خبرنامہ انٹرنیشنل

دولتِ اسلامیہ میں 40 ممالک کے لوگ بھرتی ہوئے:جر من وزیرِ داخلہ

بر لن(آن لائن)جر منی کے وزیرِ داخلہ تھامس ڈی میزرے نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم میں بھرتی ہونے والے سینکڑوں افراد کے کوائف چوری شدہ فائلوں موجود ہیں۔تھامس ڈی مزیرے نے کہا ہے کہ ان معلومات کی مدد سے دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی میں مدد مل سکتی ہے اور اس شدت پسند گروہ میں بھرتیوں کو روکا جاسکتا ہے۔یہ فائلز جنھیں جرمنی، شام اور برطانیہ کے میڈیا نے حاصل کرلیا ہے کا کہنا ہے کہ دولتِ اسلامیہ میں 40 ممالک کے لوگ بھرتی ہوئے ہیں۔اس تنظیم کے سرکاری فارم میں تنظیم میں بھرتی ہونے والوں کے نام، پتے، فون نمبر اور ان کی فن اور صلاحیت کے بارے میں لکھا گیا ہے۔قطر میں موجود شامی ویب سائٹ زمان الوصر پر دولتِ اسلامیہ کے سرکاری فارم جو کہ عربی زبان میں ہے کو اپ لوڈ کیا ہے۔سامنے آنے والی فہرست میں شامل دو افراد کیرم مارک بی اور عبدالکریم اس وقت جرمنی میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔اس فہرست میں شامل دو اور جرمن شہری فرید یٰسین دولتِ اسلامیہ کی ویڈیو میں بھی نظر آئے تھے۔ولندیزی میڈیا نے ابو جہاد الہولاندی کی شناخت ایمسٹرڈیم کے اکراف بوامران کے طور پر کی ہے جو امریکی ڈرون حملے میں جنوری 2015 میں رقہ میں ہلاک ہو گئے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ ہولاندی جنگجو بننا چاہتے تھے۔فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والے جنید حسین اور ریاض خان کا نام بھی دولتِ اسلامیہ کی ڈیٹا فائلز میں موجود ہے۔بتایا گیا ہے کہ جرمنی کی انسداِ دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ کی پولیس ان فائلز کا مطالعہ کر رہی ہے۔جرمنی کے وزیرِ داخلہ کا کہنا ہے کہ فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن کا خیال ہے کہ یہ دستاویزات اصلی ہیں۔انھوں نے کہا ہے کہ ان فائلوں کی مدد سے ہم دولتِ اسلامیہ کے ڈھانچے بہتر طریقے سے سمجھ جائیں گے اور ممکنہ طور پر اس میں شامل ہونے کے خواہشمند نوجوانوں کی حوصلہ شکنی بھی ہوگی۔برطانوی وزیرِ داخلہ تھریسا مے نے کہا ہے کہ وہ قومی سلامتی کے ان خاص معاملات پر تبصرہ نہیں کر سکتیں۔انھوں نے کہا ہے کہ دولتِ اسلامیہ ایک شدید خطرہ ہے اور یہ اہم ہے کہ ہم اس خطرے سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں۔سکائی نیوز کے مطابق ان فائلوں میں 22 ہزار جہادیوں کے نام، ٹیلی فون نمبر، ایڈریس اور ان کے خاندان کے پتے ہیں۔بتایا گیا ہے کہ یہ دستاویزات ابو حماد نامی ایک شخص نے دی ہیں جس نے دولتِ اسلامیہ سے منحرف ہونے کے بعد اس کی میموری سٹک چرا لی تھی۔جرمنی کے ایک اخبار کے ایڈیٹر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہ دستاویزات بااعتماد ذریعے سے حاصل کی ہیں۔انھوں نے بتایا کہ دولتِ اسلامیہ کی معاشی حالت خراب ہے اور اس سے وابستہ لوگ پیسے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اس تنظیم کا موصول ہونے والا ڈیٹا سنہ 2013 کے اواخر اور سنہ 2014 کے شروع کا ہے یعنی حالیہ ڈیٹا موجود ہیں تاہم یہ پھر بھی کام آسکتا ہے۔