خبرنامہ

ہر ادارے کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہوں، نواز شریف

ہر ادارے کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہوں، نواز شریف

اسلام آباد:(ملت آن لائن) سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ ہر ادارے کے ساتھ آئین کی حدود میں مذاکرات کے لیے تیار ہوں اور یہ مذاکرات ذاتیات کے حوالے سے نہیں ہوں گے۔ احتساب عدالت میں میڈیا نمائندوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ آئین کی حکمرانی، جمہوریت اور ملکی مفاد کے لئے ہر ادارے کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہوں۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ کارکردگی کے باوجود نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے، میرا تو کسی ادارے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اور یہ سارا معاملہ ہی کالا لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی قسم کی کرپشن کا الزام نہ ثابت ہوا نہ سامنے آیا اور ضمنی ریفرنس دائر کرنے کے مقصد پر سوالیہ نشان ہے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں ایٹمی دھماکے کرنے والا آج کورٹ میں بیٹھا ہے، اقامہ کو بنیاد بنا کر پہلے وزارت عظمیٰ سے پھر پارٹی صدارت سے ہٹایا گیا اور اب اسی فیصلے کو بنیاد بنا کر تاحیات نااہل کرنے کی سوچ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا عوام نے نہ یہ فیصلہ مانا اور نہ ہی مانیں گے، سب کو اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے حالیہ کردار کی وجہ سے ان سے بہت مایوس ہوا جس کی وجہ سے نگراں وزیراعظم پر ان سے مشاورت نہیں ہوسکتی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان کی اسمبلی میں تبدیلی لانے کی ضرورت کیوں پیش آئی، قوم جاننا چاہتی ہے کہ بلوچستان میں تبدیلی کس کے لئے ضروری تھا ۔ نواز شریف نے کہا کہ بلاول غلط کہتے ہیں کہ (ن) لیگ چارٹر آف ڈیموکریسی سے پیچھے ہٹ گئی، میثاق جمہوریت کے بعد جو این آر او کیا گیا اس نے نقصان پہنچایا جب کہ میں کہہ چکا ہوں کہ میمو گیٹ میں صرف ایک بار سپریم کورٹ گیا۔ تحریک انصاف کے جلسوں پر تبصرہ کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ عمران خان پہلے مینار پاکستان پر جلسے کرتے تھے اب گلی محلوں میں کرتے ہیں، تبدیلی تو آ گئی ہے۔
نواز شریف کی عدالت کے باہر گفتگو
سابق وزیراعظم نے کہا کہ نگران حکومت کے معاملے میں سب سیاستدانوں کو بیٹھنا چاہیے اور اگر اس حوالے سے کوئی ترمیم لائی گئی تو اس کی حمایت کریں گے۔ نواز شریف نے کہا کہ نگران حکومت کے اختیارات کے بارے بہت سی چیزیں طے شدہ نہیں ہیں، اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ نگران حکومت آئینی اختیارات سے باہر نا نکلیں۔ انہوں نے کہا کہ نگران حکومت کے معاملے میں حکومت اور اپوزیشن لیڈر کا کردار اہم ہے، نگران حکومت میں کیا ہونا چاہیے کیا نہیں، اس پر بات ہونی چاہیے اور اسے اپنی حدود سے نہیں نکلنا چاہیے۔