نئے ایئر پورٹ کا قیام، 200 بستر کا ہسپتال، 300 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ اور کھارے پانی کو صاف کرنے کا پلانٹ (Desalination Plant )شامل ہیں۔
42۔ 2017-18 میں CPEC میں شامل منصوبے اپنے نفاذ کے تیسرے سال میں داخل ہو جائیں گے۔ اگلے مالی سال کے دوران CPEC اور اس سے منسلک منصوبوں کیلئے 180 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔

خصوصی علاقہ جات

43۔ خصوصی علاقہ جات کی تیز رفتار ترقی کیلئے 62 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر آزادجموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے ترقیاتی فنڈز مالی سال 2016-17 کے 25.75 ارب روپے سے بڑھا کر مالی سال 2017-18 میں 43.64 ارب روپے کئے جانے کی تجویز ہے جو کہ 69 فیصد کا تاریخی اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ 26.9 ارب روپے فاٹا کی ترقی کیلئے مختص کئے جا رہے ہیں۔

امن اور سلامتی

44۔ ستمبر 2013 میں وزیر اعظم کی ہدایت پر حکومت نے کراچی کی رونقیں بحال کرنے کیلئے Operation کا آغاز کیا۔ اس کے انتہائی مثبت نتائج حاصل ہوئے ہیں اور روشنیوں کے شہر کراچی میں دوبارہ سے ثقافتی اور تجارتی سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ کراچی پھر سے پاکستان کا Business Capital بن کر ابھرا ہے اور ہر شعبے میں نئی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔

