خبرنامہ

پاکستان آپ سے ایمنسٹی مانگتا ہے….اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پاکستان آپ سے ایمنسٹی مانگتا ہے….اسد اللہ غالب

یہ کیا شومیٔ قسمت ہے کہ ایک ملک مجبور ہو کر اپنے عوام کی طرف دیکھ رہا ہے، وہ ملک جس نے اپنے عوام کو روزی دی، روٹی دی۔ تحفظ دیا، خوشحالی دی۔ اعلیٰ تعلیم دی۔ جس ملک میں چار موسم ہیں جو دنیا کے کسی ملک میں نہیں۔ یہاں سر بفلک پہاڑ ہیں۔ جھرنے اور آبشاریں ہیں۔ دریا ہیں۔ لہلہاتے کھیت ہیں۔ ریگستان ہیں اور ایک طویل ساحل۔ ہر طرح کی معدنیا ت سے اس نے ہمیں نوازا لیکن آج یہ ملک ہمارے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو گیا۔ اس کی جھولی کی طرف دیکھو۔ اس کے ہاتھوں میں کشکول خالی ہے۔ یہ خود بھوکا ہے۔ نحیف و نزار ہے۔ اس کی معاشی زبوں حالی پر دنیا قہقہے لگا رہی ہے۔اور طرفہ تماشہ ہے کہ اس ملک کی بھوک مٹانے کے لئے اس کے عوام ایک طبقے کے پاس وسائل بھی موجود ہیں، ان کے بنک اکائونٹس لبالب بھرے ہوئے ہیں اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی جائیدادیں ہیں، گھروں میں سونے اور ڈالروں کے ڈھیر ہیں ملک بھوک کے مارے بے حال ہو رہا ہے۔ اس کی حالت سنبھالنے کے

لئے اسے آئی سی یو میں ڈالنا پڑا ہے اور کوئی لمحہ آتا ہے کہ خدانخواستہ اسے وینٹی لیٹر پر ڈالنا پڑ جائے۔

یہ ملک بے چین نظروں سے اپنے عوام کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر سوال ہی سوال تھر تھرا رہے ہیں اس نے ہمارے سامنے جھولی پھیلا رکھی ہے۔

اس ملک نے اپنے عوام کو کئی بار ایمنسٹی دی۔ اپنی کمائی کو حلال کرنے کے لئے ڈھیل دی اور ڈیل کی۔ مگر آج یہ ملک۔ میرا پاکستان آپ سے ایمنسٹی کی بھیک مانگ رہا ہے۔ وہ رحم طلب نظروں سے سوال کر رہا ہے کہ بہت ہو گیا۔ اب اسے بھی ایک بار ایمنسٹی دے دی جائے تاکہ وہ آئی سی یو سے چھٹکارا پا سکے۔ وہ دنیا کے سامنے قرضوں کی بھیک مانگ کر شرمسار نہ ہو، دنیا قرض تو دے ہی دیتی ہے مگر میرے آزاد اور خود مختار ملک کو کئی شرائط کی زنجیروں میں جکڑ دیتی ہے۔

دنیا کا کوئی وزیراعظم روز روز اپنے عوام سے خطاب نہیں کرتا۔ عمران خان نے تو اس وقت بھی چند منٹ کی تقریر کی اور بھارت سے کہا کہ ہم سلطان ٹیپو کی سیرت پر چلنے والی قوم ہیں۔ اس نے تو چند منٹ میں یہ بتایا کہ گزری رات میزائل حملوں کا خطرہ تھا، وہ اس خطرے کی تفصیل میں جاتے تو گھنٹوں گزر جاتے مگر وہ اس قیامت کا منظر بیان نہیں کر سکتے تھے جو اس ملک پر ٹوٹ سکتی تھی مگر ا سنے اختصار سے کام لیا اور دو ایک جملوں سے آگے نہ بڑھا اور جب وہ ملک کی معاشی حالت کو خطرے میں دیکھتا ہے تو وہ ایک ایک دن میں دو دو تقریریں کرتا ہے۔ وہ چند دن کے وقفے سے پھر ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوتا ہے اور اپیلوں پر اپیلیں کرتا ہے کہ لوگو۔ اس ملک کو سب کچھ لوٹا دو جو تم نے لوٹا ہے۔ جو جو ڈکیتیاں کی ہیں۔ واپس کر دو۔ تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ کھلی ایمنسٹی دی جائے گی۔

