خبرنامہ انٹرنیشنل

لیبیا کے معاملے پربرطانوی وزیراعظم کا کر دار غیر ذمہ درانہ تھا ۔امریکی صدر

واشنگٹن (آن لائن)امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ سنہ 2011 میں لیبیا میں مداخلت کے بعد برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی’ توجہ بٹ‘ گئی تھی۔دی ایٹلانٹک میگزین کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں انھوں نے بین الاقوامی برادری میں شامل ان ممالک پر تنقید کی جو کارروائی کے لیے کہنے کے باوجود فوجی وسائل فراہم نہیں کرنا چاہتے۔آرٹیکل کے مطابق صدر اوباما نے برطانوی وزیراعظم کو خبردار بھی کیا کہ ان کے ملک کو اپنا ’فیئرشیئر‘ یعنی درست حصہ ڈالنا ہوگا اور اپنے ملک کی کل پیداوار کا دو فیصد دفاع پر خرچ کرنا ہوگا۔برطانوی وزیراعظم کے دفتر ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کی جانب سے صدر اوباما کے دفاعی بجٹ سے متعلق ریمارکس پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔اطلاعات کے مطابق چانسلر جارج اوسبورن نے کہا ہے کہ حکومت نیٹو سے گذشتہ سال کیا جانے والا یہ وعدہ پورا کرے گی کہ وہ اپنی قومی آمدن کا دو فیصد دفاع پر خرچ کرے گی۔ادھر امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے کہا ہے کہ کیمرون بالکل ویسے ہی قریبی پارٹنر ہیں جیسے صدر اوباما رہے ہیں اور ’ہم خارجہ پالیسی کے اہداف اور قومی سلامتی کے لیے برطانیہ کے ساتھ شراکت کی گہری قدر کرتے ہیں۔‘صدر اوباما نے کہا کہ اس مداخلت کی وجہ سے لبیا کو بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتوں سے بچایا ورنہ طویل اور خونی خانہ جنگی ہوتی۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس سب کے باوجود لبیا افراتفری کا شکار ہے۔لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد وہاں خلا پیدا ہوا اور لیبیا غیر مستحکم ہوا کیونکہ اب وہاں کسی کو بھی مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہے۔اپنے انٹرویو میں امریکی صدر نے یہ کہا تنقید کی گنجائش موجود ہے کیونکہ مجھے یورپ پر زیادہ اعتماد تھا۔انھوں نے کہا کہ بہت سی دیگر چیزوں کی وجہ سے برطانوی وزیراعظم کی توجہ بٹ گئی تھی۔اپنے انٹرویو میں صدر اوباما نے فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی پر بھی تنقید کی اور کہا کہ انھوں نے توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔انھوں نے کچھ ممالک کو ’مفت سوار‘ کہہ کر بھی پکارا۔ انھوں نے کہا کہ یورپ اور خلیجی ممالک نے قذافی کے خلاف جنگ کرنے کو کہا لیکن گذشتہ چند دہائیوں سے لوگوں کی یہ عادت بن گئی ہے کہ وہ ہمیں کسی اقدام پر تو اکساتے ہیں لیکن خود اس میں حصہ لینے پر آمادہ نہیں ہوتے۔صدر اوباما کے انٹرویو کے ردعمل میں ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ نے کہا ہے کہ معصوم لوگوں کی مدد کے لیے آنا جن پر ان کے سربراہ کی جانب سے تشدد کیا جا رہا تھا اور انھیں قتل کیا جا رہا تھا ایک درست اقدام تھا۔ترجمان نے مزید کہا کہ برطانوی حکومت لیبیا میں جامع حکومت کے قیام کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے جاری عمل کی حمایت کر رہی ہے اور وہاں استحکام کے لیے کوشش کر رہی ہے۔واضح رہے کہ نیٹو کی حمایت یافتہ افواج نے سنہ 2011 میں لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا جس کے بعد سے لیبیا افرا تفری کا شکار ہے۔لیبیا میں اس وقت دو حریف حکومتیں قائم ہیں، جن میں سے ایک مرکزی شہر تریپولی جبکہ دوسری وہاں سے 1,000 کلو میٹر کے فاصلے پر توبروک میں موجود ہے۔اس صورتِ حال کے باعث بین الاقوامی سطح پر یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والی تنظیم اس کا فائدہ اٹھا کر لیبیا کے اندر خود کو مضبوط بنا رہی ہے۔#/s#