45۔ پاکستان دہشت گردی کی عالمی جنگ میں صف اول کی ریاست کا کردار ادا کر رہا ہے۔ جون 2014ء میں حکومت نے شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف بڑی کاروائی کا فیصلہ کیا اور پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا۔ قوم کو فخر ہے کہ پاکستان کی بہادر افواج نے چھپ کر وار کرنے والے بزدل دشمن کو شکست فاش دی۔ کوئی مارا گیا، کوئی پکڑا گیا اور کوئی بھاگ گیا۔ یہ فتح ہمارے بہادر فوجیوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ آج پوری دنیا کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔ مگر کسی فوج نے دہشت گردوں کے خلاف اتنی جامع فتح حاصل نہیں کی۔ جتنی پاک فوج کو حاصل ہوئی۔ ہمارے جوانوں نے مشکل حالات میں اپنے پیاروں سے دور وقت گزارا‘ شہادت حاصل کی‘ معذور ہوئے مگر ہمت نہیں ہاری اور بالآخر ہمیں کامیابی نصیب ہوئی۔ وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کا صفایا کردیا گیا ہے۔ اب وہ کبھی کبھار سرحد پار سے آنکلتے ہیں مگر منہ کی کھاتے ہیں۔ ہمارے بہادر جوانوں اور غیور افسروں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں۔
46۔ قوم کے بہادر سپوتوں کی بے پناہ قربانیوں کی Recognition کے طور پر میں وزیراعظم کی جانب سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ افواج پاکستان کے تمام افسران اور جوانوں کو تنخواہ کا 10 فیصد ضرب عضب سپیشل الاؤنس دیا جائے گا۔ یہ الاؤنس تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے جو اعلان کیا جائے گا اس کے علاوہ ہے۔
47۔ آپریشن ضرب عضب جیسے بڑے قومی اقدام کے لئے وسیع مالی وسائل درکار ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف یہ ایک قومی فریضہ ہے جس کے للئے وسائل فراہم کرنا پوری قوم پر لازم ہے۔ اس سلسلے میں حکومت پچھلے تین سال سے 90 سے 100 ارب روپے سالانہ بالواسطہ یا بلاواسطہ خرچ کر رہی ہے۔ بلاواسطہ فوجی کارروائی کے اخراجات کے حوالے سے اور بالواسطہ TDPs کی کفالتٗ واپسیٗ آباد کاری اور علاقہ کے ترقیاتی اخراجات کی مد میں۔ اس ضمن میں National Security Committee نے یہ تجویز دی تھی کہ Gross Divisible Pool کا تین فیصد حصہ اس قومی فریضہ کے لئے مختص کیا جائے۔ یہ معاملہ ابھی CCI او ر NFC میں زیر بحث ہے۔
48۔ اسی طرح کشمیرٗ گلگت بلتستان اور فاٹا کے لئے Gross Divisible Pool سے 3 فیصد رقم مختص کئے جانے پر بھی صوبوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ NEC کی گزشتہ میٹنگ میں آزاد کشمیر کے وزیراعظمٗ وزیراعلی گلگت بلتستان اور گورنر KPK نے فاٹا کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ مطالبہ یہ کہہ کر دہرایا کہ وہ بھی پاکستان کا حصہ ہیں اور ان کا بھی Divisible Pool پر حق ہے۔
49۔ میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ Gross Divisible Pool میں سے 3+3 فیصد کی Allocation کے بارے میں فیصلے کی تاخیر کی وجہ سے NFC ایوارڈ کو حتمی شکل دینے میں تاخیر ہو رہی ہے۔ میں اپنے ہم منصب پارلیمنٹرینز سے درخواست کروں گا کہ وہ صوبائی حکومتوں سے اس منصفانہ اور مناسب Allocation کے حوالے سے اپنا مثبت کردار ادلا کریں۔
بجٹ تخمینہ جات Budget Estimates 2017-18
50۔ اب میں آئندہ مالی سال کے اہم بجٹ تخمینہ جات کی طرف آتا ہوں۔
(1) مجموعی مالی محصولات کا تخمینہ 5,310 ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں FBR کی ٹیکس وصولی 4,013 روپے ہے۔ یاد رہے کہ نظرثانی شدہ ہدف 3,521 ارب روپے تھا۔ کل آمدنی میں 12.1 فیصد اضافہ کیاجا رہا ہے جبکہ FBR کی ٹیکس وصولی میں 14 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
(2) کل آمدنی میں سے صوبائی حکومتوں کا حصہ 2,384 ارب روپے بنتا ہے جوکہ 2016-17ء کے نظرثانی شدہ ہدف 2,121 ارب روپے کے مقابلے میں 12.4 فیصد زیادہ ہے۔ یہ وسائل صوبائی حکومتیں انسانی تر قی اور لوگوں کی سیکیورٹی کے لئے خرچ کریں گی۔
(3) صوبائی حکومتوں کا حصہ نکالنے کے بعد وفاقی حکومت کی بقیہ آمدنی 2017-18ء میں 2,926 ارب روپے متوقع ہے جوکہ 2016-17ء میں 2,616 ارب روپے ہے۔
(4)۔ 2017-18ء میں کل اخراجات کا تخمینہ 4,753 ارب روپے ہے جوکہ 2016-17ء کے نظرثانی شدہ اخراجات 4,256 ارب روپے سے 11.7 فیصد زیادہ ہے۔ کل اخراجات میں سب سے زیادہ اضافہ ترقیاتی بجٹ میں کیا گیا ہے۔
(5) دفاعی بجٹ کی مد میں نظرثانی شدہ تخمینہ جات کے مطابق پچھلے سال کے 841 ارب روپے کی نسبت اس سال 920 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔
(6) جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ PSDP بجٹ رواں مالی سال کے نظرثانی شدہ تخمینے 715 روپے کی نسبت 40 فیصد اضافے کے ساتھ 1,001 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
(7) اوپر دیئے گئے آمدنی اور اخراجات کے تخمینوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اس سال بجٹ خسارہ کم ہو کر GDP کے 4.1 فیصد تک آیا ہے۔ گزشتہ سال کے نظرثانی شدہ خسارے کا تخمینہ 4.2 فیصد ہے۔
حصہ دوم
جناب سپیکر
اب میں اپنی بجٹ تقریر کا دوسرا حصہ پیش کروں گا جو ٹیکس تجاویز پر مشتمل ہے۔
51۔ گزشتہ چار سالوں میں حکومت نے دوررس انتظامی اصلاحات کا آغاز کیا تاکہ ایک منصفانہ اور فعال ٹیکس نظام وضع کیا جاسکے۔ ایک وسط مدتی جامع حکمت عملی کے تحت ہم ٹیکس اور شرح نمو کے مابین 15فیصد کا قابل قدر تناسب حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
52۔ امتیازی رعایتوں اور Exemptions کا خاتمے کے لئے FBR نے ایک تاریخی عمل کا آغاز کیا جس کے تحت گزشتہ تین برسوں میں تین سو ارب روپے کی امتیازی رعایتیں اور Exemptions واپس لی گئی ہیں۔
53۔ اسی سمت میں آگے بڑھتے ہوئے مالی سال 2017-18ء میں جن رہنما اصولوں پر ٹیکس اقدامات تجویز کئے ہیں ان میں اس حکومت کی گزشتہ برسوں کے کامیاب تفریقی ٹیکسٗ جس میں ٹیکس ادائیگی کی حوصلہ افزائی اور عدم ادائیگی پر جرمانےٗ ملکی صنعت کا تحفظٗ تفریقات کا خاتمہٗ منصبی اختیارات میں کمیٗ کاروبار میں آسانیٗ شرح نمو اور روزگار میں اضافے کی ترغیبات اور براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ شامل ہے۔
جناب سپیکر
54۔ اپنی تقریر کے پہلے حصے میںٗ میں نے ایوان کے سامنے ٹیکس میں Relief اور شرح نمو میں اضافے کے لئے اقدامات کا ذکر کیا تھا جو معیشت کے مختلف سیکٹرز سے متعلق ہیں۔
55۔ اب میں معزز ایوان کے سامنے 2017-18ء میں شامل ٹیکسوں کے حوالے سے مزید ریلیف کا ذکر کروں گا۔ سب سے پہلے انکم ٹیکس کے ضمن میں دی جانے والی ریلیف کچھ یوں ہے۔
انکم ٹیکس
رعایتی اقدامات
جناب سپیکر
56۔ مناسب شرح ٹیکس برائے کارپوریٹ سیکٹر: حکومتی پالیسی کے تحت کمپنیاں بنانے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کے لئے ہم نے 2013ء سے جب اس ٹیکس کی انتہائی شرح 35 فیصد تھی اس میں ہر سال ایک فیصد کی کمی کا آغاز کیا تھا۔ ہمارے اس عزم کے تحت یہ شرح اگلے سال یعنی ٹیکس سال 2018ء میں 30 فیصد ہوگی۔
