خبرنامہ

پیٹرول پر ٹیکس کن قوانین کے تحت لگتے ہیں؟ اداروں کو حساب دینا ہوگا: چیف جسٹس

کراچی: چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے پیٹرولیم مصنوعات پر اضافی ٹیکسوں سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ لیوی اور دیگر ٹیکس کن قوانین اور فارمولے کے تحت لگائے جارہے ہیں؟ لوگوں کو ٹیکس لگا لگا کر پاگل کر دیا ہے تمام اداروں کو حساب دینا ہوگا۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین اور اضافی ٹیکسوں سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں ڈپٹی ایم ڈی پی ایس او یعقوب ستار اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

یعقوب ستار نے عدالت کو بتایا کہ پیٹرول کی اصل قیمت 62.38 روپے فی لیٹر ہے، پیٹرول پر 9.85 روپے فی لیٹر لیوی ٹیکس، 8.83 روپے آئی ایف ای ایم ٹیکس عائد ہے جب کہ 2.55 روپے فی لیٹر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور 3.35 روپے فی لیٹر ڈیلرز کا کمیشن ہے۔

ڈپٹی ایم ڈی نے بتایا کہ مئی میں وفاقی حکومت نے پیٹرول پر 15 فیصد ٹیکس عائد کیا، 12 جون کو پیٹرول پر ٹیکس 12 فیصد کردیا گیا، ٹیکس عائد ہونے کے بعد پیٹرول کی قیمت 91.96 روپے فی لیٹر ہوگئی۔

چیف جسٹس پاکستان نے پی ایس او حکام کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر، سیکریٹری پیٹرولیم، ایم ڈی پی ایس او اور سیکریٹری وزارت توانائی کو جمعہ کو طلب کرلیا۔

عدالت نے گزشتہ 6 ماہ کی پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کا مکمل حساب، بین الاقوامی پیٹرول کی بولی اور قیمتوں کے آکشن کی بھی تفصیلات طلب کرلیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھے درآمدات کاعمل سب سے زیادہ مشکوک لگتا ہے، لیوی اور دیگر ٹیکس کن قوانین اور فارمولے کے تحت لگائے جارہے ہیں؟لوگوں کا کہنا ہے اوگرا اور دیگر ادارے ہمیں بے وقوف بنارہے ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ لوگوں کو ٹیکس لگا لگا کر پاگل کردیا، لوگ کہتےہیں گھروں پر بیٹھ کر اضافہ اور کمی کردیتے ہیں، تمام اداروں کو حساب دینا ہوگا، معلوم ہے کیسے آپ لوگوں کے آڈٹ ہوتے ہیں۔

یعقوب ستار نے عدالت کو بتایا کہ مختلف اداروں نے ہمارے 300 ارب روپے دینا ہیں، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان اداروں سے 300 ارب روپے کیوں واپس نہیں لے رہے؟ اس کا مطلب ہے آپ بینکوں سے قرضہ لے کر معاملات چلارہے ہیں۔

ڈپٹی ایم ڈی پی ایس او نے بتایا کہ بینکوں سے 95 ارب روپے قرضہ لے رکھا ہے، ہر سال 7 ارب روپے بینکوں کے سود کی مد میں جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کی شکایت ہے پی ایس او اور اوگرا مل کر قیمت بڑھادیتے ہیں، گھر بیٹھے بیٹھے قیمتیں بڑھتی ہیں، سارا حساب دینا ہوگا۔