اس ملک میں ایمنسٹی سکیمیں کئی بار آئیں۔ مگر ان سکیموں کے پیچھے نیت یہ تھی کہ کالا دھن خوب کما لیا، اب اسے سفید کروا لیا جائے۔ عمران خان نے جو ایمنسٹی اسکیم دی ہے ، یہ آخری ہے اور فائنل ہے۔ وہ کرکٹ کا کپتان ہے اور کریز پر جم کے کھڑا ہے اور فیصلہ کن چھکا مارنے کے لئے بے چین ہے۔ اس لئے اس کی اپیل پر دھیان دیا جائے۔ اسے نہ کھیل سمجھا جائے،نہ مذاق تصور کیا جائے۔ وہ جو کہہ رہا ہے اس پر سو فیصد عمل کروانا چاہتا ہے،۔ وہ بتا رہا ہے کہ آج اس کی حکومت کے پاس ایساڈیٹا بیس بھی ہے جو پہلے کی حکومتوں کے پاس نہیں ہوتا تھا۔ اب اس ڈیٹا بیس تک ہر شہری کو رسائی دے دی گئی کہ اس کے پاس کتنی جائیدادیں ہیں کتنے گھر ہیں۔ کتنی کاریں ہیں۔ وہ ملک سے باہر کتنی بار سفر کرتا ہے۔ کن ہوٹلوں میں ٹھہرتا ہے اور کتنا خرچ کرتا ہے۔ اس کے بیرونی اثاثے کتنے ہیں اور کہاں ہیں۔ اس ڈیٹا بیس کے ہوتے ہوئے کوئی شخص اب ملک کو، اس کے اداروں کو دھوکہ نہیں دے سکتا۔ اور جب دھوکہ نہیں دے سکتا تو وزیراعظم نے بار بار کہا ہے، تقریروں کے ذریعے کہا ہے ٹی وی اور اخباروں کے اشتہارات کے ذریعے اپیل کی ہے کہ اپنے جائز ناجائز اثاثے تیس جون تک ظاہر کریں، معمولی ٹیکس دیں اور ہمیشہ کے لئے سکھی زندگی بسر کریں، کوئی نیب، کوئی ایف آئی اے، کوئی ایف بی آر ان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھے گا لیکن اگر کسی نے اب بھی سستی دکھائی یا چالاک بننے کی کوشش کی تو پھر وہ اپنے انجام کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ فلپائن جیسے ملک نے صدر مارکوس اور اس کی بیوی امیلڈا مارکوس کی بیرون ملک دو لت واپس منگوا لی تھی۔ پاکستان تو مالی دہشت گردوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے ہر طرح سے قابل ہے کیونکہ اس نے خونیں دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ مالی دہشت گرد وں کے پائوں کے نیچے سے زمین ہی کھسک گئی ہے، ان کے ہاتھوں میں تو چائے کی پیالی تک لرزتی ہے اور وہ جیل جاتے ہیں تو ٹینشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انہیں اپنی بیماریوں کا علاج پاکستان میں دکھائی نہیں دیتا۔ اس لئے دکھائی نہیں دیتا کہ وہ اس مقصد کے لئے جو فنڈ مختص کیا گیا۔ اسے ہڑپ کر گئے۔ صاف پانی کے لئے قرضہ آیا تو وزیراعلیٰ کے داماد نے اس کمپنی سے اٹھائیس کروڑ کرائے کی مد میں اینٹھ لئے اور وہ بھی ایک ایسی عمارت کا کرایہ جو ابھی بنی ہی نہیں، اب وہ فرار ہو گیا ہے مگر وزیراعظم عمران خان نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ کسی چور، کسی ڈاکو کو معاف نہیں کریں گے اور نہ معاف کرنا چاہئے۔ یہ بھی غلط ہو گا کہ جو لوٹی کمائی واپس کر دیں تو انہیںمعافی مل جائے۔ اس طرح تو موبائل فون چھیننے کے الزام میں جیل کاٹنے والا بھی کہے گا کہ وہ موبائل واپس کر دیتا ہے، اس کی جیل کی سزا معاف کی جائے۔ آج اس ملک کے ایک ادارے نے سابق صدر زرداری کی بہن فریال تالپور کے ساتھ نرمی برتی ہے اور اسے گھر کی سب جیل میں بند کر دیا ہے،۔ اس پر ملک کی ساری جیلوں میں گلنے سڑنے والی خواتیں فریاد کر رہی ہیں کہ انہیں بھی ان کے گھروں کی سب جیل میں بند کیا جائے،۔ ان کے ساتھ تو ان کے معصوم شیر خوار بچے بھی جیل کاٹنے پر مجبور ہیں۔ قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے۔ وزیراعظم کا اعلان تو یہی ہے مگر اس ملک کے اداروں کو بھی وزیراعظم کے احکامات کی تعمیل کرنا ہو گی تاکہ کوئی ڈاکو، کوئی لٹیرا احتساب کے شکنجے میں آبے سے بچ نہ سکے اور اگر کوئی بچنا چاہتا ہے تو اس کے لئے وزیراعظم نے تیس جون کی ڈیڈ لائن دے دی ہے کہ اپنے غیر قانونی اثاثے ڈیکلیئر کر دیں، ان پر معمولی ٹیکس دیں اور جان کی امان پائیں۔

میں کہتا ہوں کہ یہ ایمنسٹی سکیم وزیراعظم کی طرف سے نہیں بلکہ مملکت خداداد پاکستان کی طرف سے ہے۔ میرا ملک اپنے عوام سے ایمنسٹی کی بھیک مانگ رہا ہے۔ رحم کی اپیل کر رہا ہے کہ اس کی معیشت کا گلا مزید نہ گھونٹا جائے۔

میرے پاکستانی بھائیو آپ کے ملک نے پہلی بار ایمنسٹی مانگی ہے۔ خدارا اس پر رحم کھایئے۔ اسے دنیا کی نظروں میں ذلیل و رسوا ہونے سے بچایئے، اسے مملکت خداداد سمجھ کربچانے کے لئے آگے بڑھئے۔ وزیراعظم عمران خان کی اپیل کا مقصد و مدعا بھی یہی ہے۔