57۔ اسلامی بنکاری کی ترغیبات: اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی سفارشات کے مطابق اور اسلامک فنانسنگ کی حوصلہ افزائی کے لئے ہم اسلامک بنکنگ کی مختلف اقسام مثلاً مشارکہ‘ اجارہ اور مرابحہ پر ٹیکسوں کی وہی شرح تجویز کرتے ہیں جو روایتی بنکنگ میں رائج ہے۔
58۔ Compliant ٹیکس گزاروں کو رعایت: ٹیکس نظام کی Compliance کرنے والے ٹیکس گزاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ودہولڈنگ ٹیکس میں درج ذیل کمی تجویز کی جارہی ہے۔
850cc تک کی گاڑیوں پر یہ شرح 10,000 روپے سے کم کرکے 7500 روپے‘ 851-1000cc تک کی گاڑیوں پر یہ شرح 20,000 روپے سے کم کرکے 15,000 روپے‘ 1001-1300cc والی گاڑیوں میں یہ شرح 30,000 روپے سے 25,000 روپے۔ ٹیکس گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کے لئے Withholding ٹیکسوں کی شرح میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔
59۔ وزیراعظم کی یوتھ لون سکییم کے تحت لی گئی گاڑیوں پر ودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ: بے روزگار نوجوانوں کو سہولت دینے کے لئے تجویز کیا جاتا ہے کہ وزیراعظم کی یوتھ لون سکیم کے تحت خریدی گئی گاڑیوں کو ودہولڈنگ ٹیکس سے چھوٹ دی جائے۔
60۔ تعلیمی اخراجات پر رعایت۔ کم آمدنی والے طبقے جن کے لئے تعلیمی اخراجات ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں انہیں رعایت دینے کے لئے 2016-17ء کے بجٹ میں ان افراد کو جن کی سالانہ آمدنی دس لاکھ روپے سے کم تھی انہیں فی بچے کے تعلیمی اخراجات پر 60,000 ہزار روپے کی حد تک ٹیکس میں پانچ فیصد رعایت دی گئی تھی۔ اس سال تجویز کیا جاتا ہے کہ سالانہ آمدنی کی اس حد کو 15 لاکھ تک بڑھا دیا جائے۔ اس اقدام سے متوسط آمدنی والا طبقہ بھی مستفید ہو سکے گا۔
61۔ Advance ٹیکس کی انتہائی حد میں اضافہ: اس وقت وہ ٹیکس گزار جن کی آمدنی پانچ لاکھ روپے یا اس سے زیادہ ہے وہ سال گزشتہ کے ادا شدہ ٹیکس کے حساب سے چار اقساط میں Advance ٹیکس ادا کر سکتے ہیں۔ آمدنی کی یہ حد 2010ء میں مقرر کی گئی تھی لہذا تجویز کیا جاتا ہے کہ آمدنی کی اس حد کو پانچ لاکھ روپے سے بڑھا کر دس لاکھ روپے کردیا جائے تاکہ چھوٹے ٹیکس گزاروں کو سہولت مل سکے۔
62۔ خام مال کی درآمد پر Exemption کی انتہائی حد میں اضافہ: صنعتوں کو فروغ دینے کے لئے تجویز کیا جاتا ہے کہ انکم ٹیکس کی Exemption Certificate کے تحت درآمد کئے جانے والے خام مال کی حد جو پچھلے برس کی درآمد شدہ مقدار کا 110 فیصد ہے‘ اسے بڑھا کر 125 فیصد کردیا جائے۔
63۔ دواؤں کی صنعت میں فروخت کے اخراجات کی انتہائی حد میں اضافہ: 2016-17ء کے بجٹ میں دواساز صنعتوں کے فروخت کے اخراجات کی حد فروخت کے حجم کے 5 فیصد تک مقرر کی گئی تھی جس کی وجہ سے اس صنعت کے فروغ میں مشکلات کا سامنا تھا۔ لہذا تجویز ہے کہ اگلے سال یہ حد بڑھا کر 10 فیصد کردی جائے۔
64۔ روزمرہ اشیاء استعمال پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں کمی: چونکہ روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کے تقسیم کنندگان کے منافع کی شرح کم ہے لہذا دفعہ 113 کے تحت ان پر ٹیکسوں کی کم ترین شرح 0.2% مقرر کی گئی ہے تاہم ان تقسیم کنندگان کو مال کی فراہمی پر عمومی شرح سے ودہولڈنگ ٹیکس لیا جاتا ہے جوکہ گزشتہ سال 4% سے کم کرکے 3% اور عام کمپنیوں کے لئے 4.5% سے کم کرکے 3.5% کیا گیا تھا۔ یہ شرح اب بھی تقسیم کنندگان کے لئے زیادہ تصور کی جاتی ہے چنانچہ تجویز ہے کہ اس شرح کو 3.5% سے مزید کم کرکے 2.5% کیا جائے تاہم گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کے لئے ان شرحوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
جناب سپیکر
65۔ ودہولڈنگ ٹیکس Statement میں نظرثانی کی رعایت: ودہولڈنگ Agents کے مطالبے پر تجویز کیا جاتا ہے کہ انہیں Withholding Tax Statements میں غلطیوں کی تصحیح کے لئے 60 دن میں نظرثانی کی اجازت دی جائے۔
66۔ گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کے لئے اپیل کا حق: موجودہ قوانین کے مطابق ٹیکس گوشوارے داخل نہ کرنے کی صورت میں Provisional Assessment Order کے اجراء کے 45 دن کے اندر ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ انہیں اپیل کا حق بھی نہیں ہے۔ عوام کے مطالبے اور ان کی جائز شکایات کے ازالے کے لئے موجودہ طریقہ کار کے خاتمے کی تجویز ہے۔ گوشوارے داخل نہ کرنے کی صورت میں Provisional Assessment Order کے بجائے قابل اپیل آرڈر جاری کیا جاسکے گا۔
67۔ سٹاک ایکسچینج میں شمولیت پر ٹیکس کریڈٹ : سال 2016-17ء میں ان کمپنیوں کو قابل ادائیگی ٹیکس پر دو سال تک 20% کی چھوٹ دی جاتی تھی۔ SECP نے اس اقدام کی تعریف کی اور سفارش کی کہ اسے کامیاب بنانے کے لئے مزید تین سال تک لاگو کیا جائے لہذا تجویز ہے کہ جو کمپنیاں سٹاک ایکسچینج میں شامل ہو جائیں انہیں پہلے دو سال 20% جبکہ آخری تین سال میں 10% کی چھوٹ دی جائے۔
68۔ انشورنس Premium پر Exemption کی انتہائی حد میں اضافہ: ٹیکس کے حجم میں اضافے اور قوانین کی پاسداریی کی ترغیب دینے کیلئے پچھلے سال گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کے لائف انشورنسpremium پر ایک فیصدAdjustable Withholding Tax متعارف کرایا گیا تھا جہاں یہ Premium 2 لاکھ روپے یا اس سے زائد تھا۔انشورنس سیکٹڑ کے مطالبے پر تجویز کیا جاتا ہے کہ Premium کی یہ حد بڑھا کر 3 لاکھ روپے کردی جائے۔ تاہم گوشوارے داخل کرنے والوں کیلئے اس ٹیکس سے استثنیٰ جاری رہے گا۔
69 ۔ مخصوص این پی اوز کی آمدنی کوExemption : گلاب دیوی ہسپتال،Poverty Alleviation Fund Pakistan اور نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس Non-profit خیراتی اور سماجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔لہٰذا تجویز ہے کہ انہیں انکم ٹیکس آرڈیننس2001 کے دوسرے شیڈول کی شق (66)میں شامل کرکے ان کی آمدنی کو استثنیٰ دیا جائے۔
ریونیو اقدامات
70 ۔میں اب انکم ٹیکس کے قوانین میں محاصل سے متعلقہ مجوزہ اقدامات کا ذکر کروں گا۔
71 ۔Dividend میں شرح ٹیکس کا اضافہ:تجویز ہے کہ Dividend پر ٹیکس کی یکساں شرح کو 12.5% سے بڑھا کر 15% کیا جائے۔ اسی طرحMutual Fund کے Dividend پر ٹیکسوں کی حالیہ شرح10% سے12.5% کرنے کی تجویز ہے۔ تاہم کچھ مخصوص اقسام کیDividend پر کم شرحوں کے حساب سے ٹیکسوں کی وصولی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
72 ۔منافع پر ٹیکس کی شرح کو معقول بنانا: فی الوقت منافع سے حاصل شدہ آمدنی پر مرحلہ وار شرح حساب سے ٹیکس عائد ہے جو کہ 25 ملین روپے تک ،25 سے50 ملین روپے تک اور 50 ملین روپے سے زائد آمدنی پر بالترتیب10% ،12.5% اور 15% ہے۔اس آمدنی کی موجودہ حدوں کو بالترتیب5 ملین سے25 ملین سے زائد کرنے کی تجویز ہے۔ اس اقدام سے ٹیکس کا نفاذ زیادہ مرحلہ وار اور برابری کی بنیاد پر ہوگا۔
73 ۔ سیکیورٹیز کےCapital Gain پر ٹیکس کی شرح کو معقول بنانا: فی الوقت سیکیورٹیز پر تین درجوں کے اعتباد سے Capital Gain ٹیکس نافذ ہے۔ تجویز کی جاتی ہے کہ Capital Gain ٹیکس کو یکساں شرح سے نافذ کیا جائے اور Filer کیلئے یہ شرح15% جبکہ Non Filer کیلئے20% کرنے کی تجویز ہے۔ اس طرح طویل مدت تک سیکیورٹیز کو روکے رکھنے کی حوصلہ شکنی ہوگی اور اسٹاک ایکسچینج میں خرید وفروخت کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
74 ۔سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ افراد کو فروخت پر ٹیکس کریڈٹ کا خاتمہ : اس وقت ان صنعت کاروں کو جو اپنی 90% فروخت سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ افراد کو کرتے ہیں اپنے کابل ادائیگی ٹیکس میں سے 3% کا ٹیکس کریڈٹ حاصل ہے چونکہ اس اقدام سے سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن کے فروغ کے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کئے جاسکے بلکہ اس ٹیکس کو ایک کٹوتی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے لہٰذا تجویز کیا جاتا ہے کہ اس ٹیکس کریڈٹ کو ختم کردیا جائے ۔
75 ۔ سپر ٹیکس کی تعداد میں اضافہ: 2015-16 کے بجٹ میں متمول طبقے بشمول افراد Associations اورCompanies کی آمدنی ،جو کہ 5 سو ملین روپے سے زائد تھی ،پر بالترتیب 4% برائے Banking Companies اور 3% باقی تمام سپر ٹیکس نافذ تھا۔یہ ٹیکس 2016-17 میں مزید ایک سال کے لئے بڑھا دیا گیا چونکہ وہ اسباب جن کی بنا پر یہ ٹیکس نافذ کیا گیا بدستور موجود ہیں لہٰذا تجویز ہے کہ اگلے سال بھی سپر ٹیکس کو جاری رکھا جائے۔
جناب سپیکر
76 ۔Dividend کی عدم ادائیگی پر ٹیکس کا نفاذ: حکومت کی کوشش رہے ہے کہ چھوٹے شیئر ہولڈرز کو اپنی سرمایہ کاری پر منافع ملے اور ان کے مفادات کا تحفظ بھی ہوچنانچہ 2015-16 کے بجٹ میں انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں ترمیم کی گئی جس کے تحت اگر پبلک کمپنی نے منافع کے حصول کے بعد سرمایہ کاروں میں 6 ماہ تک منافع تقسیم نہیں کیا یا منافع تقسیم کرنے کے بعد بھی سال کے آخر تک کمپنی کے Reserves اس کے paid-up-capital کے 100% سے زائد ہوں تو اس اضافی Amount پر 10% کے حساب سے ٹیکس ادا کیا جائے گا۔
77 ۔فی الوقت غیر منقسم Reserves پر ٹیکس میں چھوٹ حاصل ہے بشرطے بعد از ٹیکس منافع کا 40% یا paid-up-capital کا 50% ،جو بھی کم ہوDividend کے طور پر تقسیم کیا جائے۔Secp کی نشان دہی کے مطابق paid-up-capital کے 50% کی شرط میں اس قانون کی افادیت کو کم کردیا ہے اور اس کے مطلوبہ مقاصد بھی حاصل نہیں ہوسکے لہٰذا Secp کے سفارشات پر paid-up-capital کی یہ شرح ختم کرنے کی تجویز ہے۔مزید برآں یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ اگر منافع تقسیم نہیں کیا جاتا تو اس کمپنی کے Reserves کی بجائے اس کے سالانہ منافع پر 10% کی شرح سے ٹیکس نافذ کیا جائے۔
78 ۔Turn Over پر Minimum ٹیکس کی شرح میں اضافہ : کمپنی کو ترغیب دینے کیلئے حکومت نے کمپنیوں کی ٹیکس کی شرح کو مرحلہ وار کم کیا ہے تاکہ کمپنیاں اپنا اصل منافع ظاہر کریں تاہم یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ اس اقدام سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے اور کمپنیاں اور دوسرے کاروبار ابھی صرف Minimum ٹیکس ہی جمع کروا رہے ہیں لہٰذا تجویز کیا جاتا ہےMinimum ٹیکس کی اس شرح کو ایک فیصد سے بڑھا کر 1.25% کردیا جائے اس اقدام سے قانون کی پاسداری کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی کیونکہ ان کی شرح 31% سے کم ہوکر 30% ہوجائے گی اور ایسے ادارے جو اصل منافع ظاہر نہیں کرتے ان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
79 ۔ Tobacco Cess کی وصولی کے وقت ود ہولڈنگ : غیر قانونی اور نان ڈیوٹی پیڈ سیگریٹ کی پیداوار اور فروخت کے خطرناک حد تک پھیلاؤ نے ایک طرف فروخت سے حاصل شدہ رقم کو کم کردیا ہے دوسری جانب صحت کے مسائل کو جنم دیا ہے کیونکہ Un-Regulated پیداوار میں معیار کا خیال نہیں رکھا جاتا حکومت نے اس ضمن میں کئی اقدامات کئے ہیں تاکہ غیر قانونی پیداوار اور تقسیم کو روکا جاسکے۔تمباکو کی فروخت کو دستاویزی نظام کے دائرہ کار میں لانے کیلئے اور تمام متعلقہ افراد اور ان کی پیداوارسے متعلق معلومات کے حصول کیلئے تجویز کیا جاتا ہے کہ پاکستان ٹوبیکو بورڈ یا اس کے ٹھیکیدارTobacco Cess کی وصولی کے وقت 5% کی شرح سے ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کریں۔
جناب سپیکر
80 ۔ بلڈرز اور ڈویلپرز پر ٹیکس : ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز کی سفارش پر فکسڈ فی یونٹ کے حساب سے جو فائنل ٹیکس پچھلے بجٹ میں عائد کیا گیا تھا اس سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہوسکے لہٰذا اسے واپس لینے کی تجویز ہے۔
81 ۔ الیکٹونک اشیاء کے ڈیلر،ڈسٹری بیوٹرز اور ہول سیلرز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ: فی الوقت الیکٹرونک اشیاء کے ڈیلر ڈسٹری بیوٹرز اور ہول سیلرز اشیاء کی فروخت پر Retailers سے 0.5% کی شرح سے ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کرتے ہیں الیکٹرونک ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے مطالبے پر یہ شرح ایک فیصد تک بڑھانے کی تجویز ہے۔
82 ۔ نان فائلرز پر Differential ٹیکس کی شرح:موجودہ حکومت نے ٹیکس گزاروں کے مطالبے پر نان فائلرز سے زیادہ شرح سے ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کرنے کی پالیسی متعارف کرائی تھی تا کہ ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ افزائی ہو اور ٹیکس نہ دینے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاسکے اس پالیسی کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں اور گزشتہ تین برسوں میں گوشوارے داخل کرنے والوں کی تعداد 7 لاکھ50 ہزار سے بڑھ کر 12 لاکھ25 ہزار ہوگئی ہے اس پالیسی کو جاری رکھنے اور مزید بہتر بنانے کی غرض سے نان فائلرز پر ٹھیکوں ،فروخت اور خدمات غیر مقیم افراد کو ادائیگی کرائے سے آمدنی پرائز بانڈ اور لاٹری کے انعامات کمیشن، نیلامی، سی این جی اسٹیشن کے گیس بل کی وصولی صنعت کاروں اور درآمد کنندہ گان کی ڈسٹری بیوٹرز ڈیلرز اور ہول سیلرز کو فروخت پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرحوں کو مزید بڑھانے کی تجویز ہے تاہم فائلرز کیلئے موجودہ شرحیں بغیر کسی اضافے کے برقرار رہیں گی۔
83 ۔Non -Profit ادارے :فی الوقت اگر Non -Profit ادارے اپنی آمدنی کا 75% سے زائد خیراتی اور سماجی سرگرمیوں میں خرچ نہیں کرتے تو ان کاNPO کا مرتبہ ختم ہوجاتا ہے اور ان کی کل آمدنی 30% کی شرح سے ٹیکس نافذ ہوتا ہے اس مشکل کو ختم کرنے کیلئے تجویز کیا جاتا ہے کہ اگر یہ ادارے اپنی آمدنی کا75% سے زائد صرف نہ کرسکیں تو ایسی غیر استعمال شدہ رقم پر 10 فیصد کی شرح سے ٹیکس نافذ کیا جائے اور ان کا NPO کا مرتبہ بحال رہے۔ مزید یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ ایسے اداروں کے انتظامی اخراجات پر 15 فیصد کی حد مقرر کی جائے۔

سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی
ریلیف اقدامات
جناب سپیکر!
84۔ اب ان ریلیف اقدامات کا ذکر کروں گا جو کہ ہم نے سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز قوانین کے حوالے سے موجودہ بجٹ میں تجویز کئے ہیں۔
85۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے فراہم کردہ Lubricating Oil پر اضافی ٹیکس کا خاتمہ: آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے فراہم کردہ Lubricating Oil پر عائد 2 فیصد اضافی ٹیکس کے خاتمہ کی تجویز ہے۔
86۔ Hybird الیکٹرک گاڑیوں کی مقامی سطح پر فراہمی پر عائد سیلز ٹیکس میں کمی: کم توانائی پر چلنے والی موٹر گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے درآمد کے وقت ان پر عائد سیلز ٹیکس کی کم شرح کو ان گاڑیوں کی مقامی سطح پر فراہمی پر بھی مہیا کرنے کی تجویز ہے۔
87۔ اپیل کے فیصلے تک وصولی کو Automatic Stay: ٹیکس گزاروں کو درپیش مشکلات کا ازالہ کرنے کیلئے تجویز ہے کہ اگر ٹیکس گزار سیلز ٹیکس کی ریکوری کے حوالے سے اصل رقم کا 25 فیصد پیشگی جمع کرا دیں تو انہیں کمشنر اپیل کے فیصلے تک مطلوبہ رقم کی ریکوری پر خود بخود Stay مل جائے۔ یہ سہولت فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے حوالے سے بھی دی جائے گی۔
88۔ Stunting کی روک تھام کیلئے Premixes پر سیلز ٹیکس میں چھوٹ: مخصوص Premixes پر عائد سیلز ٹیکس میں چھوٹ دیے کی تجویز ہے تاکہ Stunting کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جا سکے۔ اس حوالے سے چھٹے شیڈول میں پہلے سے موجود عمومی چھوٹ کا دائرہ کار مزید بڑھانے کی تجویز ہے۔
89۔ رجسٹرڈ افراد کے مابین Supplies پر لاگو سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ کا خاتمہ: کاروبار کو مزید آسان بنانے کیلئے تجویز ہے کہ رجسٹرڈ افراد کی جانب سے دیگر افراد کو اشیاء کی فراہمی پر عائد سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ ختم کر دی جائے۔ تاہم سرکاری اداروں کو فراہم کردہ اشیاء پر عائد سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ برقرار رہے گی۔
90۔ پولٹری کی مشینری پر سیلز ٹیکس میں کمی: پولٹری کے کاروبار میں استعمال ہونے والی 7 مختلف قسم کی مشینریوں پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد سے کم کر کے 7 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ اس اقدام سے اس سیکٹر میں سمایہ کاری اور پیداوار میں اضافہ ہوگا۔
91۔ مخصوص خدمات کی فراہمی پر عائد سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی: صوبوں کی جانب سے بعض خدمات پر Input Adjustment کے بغیر سیلز ٹیکس کی کم شرحوں کا نفاذ کیا گیا ہے۔ توازن اور سہولت کی غرض سے سیلز ٹیکس کی ان کم شرحوں کو اسلام آباد کیپٹل ٹیرٹری کی حدود میں بھی لاگو کرنے کی تجویز ہے۔
92۔ Multi Media Projectors پر سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی: تعلیمی اداروں میں Multi Media Projectors کے استعمال کو فروغ دینے کیلئے تجویز کیا جاتا ہے کہ ان پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 17 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دیا جائے۔ Multi Media Projectors پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح پہلے ہی 3 فیصد ہے۔

ریونیو اقدامات

93۔ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ: سیمنٹ سیکٹر میں قابل ذکر ترقی ہو رہی ہے اس لئے ضروری ہے کہ یہ سیکٹر حکومتی مالی وسائل میں اضافے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ اس سلسلے میں سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں ایک روپیہ فی کلو گرام سے 1.25 روپے فی کلو گرام کے اضافے کی تجویز ہے۔ توقع ہے کہ اس اقدام سے سیمنٹ کی قیمتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور انڈسٹری اس معمولی اضافے کو بآسانی برداشت کر پائے گی۔
94۔ Zero Rated سیکٹرز کی Retail Sale پر سیلز ٹیکس: پچھلے سال کے بجٹ میں پانچ بڑے برآمدی سیکٹرز کو Zero Sale پر 5 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔ اب ان سیکٹرز کے Retailers سے مشاورت کے بعد اس شرح کو 6 فیصد تک بڑھانے کی تجویز ہے۔
95۔ کپڑے کی کمرشل درآمد پر سیلز ٹیکس: اس وقت کپڑے کی کمرشل درآمد پر سیلز ٹیکس
صفر فیصد ہے جس کو بڑھا کر 6 فیصد کرنے کی تجویز ہے تاکہ کپڑے کے مقامی صنعتکاروں کو صحت مند مسابقت کی فضا میسر ہو سکے۔
96۔ سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ: اس سیکٹر سے ڈیوٹی کی وصولی بڑھانے اور سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی کیلئے سگریٹ کے دو موجودہ درجات پر ڈیوٹی کی شرح بڑھانے کی تجویز ہے۔ مزید برآں اس سیکٹر کی Documentation اور سمگلنگ اور غیر معیاری سگریٹوں کی روک تھام کیلئے ایک نیا درجہ متعارف کرانے کی تجویز ہے۔
97۔ سٹیل سیکٹر پر عائد سیلز ٹیکس میں اضافہ اور :Rationalization سٹیل سیکٹر پر عائد سیلز ٹیکس کی شرح کو Rationalize کرنے کیلئے بجلی پر 9 روپے فی یونٹ کی موجودہ شرح کو بڑھا کر 10.5 روپے کیا جا رہا ہے اور اسی لحاظ سے شپ بریکنگ اور متعلقہ صنعتوں میں اضافہ متعارف کیا جائے گا۔ اس شعبے میں کاروبار کو آسان بنانے کیلئے سٹیل کی صنعت کے مسائل کو مشاورت سے حل کیا جائے گا۔

کسٹمز
جناب سپیکر!
98۔ اب کسٹمز سے متعلق تجاویز ایوان میں پیش کی جاتی ہیں۔

99۔ نیا ایچ ایس کوڈ Version :2017 World Customs Organization
Harmonized Commodity Description and Coding System جو کہ عرف عام میں ایچ ایس سسٹم کے نام سے جانا جاتا ہے ایک اہم کنونشن ہے جس کی بدولت عالمی سرحدوں کے مابین اشیاء کی خرید و فروخت بغیر کسی مشکل کے ہو رہی ہے۔ ہر پانچ سال بعد ڈبلیو سی او اس کنونشن کا جائزہ لیتا اور تجدید کرتا ہے۔ ڈبلیو سی او نے نئے ایچ ایس Version کا یکم جنوری 2017ء سے نفاذ کر دیا ہے۔ پاکستان ایچ ایس کنونشن کا حصہ ہونے کے ناطے اس نئے Version کو نئے مالی سال یعنی یکم جولائی 2017ء سے اختیار کرنے کا پابند ہے۔

100۔ ایچ ایس 2017ء کی ترامیم سے دنیا بھر میں خرید و فروخت ہونے والی 15 فیصد کے لگ بھگ اشیاء پر اثر پڑے گا۔ ایچ ایس 2017ء میں ہونے والی زیادہ تر تبدیلیاں ماحولیاتی اور سماجی امور سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ نئے Version میں اشیاء کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے تاکہ ان کی تیاری کے مراحل اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی کا احاطہ کیا جا سکے۔ نئے Version کے نفاذ سے نہ صرف ایک قانونی تقاضا پورا ہو گا بلکہ اس عمل سے امپورٹرز، ایکسپورٹرز اور دیگر تمام افراد کو مدد ملے گی جن کا کاروبار اور شراکتیں عالمی سطح پر پھیلی ہوئی ہیں۔

جناب سپیکر!
101۔ زرعی شعبہ اور پولٹری فارمنگ سیکٹر کیلئے ریلیف : پولٹری فارم سیکٹر نہ صرف ملک کے درمیانی آمدنی والے طبقے کو سستا چکن فراہم کر رہا ہے بلکہ یہ شعبہ ملکی صنعت میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس شعبہ کو مزید ریلیف دینے کیلئے تجویز ہے کہ چکن کے Grand Parent اور Parent Stock کی امپورٹ پر عائد 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کو ختم کر دیا جائے اور کسٹمز ڈیوٹی کو 11 فیصد سے کم کر کے 3 فیصد کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ تجویز ہے کہ Hatching Eggs پر عائد کسٹم ڈیوٹی کو 11 فیصد سے کمک کر کے 3 فیصد کر دیا جائے۔ اس عمل سے اس کاروبار کے Inputs کی لاگت کو کم کرنے اور اس شعبہ کو مزید ترقی اور فروغ دینے میں مدد ملے گی۔

102۔ حکومت ملک میں مشینی فارمنگ کے فروغ کیلئے کاوشیں کر رہی ہے تاکہ پیداوار میں اضافہ ہو سکے اور ملکی معیشت میں اس شعبہ کا کردار مزید مستحکم بنایا جاسکے۔ نئی کمبائینڈ harvesters پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ ہے تاہم پرانی اور استعمال شدہ Harvesters تک بڑھانے کی تجویز ہے تاکہ ان کی ملک میں درآمد کم سے کم لاگت پر ممکن ہو سکے۔

103۔ شتر مرغ فارمنگ: ملک میں شترمرغ فارمنگ شروع ہو چکی ہے جس کی بدولت نہ صرف خوراک میں پروٹین کے جزو کو بڑھانے میں مدد ملے گی بلکہ ملک سے گوشت کی برآمد میں بھی اضافہ ہو گا۔ ملک میں شترمرغ فارمنگ کی حوصلہ افزائی کیلئے شترمرغوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ دینے کی تجویز ہے۔

104۔ ریلیف برائے ہیلتھ سیکٹر: ہیلتھ سیکٹر ہمیشہ سے حکومت کی ترجیح رہا ہے مریضوں کو معیاری اور سستا علاج مہیا کرنے کیلئے کئی اقدامات پہلے سے ہی اٹھائے جا چکے ہیں۔ پچھلے سالوں کی طرح اس سال بھی اس شعبہ کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات کی تجویز ہے۔
a) فارما، بائیو ٹیکنالوجی اور لائف سائنسز میں استعمال کو فروغ دینے کیلئے Pre-fabricated Clean Rooms کی امپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی 20 فیصد سے کم کر کے 3 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
b) Fabric (Non-Woven) فارما سیوٹیکل سیکٹر میں Surgical Gown, Bandge اور زخموں کی مرہم پٹی کیلئے اسعتمال ہوتا ہے۔ اس وقت اس کپڑے پر 16 فیصد کی شرح سے کسٹم ڈیوٹی عائد ہے۔ تجویز ہے کہ فارما سیوٹیکل سیکٹر کو فروغ دینے اور مریضوں کیلئے علاج معالجہ کی لاگت کم کرنے کیلئے اس کپڑے پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح کو 16 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کر دیا جائے۔

جناب سپیکر!
c) مشینری، ایکوئپمنٹ، آپریٹس، اپلائنسز، ویل چیئرز، سرجیل ڈینٹل فرنیچر اور Spares کی ڈیوٹی فری امپورٹ کی سہولت 50 بیڈ کے ہسپتال چلانے والی خیراتی، Non Profit اداروں کے ساتھ ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے زیر اہتمام چلنے والے ہسپتالوں کو دستیاب ہے۔ تجویز ہے کہ متعلقہ شق میں ترمیم کے ذریعہ اب اس سہولت کا دائرہ کار مسلح افواج، فوجی فاؤنڈیشن اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے زیر اہتمام چلنے والے ہسپتالوں تک وسیع کر دیا جائے۔
d) الیکٹرک سگریٹوں کی مناسب طریقہ سے درجہ بندی نہیں کی جا رہی اس لئے ان پر صرف 3 فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد ہے۔ تجویز ہے کہ صحت پر ان کے نقصان دہ اثرات کے موجب الیکٹرک سگریٹوں کی مناسب درجہ بندی کی جائے اور ان پر 20 فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد کی جائے۔

جناب سپیکر!
105۔ پان اور چھالیہ: بجٹ 2016-17ء میں پان اور چھالیہ کے استعمال کی حوصلہ شکنی کیلئے ان پر عائد ڈیوٹی کی شرح بڑھا دی گئی تھی۔ اس سال بھی چھالیہ پر ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح 10 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کی جا رہی ہے جبکہ پان کی امپورٹ پر 200 روپے فی کلوگرام ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کی تجویز ہے۔

106۔ ریلیف برائے انڈسٹریل سیکٹر:
a) معیشت کی نمو میں انڈسٹریل سیکٹر کا کلیدی کردار ہے لوگوں کی پیداواری صلاحیت اور ملازمت کے ذرائع بھی اس سیکٹر کے مرہون منت ہیں۔ معیشت میں اس سیکٹر کے اہم کردار کی وجہ سے حکومت اس سیکٹر کے فروغ کیلئے کوششیں کر رہی ہے گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی اس سیکٹر کو ریلیف دینے کیلئے کئی اقدامات کی تجویز ہے۔
b) Aluminium Waste Scrap آٹو پارٹس، پنکھوں اور برتن سازی کی صنعت سمیت دیگر کئی صنعتوں میں بنیادی خام مال کی حیثیت سے استعمال ہوتا ہے۔ اس خام مال پر اس وقت 3 فیصد کسٹم ڈیوٹی اور 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہے۔ اس صنعت کو ریلیف دینے کیلئے ریگولیٹری ڈیوٹی کو 10 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
c) Metallic Yarn روایتی پہناؤں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ آج کل اس شعبہ کو خام مال پر زیادہ ٹیرف ریٹ اور اس کی حتمی مصنوعات پر کم ریٹ کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ تجویز ہے کہ اس شعبہ کو ریلیف دینے کیلئے اس کی حتمی مصنوعات پر 5 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لاگو کی جائے اور اس شعبہ کے اہم خام مال پر کسٹم ڈیوٹی 20 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کر دی جائے۔
d) حکومت درمیانے اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے معیار زندگی کو بلند کرنے کیلئے کئی اقدامات اٹھا رہی ہے۔ شیرخوار بچوں کی صحت کیلئے Baby Diapers بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ملک میں Baby Diapers کی طلب کو سامنے رکھتے ہوئے اور اس شعبہ میں سرمایہ کاروں کے منصوبوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس صنعت کیلئے مقامی سطح پر تیار ہونے والے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی 16 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کر دی جائے جبکہ Baby Diapers کے تیار کنندگان کیلئے یہ شرح 20 فیصد سے کم کر کے 16 فیصد کر دی جائے۔
e) ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر ملک کی اقتصادی ترقی کیلئے اہم ستون کی حیثیت رکھتا ہے اس شعبہ کو مزید مراعات دینے کیلئے 11 فیصد اور 16 فیصد سے لاگو موجودہ کسٹم ڈیوٹیاں ختم کی جا رہ یہیں اور اس کی بجائے ٹیلی کام Equipment پر 9 فیصد یکساں ریٹ کے حساب سے ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ کی تجویز ہے۔

107۔ لکڑی کا شعبہ: لکڑی کے شعبہ کو استحکام دینے کیلئے Veneer Sheets پر عائد 16 فیصد کسٹم ڈیوٹی کم کر کے 11 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

آٹو سیکٹر تجاویز:
جناب سپیکر!
108۔ اس سلسلہ میں مجوزہ اقدامات کی تفصیلات یہ ہیں
a) فی الحال کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی مد میں لاگو رعایتی نرخ جو کہ قابل ادائیگی ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں کا 50 فیصد ہیں، 1800 سی سی تک کی Hybrid الیکٹرک گاڑیوں (ایچ ای وی) کی امپورٹ پر جاری رہیں گے اور 1801 سے 2500cc تک گاڑیوں پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز پر 25 فیصد کی رعایتی شرح برقرار رہے گی۔
b) آٹو ڈیلپمنٹ پالیسی 2016-17ء میں ایندھن کی بچت اور ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کیلئے مکمل طور پر الیکٹرک گاڑیوں پر مراعات دی گئی ہیں۔ ان گاڑیوں پر عائد ڈیوٹی پر ریلیف دینے کیلئے تین مہینوں کے اندر ایک پیکج کا اعلان کیا جائے گا۔
c) فی الوقت Trailers کی مقامی اسمبلی اور تیاری کیلئے درکار 10 اہم اجزاء 5 فیصد کی رعایتی کسٹم ڈیوٹی کی شرح سے درآمد کئے جا سکتے ہیں۔ ای ڈی بی کی سفارش پر آنے والے CPEC منصوبوں کی ضروریات کے مدنظر اس فہرست میں مزید 11 اجزاء شامل کرنے کی تجویز ہے۔

ریگولیٹری اور اضافی ڈیوٹیوں پر نظرثانی
جناب سپیکر!
109۔ ریگولیٹری ڈیوٹیوں کا نفاذ مقامی صنعتوں کو عالمی منڈی میں اشیاء کی قیمتوں میں بے پناہ تیزی سے ہونے والے ردوبدل کے منفی اثرات سے بچانے کیلئے کیا گیا تھا۔ بیرونی حوادث سے اپنی مقامی صنعتوں کو بچانے کیلئے ان اقدامات کے اٹھانے میں پاکستان اکیلا ملک نہیں ہے حکومت گاہے بگاہے ان اقدامات پر نظرثانی کرتی رہی ہے۔ اس سال بھی اسٹیٹ بینک کی سفارش پر Regulatory Duties میں مناسب اضافہ کیا جا رہا ہے۔
110۔ گذشتہ سال پیمرا کی سفارش پر ملک میں Digital ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے Set Top Boxes، ٹی وی براڈ کاسٹ Reception Apparatus, Transmitters کو 11 فیصد کی رعایتی شرح کے حساب سے درآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ یہ سہولت 30 جون 2017ء تک دستیاب ہے۔ اب تجویز ہے کہ اس رعایتی شرح کی سہولت میں 30 جون 2018ء تک توسیع دی جائے۔ 5 فیصد کی شرح پر سیلز ٹیکس کے رعایتی نرخ کی سہولت میں بھی 30جون 2018ء تک توسیع دیئے جانے کی تجویز ہے۔

حصہ سوم
Relief Measures

111۔ پاکستان کے عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہے، اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل اقدامات کا اعلان کیا جاتا ہے:

شہداء کے خاندانوں کیلئے فلاحی سکیم
112۔ پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ بہت کامیابی سے لڑ رہی ہے۔ ہماری بہادر افواج اس قومی کاوش میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں اور اس جنگ میں ہمارے کئی جوان شہید ہو گئے ہیں۔ قوم شہداء اور ان کے اہلخانہ کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ان کی فلاح کیلئے حکومت محکمہ قومی بچت کے ذریعہ ایک نئی سکیم متعارف کرا رہی ہے۔ اس سکیم کے تحت فوج، پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے شہداء کے پسماندگان کو یقینی اور اضافی منافع دیا جائے گا۔

معذور افراد کیلئے سکیم
113۔ معذور افراد بھی مساوی بنیادوں پر پاکستان کے شہری ہیں اور اپنی مشکلات کی بنیاد پر ترجیحی سلوک کے مستحق ہیں۔ ماضی میں ایسے لوگوں کیلئے سرکاری ملازمتوں میں 2 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا۔ نئے کمپنی ایکٹ کے تحت اس شرط کو Listed کمپنیوں پر بھی لاگو کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت معاشرے کے اس مستحق طبقہ کے مالی امکانات میں اضافہ کیلئے پرعزم ہے۔ اس سلسلہ میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کو پنشنرز اور بیوگان کی طرز پر بہبود سیونگ سرٹیفیکٹ میں سرمایہ کاری کیلئے اہل بنایا جائے جو کہ بہتر منافع فراہم کرتا ہے۔
پاکستان بیت المال
114۔ مالی سال 2017-18ء کیلئے پاکستان بیت المال کے بجٹ کو 4 ارب سے 6 ارب روپے کیا جا رہا ہے جو کہ 50 فیصد اضافہ ہے۔ یہ بجٹ مستحق افراد کی مالی امداد، بچوں کی کفالت کا پروگرام، پاکستان سویٹ ہومز کے تحت یتیموں کی مدد اور غریب بچوں کے علاج کیلئے تھیلیسیمیا مراکز کیلئے استعمال ہو گی۔
115۔ بیواؤں کیلئے قرض کی ادائیگی میں چھوٹ: پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 1999ء میں آغاز کردہ سکیم کو دوبارہ متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سکیم کے تحت بیواؤں کے ذمہ HBFC کے Mortgage کے واجبات حکومت ادا کرے گی۔ اس بار اس سکیم کے تحت قرض ادائیگی کی حد ساڑھے تین لاکھ سے بڑھا کر 5 لاکھ کر دی گئی ہے۔ اس سکیم کا اطلاق ان بیواؤں پر ہو گا جنہوں نے دوبارہ شادی نہیں کی۔
116۔ پنشنرز، بیواؤں اور بز رگوں کیلئے سہولیات: مرکز قومی بچت کثیر تعداد میں بیواؤں، بزرگوں اور پنشن یافتہ افراد کی خدمت کرتا ہے۔ مشکل اور پیچیدہ طریقہ کار کے باعث ان لوگوں کیلئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ مرکز قومی بچت اب Banking Clearing House کا رکن بن چکا ہے جس کے توسط سے اب ادائیگیوں کی Clearance میں درکار وقت 6 دن سے کم ہو کر ایک دن رہ گیا ہے۔ اپنے صارفین کی مزید سہولت کیلئے مرکز قومی بچت اپنی برانچوں کو آن لائن رابطے میں لاتے ہوئے ہمہ وقت دستیاب ہیلپ لائن کی تشکیل، ATMs کیلئے کارڈز کا اجر اء اور موبائل اور انٹر نیٹ بینکنگ کا آغاز کرے گا ۔
117۔ سمندر پار پاکستانیوں کیلئے سہولیات: سمندر پار پاکستانی اس ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں جو کہ پوری دنیا میں بیرون ملک مقیم لوگوں میں تعداد کے اعتبار سے چھٹے نمبر پر ہیں انہیں اپنے آبائی ملک میں سرمایہ کاری کے مواقع کی تلاش ہے۔ اراضی خریدنے کے علاوہ ان کے پاس سرمایہ کاری کے بہت کم راستے موجود ہیں۔ سرمایہ کاری کا موقع فراہم کرنے کی غرض سے حکومت انہیں ملکی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی دعوت دینا چاہتی ہے۔ اس مقصد کیلئے سمندر پار پاکستانیوں کیلئے ایک ارب ڈالرز کا Non-convertible بانڈ جاری کیا جائے گا۔ یہ اقدام پاکستان ڈویلپمنٹ فنڈ کے ذریعے عمل میں لایا جائے گا۔ سمندر پار پاکستانیوں کی رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کیلئے CDA ایک علیحدہ سیکٹر کا اعلان کرے گا۔
118۔ Sales Tax Refunds: سیلز ٹیکس کے ایسے تمام زیر التواء ریفنڈز جن کے RPOs، 30 اپریل 2017ء تک منظور ہو چکے ہیں کو دو مراحل میں ادا کر دیا جائے گا۔ 10 لاکھ روپے تک کے RPOs، 15 جولائی اور باقی تمام RPOs، 14 اگست تک ادا کر دیئے جائیں گے۔
سرکاری ملازمین اور پنشنرز کیلئے ریلیف اقدامات
119۔ حکومت کی طرف سے سرکاری ملازمین اور پنشنرز کو ریلیف دینے کیلئے میں مندرجہ ذیل اقدامات کا اعلان کرتا ہوں۔
1)۔ معزز ارکان پارلیمنٹ کو یاد ہو گا کہ بجٹ 2016-17ء میں تین Adhoc Relief Allowance تنخواہ میں Merge کئے گئے تھے۔ البتہ 2009ء اور 2010ء کے افواج پاکستان اور سول ملازمین کیلئے 2010ء کے Adhoc Relief Allowance، ضم نہیں کئے گئے تھے کیونکہ یہ بڑے الاؤنس تھے۔ اس سلسلے میں تسلسل سے سفارشات موصول ہو رہی تھیں۔ مجھے آج یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ Allowances بھی تنخواہ میں Merge کر دیئے جائیں گے اور Merger کے بعد کی Basic Salary پر 10 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس 2017ء دیا جائے گا۔ افواج پاکستان کیلئے ضرب عضب الاؤنس جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں وہ اس کے علاوہ ہے۔
2) پنشن میں بھی 10 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔
3 ) BPS-05 کے ملازمین کو 5 فیصد ہاؤس رینٹ الاؤنس کی کٹوتی سے مستثنیٰ کیا جا رہا ہے۔
4) ڈیلی الاؤنس کے ریٹ کو بڑھایا جا رہا ہے جس کی اضافے کی شرح 60 فیصد تجویز کی جا رہی ہے۔
5 ) اردلی الاؤنس کو 12,000/- سے بڑھا کر 14,000 روپے کیا جا رہا ہے۔
6) میت کی منتقلی و تدفین کی موجودہ شرح کو 1,600 روپے سے 4,800 اور 5,000 روپے سے 15,000 روپے کیا جا رہا ہے۔
8) پاکستان بحریہ کے مختلف الاؤنسز کو بھی بڑھایا جا رہا ہے جن میں Batman Allowance اور Pay Hardlying وغیرہ شامل ہیں۔
9 ) ڈیزائن الاؤنس کو 50 فیصد بڑھایا جا رہا ہے۔
10) پاکستان پوسٹ کے مختلف الاؤنسز کو بھی بڑھایا جا رہا ہے۔
11)Frontier Constablary کے جوان پاکستان کے طول و عرض میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ ان کی تنخواہ کو بہتر بنانے کیلئے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ان کو 8000 ر وپیہ ماہانہ کے ریٹ پر ایک Fixed Allowance دیا جائے گا۔ اس Allowance کو 3 برابر حصوں میں دیا جانا ہے۔ پہلا حصہ یکم مارچ 2017ء سے دیا جا چکا ہے۔ دوسرا حصہ یکم جولائی 2017ء سے دیا جائے گا اور تیسرا حصہ یکم جولائی 2018ء سے دیا جائے گا۔
ان تمام اقدامات پر 125 ارب روپے اضافی خرچ کا تخمینہ ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے سال کے Salary اور Allowances میں اضافی خرچ 67 ارب روپے تھا۔
12) کم از کم اجرت کو 14,000 روپے سے بڑھا کر 15,000 ہزار روپے کیا جا رہا ہے۔
حصہ چہارم
Vision 2018-23
جناب سپیکر!
120۔ اللہ کے کرم، قوم کی دعاؤں اور وزیراعظم نوازشریف کے Vision اور ان کی ٹیم کی محنت کے نتیجے میں پاکستان دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اب ہمیں اپنی معیشت کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی معیشت کوHigher, Inclusive and Sustainable Growth کی راہ پر گامزن کر سکیں۔
121۔ پاکستان کو اب Second Generation Reforms پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے جن میں Ease of Doing Business, Deepening of Financial Market کو بہتر بنانا، مالکانہ حقوق کا تحفظ، Improving Regulatiory Apparatus، قانون کی بالادستی، نظام عدل کی بہتری اور ایک ایسی ادارہ جاتی اساس مہیا کرنے کی ضرورت ہے جو پائیدار بنیادوں پر معاشی ترقی یقینی بنائے اور معیشت کو بیرونی اتار چڑھاؤ سے محفوظ رکھے۔
122۔ ہماری 70 سالہ تاریخ میں High Growth Rate کے کئی ادوار گزرے ہیں۔ بدقسمتی سے کمزور گورننس اور معاشی بدانتظامی کی وجہ سے یہ فو ائد ضائع کر دیئے گئے۔ آج میں اس معزز ایوان میں تمام سیاسی پارٹیوں بلکہ پوری قوم کو آئندہ مالی سال کے بعد کے قومی معاشی وژن پر متفق ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔ آئندہ انتخابات جو بھی جیتے اس وسیع تر اتفاق رائے پر مبنی پالیسی پر عمل کر کے ملک کی ترقی کو یقینی بنائے۔
123۔ میری نظر میں اس قومی اقتصادی پروگرام کے اہم خدوخال کچھ اس طرح ہونے چاہئیں۔
(1) اقتصادی ترقی
ہمیں مسلسل 7 فیصد سے زائد کی شرح سے اقتصادی ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔ آئندہ پانچ سالوں کے دوران اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے میں سرمایہ کاری، Competition کا ماحول اور Innovation کو اہمیت حاصل ہونی چاہئے اور نجی شعبہ کو ترقی میں بنیادی کردار ادا کرنا چاہئے۔ سرکاری شعبے کو Growth میں معاون اور محرک کا کردار ادا کرنے کیلئے سرکاری اداروں میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خدمت کے بہتر معیار اور قواعد و ضوابط کے موثر نفاذ کو یقینی بنایا جا سمکے۔ گورننس، شفافیت، احتساب اور کاروبار دوست ماحول کو ہماری پالیسیوں میں بنیادی حیثیت حاصل ہونی چاہئے۔
(2) پائیدار اقتصادی ماحول
Macro Economic Stability یقینی بنانے کیلئے Fiscal Consolidation کی جانی چاہئے۔ نجی شعبہ کی سہولت کیلئے ٹیکس کی شرح کو معقول بنانے کے ساتھ ساتھ محصولات کی وصولی کے دائرہ کار میں اضافہ اور FBR میں مزید اصلاحات کی جانی چاہئیں۔ ایک نئے NFC ایوارڈ کا اعلان ہونا چائے جس میں وفاقی اور صوبائی سطح کی ذمہ داریوں اور وسائل میں توازن پیدا کیا جائے تاکہ صوبائی سطح پر موثر طریقے سے خدمات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ عوام کی بہتر خدمت کیلئے ہمارے بجٹ اور منصوبوں میں زیادہ توجہ نتائج کے حصول پر ہونی چاہئے۔
(3) غربت کا خاتمہ
ہماری معاشی منصوبہ سازی میں غربت کے خاتمہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ غربت کی موجودہ 29 فیصد شرح کو 10 فیصد سے کم پر لانے کیلئے آئندہ پانچ سالوں کے دوران کم آمدنی والے طبقے کی فلاح و بہبود پر بنیادی توجہ دی جانی چاہئے۔
(4) توانائی کا شعبہ
بڑھتی ہوئی اقتصادی ترقی کے پیش نظر پاکستان میں توانائی کی طلب میں خاصا اضافہ متوقع ہے۔ بجلی کی 15,000 میگاواٹ پیداوار کے منصوبے زیر تکمیل ہیں جو کہ 2018ء کے بعد مکمل ہوں گے۔ اس کے علاوہ ہمیں مزید 10,000 میگاواٹ بجلی اور 2 سے 3 ارب کیوبک گیس یومیہ پیدا کرنے کا پروگرام بنانا چاہئے۔ ان اہداف کے حصول کیلئے ہمیں Regional Connectivity کے منصوبوں کی تکمیل کیلئے پرعزم ہونا چاہئے۔
(5) خوراک کا تحفظ (Food Security)
تمام صارفین کو ضروری اشیائے خوردونوش کی سستی قیمتوں پر فر اہمی کو یقینی بنانے کیلئے بنیادی فصلوں کی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ زرعی درآمدی اشیاء کے متبادل مقامی طور پر پیدا کرنے پر بھی توجہ دینی چاہئے۔
(6) پانی کی فراہمی
گھریلو استعمال اور زراعت کیلئے پانی کی فراہمی بہت اہم ہے۔ ہر سال ہمارے دریاؤں سے وسیع مقدار میں پانی بہتا ہے مگر ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے بہت سا پانی ضائع ہو جاتا ہے جسے ذخیرہ کیا جانا چاہئے۔ آئندہ پانچ سالوں کے دوران ہمیں دیامر بھاشا ڈیم کی جلد تکمیل پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں پانی کا اسراف بھی روکنا چاہئے۔
(7) Public Sector Enterprises میں اصلاحات
آئندہ پانچ سالوں کے دوران ہمیں PSEs کی Corporatisation اور Efficiency بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔
(8) برآمدات میں مسابقت
جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا تھا کہ عالمی تجارت میں مندی اور اجناس کی قیمتوں میں کمی کے باعث ہماری برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ آئندہ لائحہ عمل کے طور پر ہماری توجہ برآمدات کی Competitiveness بڑھانے اور اس کے نتیجے میں Export to GDP Ratio کو 12 فیصد پر لانے پر مرکوز کرنی چاہئے۔
(9) Regional Connectivity
ہمیں CPEC انفراسٹرکچر کے منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کرنا چاہئے تاکہ علاقائی رابطوں کے ثمرات سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
(10) علاقائی عدم مساوات
کم ترقی یافتہ علاقوں پر توجہ کے ذریعے تمام سماجی و معاشی اعداد و شمار میں عدم مساوات کے خاتمہ کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔
124۔ نہ صرف ہمارا نظریہ بلکہ ہمارا نصب العین یہ ہونا چاہئے کہ آئندہ پارلیمنٹ کی مدت کی تکمیل تک
i۔ ہر بچہ سکول میں ہو۔
ii۔ زچہ و بچہ کی شرح اموات میں نصف حد تک کمی ہو۔
iii۔ ہر بچے کو متعدی بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جائیں۔
iv۔ تمام افراد کو پینے کا صاف پانی میسر ہو۔
v۔ بیت الخلاء کا استعمال عام کیا جائے۔
vi۔ ہر نوجوان با ہنر ہو۔
vii۔ عورت کو بااختیار بنایا جائے۔ افرادی قوت میں خواتین کا تناسب 30 فیصد تک بڑھایا جائے۔
viii۔ ہر گھر کیلئے بجلی دستیاب ہو۔
ix۔ فی کس آمدنی دوگنا کر دی جائے۔
x۔ ہماری آبادی کا بڑا حصہ Financially and Digitally Integrated ہو۔
اختتامی کلمات: (Concluding Remarks)
جناب سپیکر!
125۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے کرم سے ہمیں ملک کی معاشی صورتحال بہتر بنانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ چار سال پہلے کے مقابلے میں آج پاکستان زیادہ خوشحال ہے اور اس کے شہری اپنے اور اپنی نسلوں کیلئے بہتر مستقبل کی امید رکھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عوام کی فلاح و بہبود کے مشترکہ مقصد کیلئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے مل جل کر کام کر یں۔ اگرچہ ہم نے لمبی مسافت طے کی ہے مگر ہمیں آسودہ ہو کر نہیں بیٹھ جانا چا ہئے۔ دراصل ہم اسے فقط ایک آغاز سمجھتے ہیں اور ہمیں اپنی کوششیں مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم 2030 سے پہلے ہی دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہو جائیں۔ یہ صرف تب ممکن ہو گا اگر پوری پاکستانی قوم متفقہ Economic Agenda پر یکسوئی سے عمل پیرا ہو۔
126۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمر ان میں فرمایا ہے:
واعتصموابحبل اللہ جمیعا و لاتفرقوا
(اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں مت پڑو) قرآن کی اس آیت کی روشنی میں اس ایوان کے توسط سے میں پوری قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس معاشی وژن کے حصول کیلئے یکجا اور یکسو ہو کر آگے بڑھے۔
127۔ ہمار ا ایمان ہے کہ رسول اللہ ؐ کا اسوہ حسنہ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اور غیر مسلم یہ مانتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ کی حیات مبارکہ کے دوران ریاست مدینہ تاریخ انسانی میں ریاست کا بہترین ماڈل تھی۔ جناب سپیکر! وہ ماڈل آج بھی اتنا ہی Relevant ہے جتنا پہلے کبھی تھا۔ ہمیں اپنی پالیسی میں اس مثالی ریاست کی روح کو شامل کرنا چاہئے جس کا طرہ امتیاز قانون کی حکمرانی ، شفافیت، میرٹ کا نفاذ، سماجی تحفظ اور اچھی حکمرانی تھے۔
جناب سپیکر!
128۔ اگر ہم اس ماڈل پر عمل کریں تو میرا ایمان ہے کہ ہم قائداعظم اور علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر کو ممکن کر دکھائیں گے اور پاکستان کو جلد ایک خود مختار، خوشحال، باوقار اور ترقی یافتہ ملک بنا دیں گے۔
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
پاکستان پائندہ باد
بشکریہ ملت آن لائن